پاکستان کے دولخت ہونے کی کہانی کے پیچھے چھپے کرداروں کی تلاش جاری ہے، لیکن تاحال راقم الحروف کے خیال میں کوئی بھی حتمی نتیجہ سامنے نہیں آیا ہے۔ تحقیق جاری ہے، عینی شاہدین سے لے کر دور بیٹھے تجزیہ نگار اور مبصر اپنے اپنے انداز میں مشرقی پاکستان کے بنگلہ دیش بننے کی کہانی حقیقت تک پہنچنے کی کوشش کررہے ہیں۔ بھارت کو پاکستان توڑنے میں مرکزی ملزم کہا جاتا ہے، اس حوالے سے خاصی دلیل سے بات کی جاتی ہے کہ بھارت قیام پاکستان سے ہی اس تاڑ میں تھا کہ پاکستان کا بازو مطلب مشرقی پاکستان کو مداخلت کرکے کاٹ لیا جائے، اور پھر پاکستان کوملنے والے اس زخم کو انجوائے کیا جائے۔
بھارت کے حوالے اس الزام کو مقامی وبین الاقوامی سطح پر تسلیم بھی کیا جاتا ہے۔ لیکن یہاں سوال یہ ہے کہ مرکزی ملزم بھارت کے ساتھ اس جرم میں دیگر کردار کون تھے جوکہ اس واردات کومکمل کروانے میں بھارت کے دست وبازو بنے ہوئے تھے، اس صورتحال میں ایک ٹھوس رائے یہ بھی پائی جاتی ہے کہ عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ مجیب الرحمان اس واردات میں برابر کے حصہ دار تھے اور مشرقی پاکستان کے بنگلہ دیش کی شکل میں وجود آنے کا سب سے بڑا فائدہ بھی انہی کو تھا۔
یوں وہ عوام میں پاکستان کو دولخت کرنے کے لئے آگ لگانے میں پیش پیش تھے۔ لیکن پھر یہاں ایک اور سوال یہ سامنے کھڑا ہوتا ہے کہ کیا یہ دونوں مطلب بھارت اور شیخ مجیب الرحمان اتنی پوزیشن میں تھے کہ پاکستان کو دولخت کرکے اپنے مقاصد حاصل کرلیتے تو تاریخ میں صاف جواب ملتا ہے کہ نہیں، ایسا بھی نہیں ہے۔ تو پھر مشرقی پاکستان کو توڑنے کے پیچھے اور کون ہوسکتاہے جوکہ بھارت کے ایجنڈے کے قریب تھا یا پھر اقتدار کی خاطر سب کچھ کرنے پر تل گیا تھا اور مینڈیٹ کو بھی تسلیم کرنے سے کنی کترا رہا تھا۔
یہاں پر تحقیق میں سقوط ڈھاکہ میں تیسرا کردار پاکستان پیپلزپارٹی کے سربراہ ذوالفقار علی بھٹو کی شکل میں دیکھنے کو ملتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے بھٹو صاحب مکمل طورپر اس گیم میں موجود تھے اور ان کو بری الزمہ نہیں قرار دیاجاسکتا ہے۔ لیکن مشرقی پاکستان کے سانحہ سے جھلسے لوگ اپنے سوال میں جنرل یحیی خان کا نام بھی لیتے ہیں کہ الیکشن بھی اسی نے کروایا تھا اور حاکم وقت بھی وہی تھا، یوں مشرقی پاکستان کے سانحہ کی کہانی ایک اور یوٹرن لیتی ہے کہ جنرل یحیی کو بھی اس مقدمہ کے ملزموں کی فہرست میں شامل کرلیا جائے تو شاید حتمی نتیجہ حاصل کرنے میں مدد مل جائے، سوال اٹھانے والوں کی بات کو نظر انداز یوں نہیں کیاجاسکتا ہے کیوں کہ جنرل یحیی اقتدار میں تھے اور الیکشن نتیجہ کے بعد ان کی طرف سے اگلی حکومت اور حکمران کے لئے انہوں نے ہی پیشرفت کرنی تھی جوکہ کرنے میں دیر کردی گئی اور کہانی الجھ کر رہ گئی۔
