میں آج ایک بے آب وگیا صحرا کے وسط میں کھڑا مشرق سے اُبھرتے سورج کی پہلی کرنوں سے نظریں چُرا رہا ہوں. میرے سامنے صحرا کی ریت پر انگنت لکیریں سانپوں کے رقص کی تصویر کشی کر رہی ہیں.
لمحہ لمحہ سورج کی بڑھتی تمازت سے میں جب آسمان کی طرف دیکھتا ہوں تو وہاں پرندوں کے غول میرے اردگرد منڈلانے لگتے ہیں. ان پرندوں میں گدھ بھی ہیں جو مجھے اپنی خوراک بنانے کے خیال سے فضا میں چکر لگا رہے ہیں.
میں سوچتا ہوں کہ آخر ایسا کیوں ہے؟
میری زندگی تو صحرا کی مانند اور سانسیں ان ریت کے ذروں کی طرح طوفانوں کی زد میں ہے تو مجھ پر کھلا کہ میں بنت ارض ایشیا کے بارے چند لفظوں کو تصویر بنانے لگا ہوں.
شدت پسندی کی آگ تو ضیائی دور میں شروع ہوئی اور اس نے پورے پاکستان کو اپنی لپیٹ میں لیا 9/11 کے واقعہ کے بعد پرویزمشرف نے کسی اور کی جنگ میں کود کر رہی سہی کسر پوری کردی۔ دہشت گردی کی ایک ایسی جنگ چھڑی جس نے ہماری دھرتی کو لہو لہان کردیا ہر طرف بم دھماکے ،لعشیں اور خون۔اسی دہشت گردی کی لیپٹ میں جہاں کئی قیمتی جانوں کا نقصان ہوا وہیں اس دھرتی کی بیٹی اور لیڈر محترمہ بے نظیر بھٹو بھی آئیں۔
عینی شاہد ہے وہ لیاقت باغ
عورتیں بھی شہید ہوتی ہیں
مجھے آج بھی وہ دن یاد ہے جب محترمہ کی شہادت کی خبر ملی تو پورے ملک کی طرح لیہ ایسے شہر بھی سڑکوں پر نکل آیا، لیہ سے ایک قافلہ محترمہ کو پاکستان میں ویلکم کرنے پہنچا تھا جس میں شیخ بدر منیر، رانا غلام عباس ،سید تحسین شاہ،سید گلزار حسین شاہ،عبدالرحمن مانی،حسرت خان خٹک، قوی شاہ، ارجمند قریشی، قاضی احسان اللہ خان، ملک عاشق کھوکھر، رانا امتیاز کھوکھر،صدیق کامریڈ،فضل جسکانی و دیگر شامل تھے۔
محترمہ کی شہادت کے بعد پورا ملک بدامنی کا شکار ہوگیا۔
محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کے متعلق پاکستان پیپلز پارٹی کے کچھ لوگوں کی رائے یہ ہے کہ وہ مقتدر حلقوں کے خلاف نہیں ہیں کچھ کی رائے ( جو سیاسی مخالف تھے) کہ بے نظیر بھٹو اس طرح کی سرگرمیاں اختیار کیے ہوئے تھیں جس سے مقتدرہ حلقوں کو کوئی نقصان پہنچے ،ایک مفروضہ یہ بھی تھا کہ جنرل ضیا الحق کے مارشل لا کے دوران ذوالفقار علی بھٹو پر اقدام قتل کا کیس چلا اور ذوالفقار علی بھٹو کو راولپنڈی کی جیل میں سزائے موت دے دی گئی ۔ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی اور عدالتی قتل پر محترمہ بے نظیر بھٹو کا کوئی ڈھکا چھپا موقف نہیں تھا بلکہ اس پر ان کا واضح موقف تھا کہ "میرے والد کا عدالتی قتل کیا گیا کیا اور یہ دراصل انصاف کا قتل ہے”ذوالفقار علی بھٹو کے قتل کو اگر قانونی نقطہ نظر سے دیکھیں تو ہمیں اندازہ ہوگا کہ ذوالفقار علی بھٹو پر جو مقدمہ بنایا گیا وہ اصولی طور پر سیشن کورٹ میں چلنا تھا اور بعد ہائی کورٹ میں چلایا جانا تھا مگر ایسا نھیں ہوا بلکہ ڈائریکٹ ہائی کورٹ میں مقدمہ۔چلاگیا۔اس کی وجہ اس وقت کے چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ مولوی مشتاق حسین تھے ۔مولوی مشتاق حسین جو بھٹو سے کچھ وجوہات کی بنا پر ناراض تھے جس کی ایک وجہ یہ تھی کہ مولوی مشتاق حسین چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ بننا چاہتے تھے مگر ذوالفقار علی بھٹو کے پاس کچھ اطلاعات ایسی تھیں جس کی بنا پر ذوالفقار علی بھٹو نے مولوی مشتاق حسین کو چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ لگانے سے صاف انکار کر دیا کیا یہی وجہ ہے ہے کہ جب ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف اقدام قتل کا مقدمہ ہوا تو چیف جسٹس مولوی مشتاق حسین نے اپنی پسند کا ایک بینچ تشکیل دے کر ذوالفقار علی بھٹو کو سزائے موت دلوا دی ۔اسی بنا پر محترمہ بے نظیر بھٹو اپنے والد ذوالفقار علی بھٹو کے قتل کو عدالتی قتل کہتے تھیں۔
