کالم

میرے آئی ایم ایف

انجنیئر افتخار چودھری

انجنیئر افتخار چودھری

فجر کی نماز کے بعد دعا کے لیے جب میں ہاتھ اٹھاتا ہوں تو دل میں سب سے پہلے اپنے ماں باپ کا خیال آتا ہے۔ یہ ایک قدرتی جذبہ ہے کہ انسان اپنے والدین کے لیے دعا کرتا ہے، لیکن اس کے بعد میں ان لوگوں کے لیے بھی دعا کرتا ہوں جنہوں نے میری زندگی میں میرے ساتھ تعاون کیا۔ یہ صرف رشتے دار یا قریبی دوست ہی نہیں، بلکہ وہ تمام لوگ ہیں جنہوں نے میری زندگی کے کسی نہ کسی موڑ پر میرا ساتھ دیا۔ اور پھر وہ بھی، جن کے ساتھ میں نے خود تعاون کیا، جب انہیں کامیاب اور پھلتا پھولتا دیکھتا ہوں، تو دل میں ایک خاص خوشی پیدا ہوتی ہے۔

زندگی میں جب آپ کے پاس مالی وسائل ہوتے ہیں، تو دوسروں کی مدد کرنا ایک عظیم عمل بن جاتا ہے۔ یہ وہ لمحہ ہوتا ہے جب آپ کو کسی کی ضرورت پوری کرنے کا موقع ملتا ہے، اور جب وہ شخص آپ کی تھوڑی سی مدد سے کامیابی حاصل کرتا ہے، تو آپ کو ویسی ہی خوشی ہوتی ہے جیسے ایک ماں اپنے بچے کو بڑھتا ہوا دیکھ کر محسوس کرتی ہے۔ اسی طرح، میں بھی ان لوگوں کی کامیابی دیکھ کر خوشی محسوس کرتا ہوں جن کی زندگیوں میں میرا کسی بھی طرح کا کردار رہا ہے۔

میرے دوست سردار ناصر ایک عظیم انسان ہیں۔ کشمیریوں کی خوبی یہ ہے کہ وہ دل کے بہت صاف ہوتے ہیں، اور یہی صاف دلی مجھے ناصر کے ساتھ وقت گزارنے میں محسوس ہوتی ہے۔ نسیم بھائی جیسے لوگوں کے ساتھ میرا تجربہ ہمیشہ اچھا رہا ہے، اور ان کی بھی یہ خواہش ہوتی ہے کہ ان کے ہاتھوں سے لوگوں کو خوشیاں ملیں۔ ماضی کے جھروکوں میں جھانکتا ہوں تو بہت سے لوگ یاد آتے ہیں، جیسے میری خالہ پٹوارن، جنہوں نے میری زندگی کے مشکل وقت میں مالی تعاون کیا تھا۔ جب میں میٹرک کر چکا تھا اور سندھ کی زمینوں میں ہمارے حالات کچھ بہتر نہیں تھے، میرے والد صاحب نے اپنی انگوٹھی بیچ کر مجھے گجرانوالہ بھیجا تھا تاکہ میں اپنی تعلیم جاری رکھ سکوں۔ وہ انگوٹھی آج بھی میری یادوں میں محفوظ ہے۔

والد صاحب نے مجھ سے کہا کہ لاہور جا کر ٹائپ رائٹنگ سیکھو اور اپنے پیروں پر کھڑے ہو جاؤ۔ اُن کی آنکھوں میں امید کی چمک تھی اور وہ دعا کرتے تھے کہ میرے خواب پورے ہوں۔ میں نے اُن سے کہا کہ میرے ساتھ ایک نہیں، دو تین سیکریٹری ہوں گے جو میرے لیے کام کریں گے۔ اُن کے دل میں یہ امید جگا کر، میں اپنی زندگی کے سفر پر روانہ ہوا، اور آج جب میں اُن لوگوں کو یاد کرتا ہوں جنہوں نے میری مدد کی، تو دل میں شکرگزاری کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔

خالہ پٹوارن کے ساتھ ایک یادگار واقعہ بھی ذہن میں تازہ ہے۔ جب مجھے لاہور میں داخلہ لینے کے لیے 300 روپے کی ضرورت تھی، تو میری والدہ نے کہا کہ خالہ پٹوارن سے جا کر مدد مانگو۔ راستے میں ایک حادثہ ہوا، لیکن ہم جیسے تیسے خالہ کے گھر پہنچے۔ انہوں نے بڑے خلوص سے ہماری مدد کی، اور یوں میں اپنی تعلیم کا سلسلہ جاری رکھ سکا۔ مرزا سردار خان اور دیگر کئی لوگوں نے بھی زندگی کے مختلف مراحل میں ہمارا ساتھ دیا، اور آج جب میں ان سب کو یاد کرتا ہوں، تو دل میں اُن کے لیے دعائیں نکلتی ہیں۔

ایسے لوگ جو مشکل وقت میں آپ کی مدد کرتے ہیں، وہ حقیقت میں آپ کے لیے کسی آئی ایم ایف سے کم نہیں ہوتے۔ جیسے بھائی اسحاق، جن سے جب بھی فیس یا کسی ایمرجنسی میں پیسے مانگتا تھا، وہ بڑے دل سے کہتے، "قمیض میں سے نکال لو۔” آج فجر کی نماز میں میری دعائیں ان سب لوگوں کے لیے تھیں جنہوں نے میری زندگی کے سفر میں میرا ساتھ دیا۔