بعض لوگ تو یہاں پر رک جاتے ہیں اور اندر گاندھی، شیخ مجیب الرحمان اور ذوالفقارعلی بھٹو تک ہی رک جاتے ہیں لیکن سوالات اٹھتے رہتے ہیں، جن کا جواب جنرل ایوب خان کی مشرقی پاکستان کے حوالے سے بحیثیت حکمران پالیسوں کی ورق گردانی کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ جنرل یحیی کو اقتدار بھی تو جنرل ایوب خان دے کر گیا تھا اور پھر اپنے دس سالہ دور اقتدار اس نے مشرقی پاکستان کے عوام کی تسلی کے لئے اور خاص طورپر بھارت اور شیخ مجیب الرحمان کے ایجنڈے کو ناکام بنانے کے لئے کیا اقدامات اٹھائے تھے۔یا پھر جنرل ایوب خان مغربی پاکستان تک ہی حکومت کررہے تھے اور مشرقی پاکستان میں محرومیوں کی بدولت ابھرتی آوازوں کی طرف جان بوجھ کر دھیان نہیں دے رہے تھے۔ اوران کو بنگالیوں کی منظم جدوجہد سے اندازہ ہوچکاتھاکہ اب مشرقی پاکستان ہاتھ سے نکل چکا ہے لحاظ مغربی پاکستان کو مستقبل کے لئے تیار کررہے تھے۔ وگرنہ اتنے طویل اقتدار میں تو وہ بھارت کی مجرمانہ عزائم کے آگے کوئی بند باندھ سکتے تھے۔ کہانی یہاں ایوب خان تک بھی محدود نہیں ہے، بات کرنیوالے اس بات پر بھی اعتراض کرتے ہیں کہ بنگالی زبان کو نظرانداز کیا گیا، جوکہ بنگالی عوام سے لے کر طالب علموں کے احتجاج کی وجہ بنی اور ڈھاکہ یونیورسٹی کے طالب علم احتجاج کے دوران مارے گئے اور یہ سانحہ پاکستان کے قیام کے پانچ سال کے اندر ہی ہوگیا تھا۔
اس وقت کے حکمرانوں نے اس معاملے کو طاقت سے دبانے کی کوشش کی جوکہ معاملے کو سلجھانے کی بجائے الجھانے کا سبب بن گئی۔ یہاں راقم الحروف اس بات کا تذکرہ کرنا چاہتا ہے کہ مشرقی پاکستان کے سانحہ کی کہانی، اندرا گاندھی، شیخ مجیب الرحمان، ذوالفقارعلی بھٹو، جنرل یحی خان، جنرل ایوب خان اور پاکستان کے ابتدائی ادوار کے حکمرانوں تک محدود نہیں ہے بلکہ راقم الحروف نے اپنی قائد اعظم یونیورسٹی اسلام آباد سے امریکن اسٹیڈیز میں ایم فل کے دوران تھیسس علاقائی تنازع، علیحدگی، کیس اسٹڈی آف 1971 پر کیا ہے۔ایم فل کے اپنے تھیسس کے دوران مجھے سانحہ مشرقی پاکستان میں دیگر اہم کرداروں کے علاوہ امریکہ اور روس کے کردار کو بھی دیکھنے کا موقع ملا ہے جوکہ بہت سے رازوں سے پردہ اٹھاتا ہے کہ اس وقت امریکہ کی چھتری میں کھڑا پاکستان اپنے وجود کے اہم بازو مطلب مشرقی پاکستان کو بچانے میں ناکام کیوں رہا تھا؟ کیا واقعی امریکہ اس قابل نہیں تھا کہ بھارت کے ایجنڈے کو ناکام بنا کر مشرقی پاکستان محفوظ کرتا ہے، اس پر ایک علیحدہ کالم کی ضرورت ہے جس کو کسی اور وقت پر اٹھا رکھتے ہیں۔
لیکن میں اس کالم میں اپنی بات جنرل ایوب کے بعد جنرل نیازی جوکہ اس سانحہ میں انتہائی اہم اور مرکزی کردارگردانے جاتے ہیں۔ ان کے حوالے سے بات کرنا چاہتاہوں تاکہ سانحہ کے حیقیقی ملزموں کا تعین کرنے کے لئے رائے قائم کی جاسکے۔ اس کے لئے بی بی سی کی تحقیقی رپورٹ کا ایک حصہ بھی شامل کررہاہوں تاکہ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے حوالے سے ایک غیر جانبدار رائے کے بعد نتیجہ اخذ کیاجا سکے۔
