دبئی لیکس کی صرف ایک کہانی
(امید ہے قارئین اسے کسی سیاسی وابستگی کی نگاہ سے نہی دیکھیں گے۔
یہ پاکستان کی کہانی ہے اور اسے ایک پاکستانی کی نگاہ سے دیکھا جانا چاہیے)۔
آصف زرداری کو 2014ء میں دبئی میں کسی نے 32 کروڑ روپے جیسی حقیر رقم کی مالیت کی ایک پراپرٹی تحفے میں دے دی جو تحفہ زرداری صاحب نے اپنے اثاثوں میں ظاہر کردیا۔ کراچی کے ایک بڑے تاجر عبد الغنی مجید نے اپنی دولت کی دستاویز میں بتایا کہ 2014ء میں انہوں نے دبئی میں ایک پراپرٹی کسی کو تحفے میں دے دی تھی۔ دبئی لیکس کے مطابق یہ وہی پراپرٹی ہے جو عبد الغنی مجید نے زرداری صاحب کو تحفے میں دی تھی۔ جعلی اکاؤنٹس کی تحقیقات میں انکشاف ہوا کہ سندھ میں سب سے زیادہ ٹھیکے اور سرکاری فوائد صرف عبد الغنی مجید کے اومنی گروپ کو ملتے تھے جو جعلی بنک اکاونٹس کے ذریعے تمام رقوم کی ہیرا پھیری کرتے تھے۔ نیب نے تحقیقات مکمل کرکے کرپشن ریفرنسز دائر کیے جو عدلیہ، نیب اور مقتدر اداروں کی ملی بھگت سے تاخیر کا شکار ہوتے رہے۔ پھر زرداری صاحب کے صدر بنتے اور استثناء ملتے ہی چراغوں میں روشنی نہ رہی۔ تمام مقدمات کی کارروائی روک دی گئی۔
ان ناگفتہ بہ معاشی حالات میں جب عام آدمی کی تمام تر جہدوجہد کا مقصد صرف خود اور اپنے پیاروں کو کسی نہ کسی طرح زندہ رکھنا ہی رہ گیا ہے۔ یہ اس کے لیڈروں کی کہانی ہے۔ یہ سرے محل کی کہانی نہی ہے۔ یہ لندن کے آیون فیلڈ اپارٹمنٹس کی کہانی بھی نہی ہے۔ یہ دبئی لیکس میں سامنے آنے والی 23 ہزار پراپرٹیز کی کہانیوں میں سے صرف ایک کہانی ہے۔ اور یہ اس حقیقت کے باوجود منظر عام پر آگئی ہے۔ کہ وطن عزیز میں ایسی کہانیوں کا ریکارڈ جلا دیا جاتا ہے اور گواہان اگر دل جگرا تھام کر سامنے آ بھی جائیں تو ان کو قتل کرا دیا جاتا ہے۔
تاہم یہاں عام آدمی کو بھی شاباش دینا بنتا ہے کہ وہ ایسے لیڈروں کے دن رات گن گاتا ہے۔ ان کا دفاع کرتا ہے بلکہ ان کی خاطر دوسروں سے لڑ بھی پڑتا ہے۔ اور اس نوجوان کو جس کی رگوں میں اسی باپ کا خون دوڑتا ہے، اسے اپنے ملک کا اگلا وزیر اعظم بھی دیکھنا چاہتا ہے۔
مجھے گلہ اداروں اور عدالتوں سے نہی کہ وہ سب اپنا اپنا حصہ بقدر جثہ وصول کرتے ہیں۔ مجھے گلہ عام آدمی سے بھی نہی جو بیچارہ صبح شام پیٹ کی آگ بجھانے میں مصروف رہتا ہے۔ مجھے گلہ مڈل کلاس سے ہے، نام نہاد دانشوروں لکھاریوں سے ہے حتی کہ ڈاکٹروں اور پروفیسروں سے ہے۔ جن کی دانش کہیں گھاس چرنے لگ جاتی ہے کہ وہ یہ سب جانتے بوجھتے ہوئے بھی ایسے ہی لیڈروں کے سحر میں گرفتار رہتے ہیں۔