پاکستان کے موجودہ حالات دیکھ کر یوں محسوس ہوتا ہے جیسے یہ ملک عالمی طاقتوں اور داخلی سیاست کے پیچ و خم میں اپنی شناخت کھو رہا ہے۔ 25 کروڑ پاکستانیوں کی یہ بستی، جو کبھی ترقی کے خواب دیکھتی تھی، آج ناانصافیوں اور جبر کا شکار ہے۔ بڑے لیڈران، جنہوں نے عوام کو امیدیں دی تھیں، وقت آنے پر اپنے فائدے کے لیے ملک چھوڑ گئے ہیں۔ نواز شریف، جن کا لندن میں قیام جاری ہے، اور بے نظیر بھٹو، جنہوں نے کبھی سر محل کے بارے میں جھوٹ بولا، یہ سب مثالیں ہیں اس سیاسی نظام کی جس میں عوامی مفاد کے بجائے ذاتی مفادات کو فوقیت دی جاتی ہے۔
سیاست اور اقتدار نے پاکستان کو تماشہ بنا کر رکھ دیا ہے۔ لیڈر جب چاہتے ہیں، عوام کے درمیان آکر حکومت کرتے ہیں اور پھر جب دل چاہے، ملک چھوڑ کر اپنے محلوں میں جا بستے ہیں۔ آج اپنے بیٹے نویت سے بات کرتے ہوئے مجھے عطاء الحق قاسمی کے ایک کالم کا اقتباس یاد آیا جس میں وہ ایک طوائف کی مثال دیتے ہیں۔ طوائف لوگوں کو لبھاتی ہے، مگر ساتھ ہی ایک پستول اپنی کمر میں باندھے رکھتی ہے۔ جب پوچھا جاتا ہے تو کہتی ہے کہ وہ اپنی عزت بچانے کے لیے یہ پستول رکھتی ہے۔ پاکستان بھی ایٹمی صلاحیت کے باوجود عالمی طاقتوں کے آگے جھکنے پر مجبور ہے، جیسے اپنی عزت بچانے کے لیے پستول تھامے کھڑا ہے۔
پاکستان میں بڑے سیاستدانوں کی مثالیں ایسی ہی ہیں کہ جب ملک کو لوٹ کر ان کا دل بھر جاتا ہے تو وہ ملک چھوڑ دیتے ہیں۔ ملک کا حال ایسے ہے جیسے کسی بازار میں ایک شے ہو، جسے جب چاہا، کسی نے خرید لیا اور جب چاہا، کسی نے لوٹ لیا۔ پاکستان کی معیشت گرتی جا رہی ہے اور آج یہ کسی انحصار کے آخری مقام پر پہنچ چکا ہے۔ ایسے لوگوں نے اپنی ذاتی بھلائی کے لیے پاکستان کو بازار حسن میں کھڑا کیا، جہاں وہ ایک شوپیس کی طرح ہے، بس دکھاوا اور دکھ۔
پاکستان تحریک انصاف کے رہنما عمران خان کی پارٹی اور اس کے حمایتی بھی آج ان ہی حالات سے گزر رہے ہیں، جو کبھی ذوالفقار علی بھٹو اور ان کے ساتھیوں نے برداشت کیے۔ عمران خان، جس نے ہمیشہ عدم تشدد اور قوم کی خدمت کا درس دیا، آج جیل میں ہے۔ ان کے ساتھیوں پر جھوٹے مقدمات بنائے گئے، انہیں طرح طرح کی تکالیف سے گزارا جا رہا ہے، مگر اس کے باوجود انہوں نے کبھی بندوق اٹھانے کا درس نہیں دیا۔ ان کی پارٹی کے لوگ آج بھی قید و بند کی صعوبتیں سہہ رہے ہیں، مگر وہ پھر بھی پاکستان کے حق میں کھڑے ہیں۔ اگر عمران خان کی بیگم محترمہ مشرف بی بی کو اگر رہائی دی ہے محترمہ حلیمہ بی بی اور نورین خانم جیل سے باہر ائے ہیں تو کیا وجہ ہے قوم کا ہیرو قوم کا لیڈر جس نے کھیل کے میدان میں بھی پاکستان کو عزت بخشی اور اپنے مختصر دور حکومت میں پاکستان کے عوام کے مسائل بھرپور کوشش کی غریبوں کا ہمدرد عمران خان کو بھی رہا کیا جائے
پاکستان کی تاریخ ہمیں یہ سبق دیتی ہے کہ ہمیں اپنی افواج، اپنی قیادت اور اپنے اداروں کا احترام کرنا چاہئے۔ ہر جگہ اچھے اور برے لوگ ہوتے ہیں، اور یہ ادارے بھی ان سے مستثنیٰ نہیں ہیں۔ ہمیں فوج کو دشمن سمجھنے کے بجائے اسے اپنا ماننا چاہیے، کیونکہ یہ ہمارے ملک کی حفاظت کے لیے ہے۔ پاکستان کی بقا انہی اداروں کے ساتھ جڑی ہے، مگر اس کا مطلب یہ بھی نہیں کہ غلط کو صحیح سمجھا جائے۔
پاکستان کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کے لیے ہمیں اپنے دشمنوں کو پہچاننا ہوگا۔ یہ دشمن وہ ہیں جو ہمیشہ پاکستان کے نظریے کے خلاف رہے ہیں اور ہمارے حق کو پامال کرنے کی کوشش کرتے رہے ہیں۔ بھارت ہو یا دیگر دشمن طاقتیں، ہمیں ان کی چالوں کو سمجھنا اور ان کے خلاف متحد ہونا ہوگا۔ داخلی طور پر بھی ہمیں اپنے اداروں کو مضبوط کرنا ہوگا اور عوام کو وہ شعور دینا ہوگا جس سے وہ صحیح اور غلط میں تمیز کر سکیں۔
ان حالات میں، میری دعا ہے کہ پاکستان ان بحرانوں سے نکلے اور ترقی کی راہ پر گامزن ہو۔ ہمیں اپنی قوم کو بیدار کرنا ہوگا، اپنی نوجوان نسل کو امید دینی ہوگی، اور ملک کو دوبارہ اس راستے پر لانا ہوگا جہاں یہ خود مختار اور خود کفیل بن سکے۔ یہ ایک طویل سفر ہے مگر ہماری منزل ہمارے سامنے ہے، اور ان شاء اللہ، پاکستان ترقی کی راہوں پر قدم بڑھائے گا۔