سوشل میڈیا جس میں فیسبک ، گوگل، یوٹیوب، انسٹاگرام، ٹویٹر ، آرٹیفیشل انٹیلیجنس اور چیٹ جی پی ٹی کے ساتھ دیگر بہت سے زرائع ہیں جن کو ہم صرف انٹرٹینمنٹ اور رابطہ کے زرائع کی حدتک استعمال کرتے ہیں ، کوئی تصویر یا ویڈیو اپلوڈ کردی اور اس پر سارا دن کمنٹس کرنا ، ویوز دیکھنا اور دوسروں کی رائے پر غور کرنا ، جواب دینا اور وقت گزاری کرنا معمول ہے لیکن اگر انہی سوشل میڈیا ذرائع کو آپ دیگر امور زندگی میں استعمال کرنا شروع کردیں تو بہت کچھ حاصل ہوتا بلکہ سوچ کی کھڑکیوں سے لے کر دروازے تک کھول کر رکھ دیتا ہے ۔ گلوبل نیبرہڈ فار میڈیا انوویشن (GNMI) ایک پاکستانی ادارہ ہے جو کہ صحافیوں کو نئے انداز اور نئی سوچ کے ساتھ سوچنے پرکھنے کا موقع فراہم کرتی ہے گزشتہ دنوں انہوں نے سبز جرنلزم فیلو شپ کا انعقاد کرایا اور موسمیاتی تغیر کے ساتھ سوشل میڈیا سے مفید معلومات حاصل کرنے بارے آگاہ کیا ۔ انہی معلوماتی ٹریننگ کو مزید مفید بنانے کے لئیے ہم نے گوگل کے ساتھ فیسبک کے اندر گھس گئے تو یہاں معلومات کا ذخیرہ ملا اسی کھوج نے علاقہ تھل میں موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات ، گرمی سردی میں اضافہ کی وجوہات ، سوشل میڈیا کا بہتر استعمال پر راہیں کھول دیں ۔ تو ایسے ہی فیسبک کی ورق گردانی کے دوران ایک لائن "پودے بھی موسیقی سے نمو پاتے ہیں” کی طرف بڑھا تو عقدہ کھلا کہ جن پودوں کو ہم صرف سایہ ، خوبصورتی ، لکڑی کے حصول تک محدود رکھتے ہیں بھی ماحول میں بہت سے دیگر کام کررہے ہیں ، اب تک تو ہم نے صرف یہ سنا اور پڑھا کہ پودے ہمارے لئیے آکسیجن پیدا کرتے ہیں اور کاربن ڈائی آکسائیڈ جذب/خارج کرتے ہیں ، ہمارے گھر کے دروازوں، کھڑکیوں ، چارپائیوں اور چھتوں کے استعمال کے لئیے لکڑی مہیا کرتے ہیں اور ہماری دیگر آسائش زندگی کے لئیے کار آمد ہیں ، گھروں میں باغیچے ، گملوں میں پودے آنکھوں کو خیرہ کرتے ہیں تو گلاب ، چنبیلی کے ساتھ دوسرے پودے ہمیں خوشبو مہیا کرتے ہیں ۔ موسم بہار جو کہ آج کل موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث ختم ہو چکا ہے ۔بڑے شہروں میں مصنوعی پھولوں کو سڑک کنارے رکھ کر بہار کا موسم دکھایا جاتا ہے لیکن ہمارا علاقہ تھل اس بارے میں ابھی تک خوش قسمت ہے کہ یہاں بہار میں سرسوں کے پھول اور چنا ، گندم کے لہلاتے کھیت ہمیں بہار کی آمد کا احساس دلاتے ہیں ،
آج پودے موسیقی سے نمو پاتے ہیں سے شروع ہونے والا سفر مزید جستجو میں لے گیا تو سوشل میڈیا کی دنیا نے بتایا کہ پودے انسانی آوازوں کو سنتے ہیں سمجھتے ہیں ، محسوس کرتے ہیں بلکہ اپنے دفاع میں مختلف آوازیں نکالتے ہیں اور اپنے من پسند حشرات کے لئیے انکی خوراک کو بڑھا دیتے ہیں آپس میں باتیں کرتے ہیں بلکہ کیلیفورنیا کی ایک یونیورسٹی نے یہ بھی لکھا ہے کہ پودے اپنی علاقائی زبانوں میں آپس میں گفتگو کرتے ہیں ۔ پودے انسانوں کی طرح سن نہیں سکتے، لیکن ان کی حساسیت کے لئیے ان کا ایک مخصوص نظام ہوتا ہے۔ وہ اپنے ماحول میں تبدیلیوں کو محسوس کرتے ہیں، جیسے روشنی، گرمی،سردی ، ہوا ،پانی اور موسمی تبدیلیاں۔ ان کی نمو، پھولوں کی خوشبو، اور پتوں کی رنگت بھی ان کے ماحول کے تغیرات کی علامتیں ہوتی ہیں۔ وہ انسانوں کی حرکات، گفتگو، اور دیگر انجامات کے بنیادی اثرات کو محسوس کر سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ، اگر انسانی آوازوں کی زیادہ شدت یا ایک خاص طرح کی ٹھوکریں پودے پر لاگو ہوں، تو یہ ان کی رونق اور نمو پر اثر ڈال سکتی ہیں۔
