نگران وزیراعظم تھل آپ کا منتظر ہے
انوار الحق کاکڑ بحیثیت نگران وزیراعظم ’وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں پہنچ گئے ہیں‘ حلف اٹھانے کے علاوہ سابق وزیراعظم شہباز شریف کو وزیراعظم ہاؤس سے معنی خیز مسکراہٹ کے ساتھ رخصت بھی کر دیا ہے۔ ادھر پوری قوم نے ٹی وی چینلوں کی سکرنیوں پر کھلی آنکھوں سے دیکھا کہ قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر راجہ ریاض اور وزیراعظم شہباز شریف انوار الحق کاکڑ کی بحیثیت نگران وزیراعظم نامزدگی کے لئے آخری ملاقات کے دوران فائل پر دستخط کرنے کے لئے ایک دوسرے سے سبقت لے رہے ہیں۔
پھر خوشی سے نہال اپوزیشن لیڈر راجہ ریاض نے جلدی جلدی آ کر انتظار میں کھڑے صحافیوں کو اس خوشی بھری خبر سے آگاہ کیا کہ ان کا اور وزیراعظم شہباز شریف کا انوار الحق کاکڑ کے بحیثیت نگران وزیراعظم پر اتفاق ہو گیا ہے، یوں کاکڑ صاحب اپوزیشن اور حکومت کے متفقہ نگران وزیراعظم ہوں گے۔ انوارالحق کاکڑ کے نام پر اتفاق رائے کے حوالے سے یہ بات خاص اہمیت کی حامل ہے کہ اپوزیشن لیڈر راجہ ریاض اور وزیراعظم شہباز شریف آخری ملاقات کے بعد ان کا نام ٹی وی چینلوں پر پہلی بار اس وقت سامنے آیا، جب راجہ ریاض نے ان کا نام صحافیوں کے سامنے آ کر لیا۔
اور بڑے بڑے صحافیوں سمیت پاکستان پیپلز پارٹی کے لیڈر سید خورشید شاہ بھی ششدرہ رہ گئے، اور ایک اس سے ملتا جلتا بیان بھی دے ڈالا کہ وہ اس نام سے لاعلم تھے لیکن بعد میں لائن بحال ہوتے ہی انہوں نے بھی انوار الحق کاکڑ کے نام سے فوراً اتفاق کر لیا، وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں ایک وقت تک یہ خبر بھی گرم تھی کہ نگران وزیراعظم کے امیدواروں کی ایک بڑی کھیپ شہر اقتدار میں موجود ہے، اور ان کے انٹرویوز ہو رہے ہیں۔
دلچسپ امر یہ ہے کہ سب اپنے آپ کو دوسروں سے زیادہ وزیراعظم ہاؤس کا مہمان بننے کا حقدار سمجھتے ہیں۔ اس دوران بڑی دیر تو وزیرخزانہ اسحاق ڈار کا نام چلتا رہا ہے کہ وہ آرہے ہیں، لیکن بعد کہا گیا کہ ان کا زیربحث بھی نہیں آیا ہے۔ پھر اچانک چیرمین سینٹ صادق سنجرانی کے نگران وزیراعظم کے بارے میں ٹی وی چینلوں پر بینڈ بج گئے کہ ان کا نام فائنل ہو گیا ہے اور انہوں نے وزیراعظم شہباز شریف سے وزیراعظم ہاؤس میں ملاقات بھی کرلی ہے۔
پھر دلچسپ صورتحال اس وقت پیدا ہوئی جب جلیل عباس جیلانی کے گھر پروٹوکول سمیت پولیس بھی لگادی گئی، مطلب بات پکی کردی گئی کہ جلیل عباس جیلانی کو نگران وزیراعظم کے لئے ان کی قابلیت اور اہلیت کی بدولت فائنل کر لیا گیا ہے مطلب روزانہ کی بنیاد پر ٹی وی چینل مختلف ناموں کی پیش گوئی کر رہے تھے لیکن سب دعوے اس وقت دھرے کے دھرے رہ گئے اور آخر پر انوار الحق کاکڑ کا نام سامنے آیا جو کہ زیربحث بھی نہیں تھا۔ نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ کے بارے میں بتایا جا رہا ہے کہ سیاست کے سلجھے ہوئے کھلاڑی ہیں۔
سیاست کے میدان میں نئے نہیں ہیں بلکہ بڑی دیر سے اسی سیاست کے الجھاؤ اور سلجھاؤ کو دیکھ رہے ہیں۔ یوں ان سے توقع کی جا سکتی ہے کہ وہ ملک کے تلخ اور مشکل حالات کے مطابق فیصلے کریں گے۔ نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ کے کندھوں پر ایک بھاری ذمہ داری یوں بھی عائد ہوتی ہے کہ ان تعلق بلوچستان سے ہے اور اس کو چھوٹے بھائی کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ بلوچستان کے بہت سارے ایشوز بھی ہیں جن کے بارے وہاں کے عوام مضطرب رہتے ہیں کہ ان کا مستقل حل نکالا جائے لیکن تمام تر وعدوں کے باوجود ایسا ابھی تک تو نہیں ہو سکا ہے؟
ادھر ہمارے جیسے تھل کے لوگ بھی قیام پاکستان کے بعد سے مسلسل تخت لاہور اور اسلام آباد سے نظرانداز ہوتے چلے آرہے ہیں۔ میرے خیال میں نگران وزیراعظم تھل کے بارے میں آگاہ ہوں گے کہ تھل پنجاب کا وہ علاقہ ہے جو کہ دریاؤں کی سرزمین یوں ہے کہ اس کے ایک طرف دریائے سندھ ہے تو دوسری طرف دریائے چناب اور پھر دریائے جہلم اور ہیڈ پنجند بھی اس کو گلے لگاتے ہیں۔ ادھر تھل جو کہ پنجاب کے سات اضلاع خوشاب، میانوالی، بھکر، لیہ، مظفر گڑھ، جھنگ اور چنیوٹ پر پھیلا ہوا ہے۔
اور سیاسی اکائی کے طور پر 19 قومی اسمبلی کے حلقوں کا حامل ہے۔ ادھر کالا باغ ڈیم کا مقام بھی تھل کے ضلع میانوالی میں ہے۔ لیکن ترقی کے سفر میں حکومتوں نے اس کو جتنا نظرانداز ہو سکتا ہے، اس سے بھی زیادہ کیا گیا ہے۔ نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ کو مبارک باد کے بعد اتنا کہنا ہے کہ وہ تھل کے بارے میں ایک نشست میں اس کی حالت زار کے بارے میں آگاہی لے لیں تو بھی تھل کے عوام کے دکھوں کا مداوا کرنے میں پیشرفت ممکن ہو سکتی ہے؟