زندگی میں جب آپ دوسروں کے لیے بھلائی کرتے ہیں، تو وہ لوگ کبھی آپ کو نہیں بھولتے۔ دعائیں ہمیشہ آپ کے ساتھ رہتی ہیں، اور یہی دعائیں آپ کی زندگی کو آگے بڑھانے میں مدد دیتی ہیں۔ ہم سب کو چاہیے کہ ہم نیکیاں کریں اور دوسروں کے لیے آسانیاں پیدا کریں۔ یہ چھوٹی چھوٹی نیکیاں ہی ہیں جو ہماری آخرت کا سامان بنتی ہیں۔

عمر خیام کی ایک خوبصورت رباعی مجھے ہمیشہ یاد دلاتی ہے:

"گزرا وقت خواب تھا، آنے والا کل محض ایک امید،
آج کا دن ہی حقیقت ہے، اسی میں جیو اور خوشیاں بانٹو۔”

یہ رباعی ہمیں بتاتی ہے کہ ہمیں آج کے دن میں دوسروں کے لیے کچھ کرنا چاہیے، کیونکہ یہی دن ہمارا حقیقی سرمایہ ہے۔

جب میں آج کے حالات پر نظر ڈالتا ہوں تو دل میں درد اٹھتا ہے۔ تحریک انصاف کے کارکنان اور عمران خان کی جدوجہد کو دیکھ کر سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا ان لوگوں نے دو سالوں میں سکھ کا سانس لیا ہے؟ ہماری خواتین، جیسے طیبہ راجہ اور عالیہ حمزہ، جو مشکلات کا شکار ہیں، ان کے حالات سن کر دل دہل جاتا ہے۔ بزرگ خواتین اور نوجوان، سب ہی کسی نہ کسی طرح ظلم کا شکار ہیں۔

میاں محمد بخش کا کلام ان حالات میں بہت برمحل لگتا ہے:

"یہ دنیا فانی ہے، اصل زندگی وہ ہے جو ہم اپنے اعمال سے سنواریں گے،
یہاں کی مشکلات عارضی ہیں، مگر ان کا اثر دائمی ہو سکتا ہے۔”

ہمیں اس بات کا خیال رکھنا ہوگا کہ ہم کیا کر رہے ہیں اور کس سمت میں جا رہے ہیں۔ ہماری دعائیں، ہمارے حج، ہماری نیکیاں تب ہی قبول ہوں گی جب ہم اپنی زندگی کو درست سمت میں چلائیں گے۔

مجھے یاد ہے نگت، ہماری فیس بک دوست، نے ایک تصویر شیئر کی تھی جو 1950 کی ایک ٹورنگ لائبریری کی تھی، جو امریکہ میں کتابیں بانٹ رہی تھی۔ اس تصویر کو دیکھ کر میں نے سوچا کہ یہ قوم ایسے ہی ترقی یافتہ نہیں ہوئی۔ دوسری طرف، میں اپنے ملک پاکستان کو دیکھتا ہوں اور سوچتا ہوں کہ ہمارا کتاب سے رشتہ کس حد تک کمزور ہو چکا ہے۔ ہم نے اللہ کی کتاب کو بھی طاق پر رکھ دیا ہے۔

ایک بار ایک انٹرویو میں مجھ سے پوچھا گیا کہ ریحام خان کی کتاب کا پاکستان تحریک انصاف پر کیا اثر ہوگا؟ میں نے کہا کہ جو قوم اللہ کی کتاب کو 1400 سال سے طاق پر رکھ کر بیٹھی ہے، اس پر ریحام خان کی کتاب کا کیا اثر ہو سکتا ہے؟ ہمیں اپنی اصل کی طرف لوٹنا ہوگا اور علم کی روشنی کو اپنی زندگیوں میں واپس لانا ہوگا۔

یہ زندگی کا سفر، جس میں ہم نے دوسروں کے ساتھ تعاون کیا اور ان سے تعاون پایا، دراصل ہماری آخرت کا سرمایہ ہے۔ دعائیں وہ پل ہیں جو ہمیں اس دنیا سے اُس دنیا تک لے جائیں گی۔ ہمیں چاہیے کہ ہم اپنی زندگیوں کو نیکیوں اور بھلائیوں سے سجائیں تاکہ جب ہم اس دنیا سے جائیں، تو ہمارے اعمال ہمارے ساتھ جائیں۔ اللہ ہمیں یہ توفیق دے کہ ہم اپنے لیے اور دوسروں کے لیے دعائیں اور نیکیاں کرنے والے بنیں۔

میاں محمد بخش کا یہ شعر ہمیں یاد دلاتا ہے:

"جو بیج آج بوئیں گے، وہی کل کاٹیں گے،
زندگی ایک امانت ہے، اس کو ضائع نہ کریں۔”

یہی اصل کامیابی ہے۔

یہ بھی پڑھیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button

For copy this text contact us :thalochinews@gmail.com