پودوں کی جدید تحقیقات نے اظہار کیا ہے کہ وہ مختلف عوامل جیسے آواز، جھٹکے، اور ٹھوکریں کو بھی احساس کر سکتے ہیں۔ ان کی حساسیت اور ردعمل کے علاوہ، کچھ تحقیقات نے دکھایا ہے کہ پودوں کی نمو اور صحت پر موسیقی کا اثر بھی ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر، بعض تجربات میں دیکھا گیا ہے کہ پودے موسیقی کے ردھم میں اضافے سے اپنی نمو کی رفتار بڑھا سکتے ہیں۔ پودوں کی رونق، پھولوں کی کیفیت، اور ان کی فصلیں ان کے ماحول کی تبدیلیوں کی علامتیں بھی ہوتی ہیں۔ ان کی روزمرہ کی معاملات اور ردعملات کو درست طریقے سے سمجھ کر ہم ان کی دیکھ بھال کر سکتے ہیں یہ حقیقت کہ پودوں کی نظامیات اور حس سے متعلق ہیں ایک دلچسپ موضوع ہے، جس کی مزید تحقیقات کی ضرورت ہے تاکہ ہم ان کے جذبات اور ردعملات کو بہتر سمجھ سکیں۔ کیونکہ اکثر ہم سنتے ہیں مالی کو اپنے پودوں سے بہت پیار ہوتا ہے وہ انکو خوبصورت بناتا ہے انکی خوراک ، پانی ، روشنی کا مناسب انتظام کرتا ہے تو اکثر پودے بھی انکی آمد پر کھلکھلا اٹھتے ہیں۔
جب اس طرف مزید تحقیقات میں گھسا تو دلچسپ سوال لگا کہ پودے موسیقی سے لطف اندوز ہوتے ہیں لیکن پودے کے کان یا روایتی شنوائی نظام نہیں ہوتے، لہذا وہ انسانوں کی طرح موسیقی کو کیسے "سن” سکتے ہیں کچھ محققین نے لکھا کہ نہیں سن سکتے تاہم، تحقیقات کا کہنا ہے کہ پودے جھٹکوں اور فریکوئنسیوں کا جواب دے سکتے ہیں، جن میں انسانی موسیقی کی حدوں میں شامل ہیں۔جیسا کہ ایک خاص فریکوئنسی پر جواب دے کر اپنے نمو کے نمونے یا پتے کی سمت بدل دینا۔ موسیقی کی مسلسل دھن کے ساتھ رہنے پر ان کی نمو کی رفتار اور بائیومیس پروڈکشن بڑھانا موسیقی کے جھٹکوں کا اثر جاتے ہوئے، ان کے ماحول کو متاثر کرنے والے کیمیائی سگنلز کو جاری کرنا۔میرا خیال ہے کہ پودے "موسیقی” کو کلاسیکل یا علاقائی ، فوک، پاپ معنوں میں "نہیں سنتے” ہوں گے لیکن یقیناً وہ موسیقی سے لطف اندوز ہو سکتے ہیں ۔ کیا یہ نہایت دلچسپ نہیں ہے؟گوگل میں تلاش کے دوران (QUORA) ایک ویب سائیٹ ہے جو امریکن ریسرچ اداروں کی رپورٹ شائع کرتا ہے انکی کبھی تحقیقاتی رپورٹس جو سامنے آئیں اسکے مطابق کہ سائنسدانوں نے دریافت کیا ہے کہ پودے موسیقی کا جواب دینے کی صلاحیت رکھتے ہیں، چونکہ آوازیں پودے کی سیلز کو محرک بناتی ہیں اور پودے کے جسم میں مواد کو منتقل کرتی ہیں، نئی نشوونما اور ان کے مضبوط عوامل کی حفاظت کرتی ہیں۔ کچھ سائنسدانوں نے یہ بھی دریافت کیا ہے کہ پودوں کو مختلف اقسام کی آوازوں میں فرق کرنے کی صلاحیت ہے، جیسے کہ مختلف قسم کی موسیقی، فطرت کی آوازیں اور ٹریفک کی شور۔یہاں پودوں اور موسیقی کے بارے میں مزید معلومات ہیں- پودے موسیقی کا جواب دیتے ہیں کیونکہ آوازیں پودوں کی سیلز کو محرک بناتی ہیں- محرک شدہ سیلز کی وجہ سے مواد پودے کے جسم میں منتقل ہوتے ہیں، جو نشوونما کو بڑھاتے ہیں اور پودے کے مضبوط عوامل کو مضبوط کرتے ہیں- پودے انسانی موسیقی کو پسند کرتے ہیں اور آلاتی موسیقی کا جواب دینے میں کمی دکھاتے ہیں- پودے تنازع سے دبکتے ہیں، اور ان آوازوں کا تعلق پودے کو جس قسم کا تنازع ہو رہا ہے اس کے ساتھ ہوتا ہے- پودے بلند فریکوئنسیوں پر آوازیں خارج کرتے ہیں، جو انسانی سماعت کے رینج سے باہر ہوتی ہیں۔۔ یونیورسٹی آف کیلیفورنیا نے جو تحقیقاتی رپورٹ جاری کی ہے وہ گوگل میں یونیورسٹی کی ویب سائیٹ پر دستیاب ہے "Can plants hear music”