”انڈیا کی مشرقی کمان کے سٹاف افسر میجر جنرل جے ایف آر جیکب نے 1971 میں بنگلہ دیش کی جنگ کے دوران اہم کردار ادا کیا تھا۔ وہ جیکب ہی تھے، جنھیں مانک شاہ نے پاکستانی فوج سے ہتھیار ڈلوانے کے لیے ڈھاکہ بھیجا تھا۔ انھوں نے ہی جنرل نیازی سے بات کر کے انھیں ہتھیار ڈالنے کے لیے راضی کیا تھا۔ جیکب نے 1971 کے جنگ پر دو کتابیں بھی لکھی ہیں۔ سولہ دسمبر کا دن یاد کرتے ہوئے انھوں نے کہا میرے پاس مانک شاہ کا فون آیا کہ جیکب ڈھاکہ جا کر ہتھیار ڈلوائیں۔
میں جب ڈھاکہ پہنچا تو پاکستانی فوج نے مجھے لینے کے لیے ایک بریگیڈیئر کو بھیجا۔ جب میں نے جنرل نیازی کو ہتھیار ڈالنے سے متعلق دستاویز پڑھ کر سنائیں تو انھوں نے کہا کہ ’کس نے کہا ہے کہ ہم ہتھیار ڈال رہے ہیں، آپ یہاں صرف جنگ بندی کرانے آئے ہیں۔ اس بارے میں بحث ہوتی رہی میں نے ان سے کہا کہ ہم نے آپ کو بہت اچھی پیشکش کی ہے اور اس سے بہتر پیشکش نہیں کر سکتے، ہم آپ کی اور آپ کے خاندانوں کی حفاظت کی ضمانت دیتے ہیں لیکن آپ اس پیشکش کو نہیں مانتے تو پھر ہماری کوئی ذمہ دار نہیں ہوگی۔
اس پر انھوں نے کوئی جواب نہیں دیا۔ ’جنرل جیکب نے کہا کہ میں نے ان سے کہا کہ میں آپ کو تیس منٹ دیتا ہوں اگر آپ نہیں مانتے تو میں پھر سے جنگ شروع کرنے اور ڈھاکہ پر بمباری کا حکم دے دوں گا۔ ‘ یہ کہہ کر میں باہر چلا گیا لیکن دل ہی دل میں سوچنے لگا کہ یہ میں نے کیا کر دیا۔ میرے پاس کچھ بھی نہیں اور ان کے پاس ڈھاکہ میں 26400 فوجی ہیں اور ہمارے پاس صرف تین ہزار اور وہ بھی ڈھاکہ سے تیس کلو میٹر باہر۔ اگر وہ نہ کر دیتے ہیں تو میں کیا کروں گا۔ ’میں تیس منٹ بعد اندر گیا دستاویز وہیں میز پر تھیں، میں نے ان سے پوچھا کیا آپ کو یہ منظور ہے تو انھوں نے کوئی جواب نہیں دیا۔ میں نے تین بار سوال کیا پھر کاغذ میز سے اٹھا کر کہا میں یہ مان کر چل رہا ہوں کہ آپ کو یہ منظور ہے۔ ‘جنرل نیازی سے یہ پوچھے جانے پر کہ پاکستانیوں کے پاس ڈھاکہ کا تحفظ کرنے کے لیے فوجی تھے تب بھی انھوں نے ہتھیار کیوں ڈالے، جنرل جیکب نے حمود الرحمن کمیشن کی کارروائی کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ’جب جنرل نیازی سے پوچھا گیا کہ آپ کے پاس ڈھاکہ میں 26400 فوجی تھے جبکہ بھارت کے پاس صرف تین ہزار آپ کم سے کم دو ہفتے اور لڑ سکتے تھے۔ سکیورٹی کونسل کا اجلاس جاری تھا، اگر آپ ایک دن اور لڑ پاتے تو بھارت کو شاید واپس جانا پڑتا تو پھر آپ نے ایک شرمناک شکست اور بغیر کسی شرط کے ہتھیار ڈالنا کیوں منظور کیا۔ اس پر نیازی کا جواب تھا کہ مجھے ایسا کرنے کے لیے جنرل جیکب نے مجبور کیا تھا۔ انھوں نے مجھے بلیک میل کیا اور ہمارے خاندانوں کو قتل کرنے کی دھمکی دی۔ نیازی کی یہ بات بالکل غلط تھی اور کمیشن نے نیازی کو قصور وار ٹھہرایا۔