یہ کوئی معمولی بات نہیں کہ جب کوئی باوقار اور حق پسند اپنے قلم کو رواں کرتا ہے۔ یہ قلم فقط کاغذ پر سیاہی بکھیرنے کا ذریعہ نہیں، بلکہ ایک ایسا اوزار ہے جو ظلم و استبداد کے پردوں کو چاک کر دیتا ہے۔ میرے ایک عزیز دوست اور فیس بک فرینڈ طارق گجر نے نوجوان گجروں کی بہادری کی ایسی داستان سنائی جس میں پرتھوی راج چوہان کی بہادری اور راجپوتوں کا اعتراف شکست کہ پرتھوی راج راجپوت نہیں گجر تھا ۔ یہ بات ہے ہی ایسی کہ جب کوئی اپنے حق کے لیے ڈٹ کر کھڑا ہو جائے تو اس کا چرچا ہر طرف ہوتا ہے۔
کبھی کبھی مجھے محسوس ہوتا ہے کہ میں بھی اپنے قلم کے ذریعے ان لوگوں کے سامنے سوال اٹھاتا ہوں جو قوم کے محافظ ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں، مگر عملی طور پر قوم کو ان کے حال پر چھوڑ دیتے ہیں۔ آپ نے اپنے کالم میں جس طرح پاکستان کے ہر ذی روح اور باوقار شخص سے سوال کیا ہے، وہ ایسا ہی ہے جیسے کسی سوئے ہوئے کو بیدار کر دیا جائے۔ آپ نے سوال کیا کہ کیا واقعی ہم اتنے ضمیر فروش ہو گئے ہیں کہ اپنا حق اور سچ بھلا دیا ہے؟ چراغ سب کے بجھیں گے، ہوا کسی کی نہیں؛ یہ اشعار ہمارے عہد کے المیے کو بڑی خوبی سے بیان کرتے ہیں۔
آج جب عمران خان کا نام لینا بھی گویا گناہ سمجھا جاتا ہے، آپ نے جس طرح ان پر ہونے والے مظالم کو قلمبند کیا ہے، وہ نہایت خوبصورت اور جرات مندانہ ہے۔ آپ نے ان لوگوں کے دوغلے پن کو بے نقاب کیا جو انصاف کے دعویدار ہیں، مگر جب بات سچائی کی ہوتی ہے تو خاموش تماشائی بن جاتے ہیں۔ آپ نے وکیلوں سے سوال کیا کہ جو کچھ ایک شخص کے ساتھ ہو رہا ہے، اس پر تمہارا کیا ردعمل ہے؟ تمہارے دعوے اور اصول کہاں گئے؟
مجھے 2018 کے الیکشن کی بات یاد آتی ہے جب مجھے امید تھی کہ مجھے ٹکٹ ملے گا، مگر آخر میں شیخ رشید نے اپنے بھتیجے کو ٹکٹ دلوایا۔ اس وقت میں نے سوچا کہ کیا میں خود اپنے خان کے لیے ایک ایک سیٹ کا اہتمام کر کے بھی اس جدوجہد کا حصہ بن سکتا ہوں؟ یہ احساس بار بار آیا کہ قوم کے بہترین افراد اپنے لیڈروں کی خاطر قربانیاں دے رہے ہیں، مگر خود قیادت عوام کو حقیقت سے دور رکھتی ہے۔