یہ مختصر ترین نتیجہ ہے جو مختلف تحقیقاتی مطالعات سے آیا ہے: جبکہ پودے کے کان نہیں ہوتے، وہ اپنے مقامی ماحول میں آوازیں "سن” سکتے ہیں۔ زیادہ اہم بات یہ ہے کہ وہ ردعمل ظاہر کرسکتے ہیں۔
تل ایویو یونیورسٹی کی تحقیق کے مطابق، اوئنوتھیرا ڈرمونڈی پھول "ایک اڑتے ہوئے مکھی کی پلے بیک آواز یا مشابہ افرادی آوازیں سنانے پر، 3 منٹ کے اندر شیرہ زیادہ میٹھا پیدا کرتے ہیں، جو مخلوط بذریعہ بھرائی کے مواقع بڑھاتا ہے۔” یہ پھول بھی میکانی طور پر ان آوازوں کے جواب میں لرزتے تھے، "جو کہ پھول کو ایک سماعتی حسی عضو کے طور پر خدمت کرتا ہے۔” اور یہ بس ایک معاملہ نہیں تھا کہ پھول + آواز = ردعمل — جبکہ پودے زندگی کے لئے شیرہ پیدا کرتے ہوئے جواب دیتے ہوئے لرزتے اور میٹھا، میٹھا شیرہ بناتے ہیں، وہ انتظامی، زیادہ تعددی آوازوں کے بدلے میں کوئی ردعمل نہیں دکھاتے۔
اس کے علاوہ، سائنٹفک امریکن، مغربی آسٹریلیا یونیورسٹی کی کام کی روشنی میں آیا۔ انقیانوسی بائیولوجسٹ مونیکا گیگلیانو اور ان کی ٹیم نے مٹر کے اگتے پودوں کو دو "ہاتھ” کے ساتھ گھڑے میں رکھا — ایک کی طرف پانی کی ٹرے یا پلاسٹک ٹیوب جس میں پانی بہتا ہوتا ہے، جبکہ دوسری سوکھی مٹی کی طرف جاتا ہے۔ تمام مواقع میں، مٹر پانی کی طرف بڑھتے، اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اسے "سن” سکتے ہیں۔ سائنٹفک امریکن کی تحریر نے بھی ایک مطالعے کی طرف اشارہ کیا جو نے 2014 میں راک کریس ارابیڈوپس کو ہواوں کے پھیلاؤ اور چونچ مارنے کے درمیان فرق کرنے کی صلاحیت کی دریافت کی۔ کہ پودا اپنے کیمیائی زہریلے اجزاء کی پیداوار بڑھا دیتا ہے تاکہ پودوں کے کھانے کے طریقے کو ختم کرے۔ ایک تحقیق کے مطالعے نے نوٹ کیا، پودوں پر آواز کے اثرات کی تحقیق عموماً غیر قابل سماعت رینج (20-20،000 ہرٹز) پر مرکوز ہوتی ہے۔ پودے حیرت انگیز جاندار ہیں بغیر دماغ اور مرکزی عصبی نظام کے، وہ بھی اپنے ارد گرد ماحول کو محسوس کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ پودے روشنی، خوشبو، چھونے، ہوا کو بھی احساس کر سکتے ہیں، اور آوازوں کے جواب دینے کی بھی صلاحیت رکھتے ہیں۔ سائنسدان ہائڈی ایپل اور ریکس کاکرافٹ میسوری یونیورسٹی نے انسیکٹ ہربیوئرز کی آواز پودوں کے جواب میں کیا ردعمل آئیں گے، اس پر تجربات چلائے۔۔۔۔
ان تمام تحقیقات سے ہمیں یہ علم ہوتا ہے کہ پودے انسانی آوازوں ، احساسات ، لمحات ، شور اور موسمیاتی تبدیلیوں سے آشنا ہیں بس انکی اپنی آوازوں کو ہم سن اور پہچان نہیں سکتے لیکن وہ انسان آواز میں موسیقی کو سنتے ہیں ان پر اپنے اثرات مرتب ہوتے ہیں ، اپنا ردعمل ظاہر کرتے ہیں اور اپنی نمو میں اضافہ بھی کرتے ہیں۔ مزید معلومات حاصل کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔ آپ بھی اس بارے اپنی رائے کا اظہار کرسکتے ہیں۔