محترمہ کی شہادت کے فورا بعد بعد سابق ڈی جی آئی ایس آئی جرنل حمید گل(حمید گل پر الزام تھا کہ 1988 کے الیکشن جنرل حمید گل نے چرانے کی کوشش کی وہ اس وقت آئی ایس آئی کے سربراہ تھے، ان پر ایک الزام یہ بھی تھا کہ ان کے کہنے پر آئی جے آئی کا قیام اور مصطفی جتوئی کو اس کی سربراہی بھی انھی کے کہنے پر دی گئی وہ اس وقت آئی ایس آئی کے سربراہ کے ساتھ کور کمانڈر ملتان بھی تھے حمید گل کی رائے اس لیے بھی اہم ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی کے حلقے یہ کہتے تھے کہ میاں نواز شریف کو پنجاب کا وزیر اعلی اور بعد ازاں پاکستان کا وزیراعظم بھی حمید گل نے بنوایا)کا انٹرویو جو مختلف اخبارات میں شائع ہوا وہ آج بھی ریکارڈ کا حصہ ہے جس میں نے ان کی طرف سے کہا گیا کہ” محترمہ بےنظیر بھٹو محب وطن تھی اور اسی وجہ سے انہیں شہید کیا گیا” اس رائے کو اس لئے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کیوں کہ حمید گل پاکستان کی سیاسی فوجی تاریخ میں ایک اہم جنرل کے طور پر جانے جاتے تھے۔
محترمہ بے نظیر بھٹو صاحب بصیرت لیڈر تھیں انہوں نے شمالی کوریا سے میزائل ٹیکنالوجی حاصل کی۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کے ویژن کا اندازہ آپ اس سے کریں کہ انہوں نے اس خواب کی تکمیل کی جو قائد اعظم محمد علی جناح نے دیکھا تھا۔ قیام پاکستان کے بعد بنگالیوں نے یہ قائد اعظم کو کہا کہ پاکستان کا دارالخلافہ بنگال بنائیں نہ کہ کراچی تو اس پر قائداعظم نے بنگالیوں کو ٹیبل ٹاک کی دعوت دی اور اس مکالمے میں قائداعظم نے پہلا سوال بنگالیوں کے وفد سے کیا کہ اگر انڈیا حملہ کردے تو اس صورت میں مغربی حصہ تو آپ کو سپورٹ نہیں کر سکتا کیوں کہ (جغرافیائی لحاظ سے ) درمیان سے سپلائی لائن کاٹ جائے گی چوں کہ بنگالی کے سرحد کسی بھی مسلم ممالک کے ساتھ نھیں لگتی اس لیے اس کسی مسلم ممالک سے سپورٹ بھی نھیں مل سکے گی۔اگر ہم کراچی کو دارالخلافہ بناتے ہیں تو ہمارا چہرہ انڈیا کی طرف ہوگا مگر ہماری پشت پر دو مسلمان ممالک یعنی ایران اور افغانستان ہوں گے اس پر بنگالیوں نے اتفاق کیا۔ جس طرح قائداعظم کراچی کو اہمیت دیتے تھے اسی طرح محترمہ بے نظیر بھٹو نے گوادر شہر اور گوادر پورٹ کی بنیاد رکھی۔ ذرا غور کریں تو سی پیک ایران اور افغانستان کے علاوہ ازبکستان تاجکستان ترکمانستان ،آزر بائیجان، عراق ترکی الغرض پوری مسلم ورلڈ سے منسلک ہوجائیں گے ۔محترمہ بے نظیر بھٹو نے گوادر کا افتتاح کیا اور اس سے بڑھتی ہوئی حکمت عملی کے تحت تمام ممبران اسمبلی کو گوادر میں اپنے پلاٹ خریدنے کی ترغیب دی تاکہ گوادر جلدی بڑا تجارتی مرکز بن جائے۔ معاشی صورتحال کو بہتر کرنے کے لئے جب چائنہ سے گوادر ،سی پیک کا معاہدہ کیا اس وقت کچھ قوتیں متحرک ہو گئی جو اس گیم چینجر پروگرام کو ختم کرنا چاہتے تھے۔اسی دور میں بلوچستان لبریشن آرمی وجود میں آ گئی جس کا بلوچوں سے کوئی تعلق نہ تھا باخبر جانتے ہیں کہ وہ کون لوگ تھے جو اسلحہ اور پیسے کے ساتھ بلوچستان میں کام کرتے رہے ہیں اور اب بھی گاہے گاہے انڈیا کے پالتو ایجنٹ کے طور پر مختلف وارداتیں بلوچوں کے نام پر کر رہے ہیں جبکہ سارے بلوچ قائد اعظم کے ساتھی تھے۔ قائد اعظم کایہ احسان تو سندھی بھی نہیں بھول سکتے کیوں کہ کراچی جو کہ بلوچستان کے ایریا تھا وہ انگریزوں کو لے کر دیا کہ وہ اپنا صوبائی دارالخلافہ بنائیں۔
اسی اہمیت کو کسی اور لیڈر نے نھیں پرکھا یا تو قائد اعظم نے سندھ کو گیم چینجر کا خواب دیکھا یا پھر محترمہ بے نظیر بھٹو نے یہی وجہ ہے کہ آج انڈیا، برطانیہ اور امریکہ اسی سی پیک کے منصوبہ سے اس قدر خوف زرہ ہے کہ وہ اب حیلے بہانے ڈھونڈ رہا ہے کہ کو کسی طرح ناکام بنایا جائے” کیا بنے بات جہاں بات بنائے نہ بنے”.
گوادر پورٹ اور سی پیک محترمہ کا وہ منصوبہ تھا جس سے پاکستان کا مستقبل روشن ہو جائے گا اور وہ دن دور نھیں جب پاکستان ایشین ٹائیگر بن کر ابھرے گا۔