آج کا کالم پڑھتے ہوئے مجھے ایک اور بات یاد آئی۔ مولانا مودودی نے کہا تھا کہ انصاف اللہ کے حوالے ہے اللہ بخش کا قتل اگلی عدالت میں یو گا وہ وقت کا مجدد تھا ہم گجر لوگ ظالم کو اس دنیا میں زلیل و خوار دیکھنا چاہتے ہیں ہمارے کلیجوں پر قاضی فائز عیسی کے بیگم نے جو کہا ہے ٹھنڈ پڑ گئی ہے ، میں اس بات پر یقین رکھتا ہوں کہ کچھ فیصلے دنیا میں بھی ضروری ہوتے ہیں۔ ہم اس بات پر راضی نہیں کہ ہمیں ظالموں کے ظلم کے خلاف بولنے سے روکا جائے۔ اللہ انصاف کرنے والا ہے، مگر میں چاہتا ہوں کہ یہ فیصلے ہماری آنکھوں کے سامنے ہوں۔
ایک اور واقعہ یاد آتا ہے جب اغوا ہونے والے کے لیے پولیس کہہ رہی تھی کہ یہ کروڑوں کی خاطر ہوا ہے۔ یہ وہی لوگ ہیں جو ہمیں اپنی طاقت سے دھمکاتے ہیں، مگر میں ان کے بارے میں یہی کہتا ہوں کہ اللہ ان پر بھی ویسے ہی فیصلے نازل کرے گا جیسا انہوں نے دوسروں کے ساتھ کیا ہے۔
ایوب چوہان بھائی آپ نے کمال ہنر مندی سے ان لوگوں کے چہروں سے نقاب اتارے ہیں جو اقتدار کی ہوس میں مبتلا ہیں۔ آج ہمارے ملک میں جو کچھ ہو رہا ہے، اس پر عوام کو زبان حال سے یہ پیغام دینا ہے کہ ہم تمہیں بھولے نہیں ہیں۔ آج وہ لوگ جو اپنے ظلم کی وجہ سے ذلیل و خوار ہو رہے ہیں، ان کی بیگمات رو رو کر کہہ رہی ہیں کہ ہمیں معاف کر دو، مگر انصاف اپنا راستہ ضرور بنائے گا۔
کیا یہ انصاف ہے کہ پاکستان کے عوام کو اتنی بے بسی کا شکار کر دیا جائے؟ آج ایک بچہ ترس ترس کے مر رہا ہے، مگر اس کے والد کی فریاد کو کوئی سننے والا نہیں۔ یہ نظام، یہ قوانین، یہ ترمیمیں سب ایک ہی کھیل کا حصہ ہیں، جس میں ایک عام آدمی کی کوئی اہمیت نہیں۔
ہمارے ساتھ ہمیشہ سے یہی ہوتا آیا ہے۔ جو کچھ اسٹیبلشمنٹ چاہتی ہے، وہی قانون بنا دیا جاتا ہے۔ 26ویں ترمیم سے فائدہ نہ ملا تو اب 27ویں ترمیم کی باتیں ہونے لگیں، مگر یہ بھول جاتے ہیں کہ چراغ سب کے بجھیں گے، ہوا کسی کی نہیں۔
یہ سب کچھ دیکھ کر بھی ہمیں مایوس ہونے کی ضرورت نہیں۔ جب ایک شخص بولتا ہے تو دوسرے بھی اس کی آواز میں آواز ملا کر حق بات کہہ سکتے ہیں۔ اس ملک کے عوام کو بیدار کرنے کی ضرورت ہے۔ ہم اپنے حق کے لیے لڑیں گے اور اس ظالمانہ نظام کو بے نقاب کرتے رہیں گے۔
یہ قلم ہمیشہ ظلم کے خلاف آواز اٹھاتا رہے گا۔ ہمیں چاہیے کہ ہم ایک دوسرے کا ہاتھ تھام کر، سچائی اور انصاف کے لیے آگے بڑھیں۔ یہ نظام کتنا ہی جابر کیوں نہ ہو، ہمارے قلم کی روشنی سے سب کا ظلم و جبر ایک دن ضرور بے نقاب ہوگا۔ آج کا یہ کالم ان تمام لوگوں کے لیے ایک پیغام ہے کہ ہم بھی زندہ ہیں، اور چوہانوں کا خون آج بھی گرم ہے۔ اپ کے،، زیر و زبر،، نے کمال کر دیا ہے ۔