آج کل ایک نئی ادبی اصطلاح کی گونج ہر جگہ سنائی دیتی ہے اور وہ ہے ”مضافاتی ادب“۔”مضافات“جمع ہے ”مضاف“کی اور مضاف کا معنی ہے ”مِلا ہوا،جڑا ہوا،پیوستہ،ملحقہ“۔ جمع کی صورت میں ”مضافات“کا ایک مطلب ”قرب وجوار اور شہر کے آس پاس کے علاقے“بھی ہے۔ مرادی طور پر ”مضافات“کے معنی دیہات کے لئے جاتے ہیں۔یائے نسبتی کا اضافہ کرکے اسم بنالیا گیا ”مضافاتی“اور ”مضافاتی ادب“سے دیہات یا شہروں سے دور بستیوں اور دیہاتوں کا ادب مراد لیا جاتا ہے۔
اس اصطلاح میں پہلا مغالطہ تو یہ ہے کہ شہروں کے ادب اور دیہات یا مضافات کے ادب میں کوئی فرق موجود ہے (بلاشبہ احساس اور تخیل اور وژن کے حوالے سے یہ فرق موجود ہے مگر یہ فرق تو ایک ہی شہر کے رہنے والے تخلیق کاروں کے ہاں بھی بہت واضح ہوتا ہے)
دوسرا مغالطہ یہ ہے کہ شاید دیہات یا مضافات کے موضوعات اور مسائل کی نوعیت شہروں سے مختلف ہے۔ اردو شعر وادب کے حوالے سے تھوڑا سا غور کریں تو یہ بات بہت واضح طور پر سامنے آتی ہے کہ ہمارے ہاں روز اول سے ہی تخلیق کاروں کی ایک بڑی کھیپ ایسی رہی ہے جس نے دیہات کے معاشرے اور دیہات کے رہنے والے لوگوں کے جذبی، فکری اور نظری مسائل کو موضوع بنایا، ان تخلیق کاروں کے حوالے سے غور کریں تو تین نوعیتیں سامنے آتی ہیں۔
i۔ وہ شاعر اور ادیب جو دیہات میں رہتے ہیں یعنی مراکز اور بڑے شہروں سے دور۔
ii۔ وہ تخلیق کار، جن کا تعلق دیہات سے ہے مگر وہ پیشہ وارانہ مسائل کی وجہ سے یاروز گار کی تلاش میں بڑے شہروں کے ہورہے۔
iii۔ وہ تخلیق کار جن کا بچپن لڑکپن اور جوانی کا بیشتر حصہ دیہات میں گزرا پھر تلاش معاش میں وہ بڑے شہروں کی طرف آئے اور ریٹائرمنٹ کے بعد عازمِ دیہات ہوئے۔
جن تخلیقات کو (مفروضہ طور پر)مضافاتی ادب کے زمرے میں شمار کیا جاسکتا ہے ان کی تین نوعیتیں سامنے آتی ہیں
i۔ وہ تخلیقات جو دیہات/مضافات کے رہنے والے ادیب /شاعر تخلیق کررہے ہیں۔
ii۔ وہ تخلیقات جو دیہاتوں سے ہجرت کرکے آنے والے تخلیق کاروں نے اپنے لاشعور میں موجود ڈر، خوف تنہائی یا رومانیت کے حوالے سے تخلیق کیں۔
iii۔ وہ تخلیقات جو دیہات یا دیہات سے منتقل ہونے والے تخلیق کاروں نے یا شہروں کے رہنے والے تخلیق کاروں نے تخلیق کیں مگر ان کے موضوعات دیہات کی زندگی یا ماحول سے مستعار تھے یا مضافاتی ثقافتوں اور تہذیبی رویوں کے حوالے سے تخلیق کا حصہ بنے۔
اگر ہم مذکورہ بالا تقسیم کو ملحوظ رکھیں تو مضافاتی ادب کی اصطلاح کی لغویت واضح ہوجاتی ہے۔مگر یہ بھی دیکھ لیجئے کہ پاکستان میں اردو زبان وادب کی دنیا میں کیسے کیسے المیے موجود رہے ہیں۔پاکستان میں اردو زبان وادب کا سب سے بڑا المیہ تو یہ ہے کہ ثقافتی سطح پر اردو زبان پاکستان کے کسی علاقے کی زبان نہیں ہے۔ یہ پاکستان کی قومی زبان ضرور ہے مگر اس خطے میں تہذیبی اور ثقافتی حوالے سے اس کی جڑیں موجود نہیں ہیں، اس قضیئے کو سمجھنے کیلئے ہمیں قیام پاکستان اور ہجرت کے پورے منظر نامے کو ملحوظ رکھنا ہوگا۔
تقسیم ہند اور قیام پاکستان کے بعد جو علاقے پاکستان کے حصے میں آئے، بدقسمتی سے، ان علاقوں میں علاقائی یا عوامی زبان اُردو نہیں تھی بلکہ کچھ دیگر زبانیں یہاں کی تہذیب وثقافت کی نمائندگی کرتی تھیں۔ بلاشبہ کچھ شہروں (خصوصاً لاہور)سے اردو اخبارات بھی نکلتے تھے اردو شعر وادب کے حوالے سے کئی انجمنیں بھی کام کررہی تھیں اور کئی نامی گرامی شاعر بھی مختلف علاقوں (شہروں)میں موجود تھے مثلاً وزیر آباد، لاہور، گوجرانوالہ، سیالکوٹ، ملتان، لیہ، راولپنڈی،پشاور وغیرہ۔اور ایک حدتک لاہور جیسے شہر میں پبلیشنگ ادارے اردو کی کتب بھی شائع کررہے تھے مگر عوامی سطح پر ملک کے کسی بھی حصے میں اردو زبان بولی نہیں جاتی تھی۔
ہجرت کے ساتھ ہی مرکزی ہندوستان اور ہندوستان میں موجود اردو کے تہذیبی مراکز سے بہت سے لوگ/تخلیق کار پاکستان میں وار دہوئے۔ ان میں سے کچھ لوگ تو مشرقی پنجاب سے ہجرت کرکے آئے، کچھ لوگ ریاست پٹیالہ، ریاست ہریانہ اور راجھستان یعنی کرنال،روہتک،حصار،پانی پت،جالندھر اور سمانہ جیسے شہروں سے مخصوص لہجے اور زبان کے ساتھ ہجرت کر کے پاکستان کے بیشتر شہروں میں وارد ہوئے۔ دہلی سے ہجرت کرنے والوں کی تعداد یا تو بکھر کر رہ گئی یا پھر انہوں نے کراچی کا رُخ کیا، اس طرح لکھنو اور لکھنو کے گردو نواح (امروہہ جیسے شہروں سے) سے آنے والے لوگ کراچی اور حیدر آباد میں آباد ہوئے نتیجتاً کراچی اور حیدر آباد میں اردو زبان ایک حدتک عوامی زبان بننے میں کامیاب ہوگئی۔ملک کے باقی تمام شہروں میں ہجرت کرکے آنے والوں کی زبان کا یہاں کی مقامی زبان وثقافت کے ساتھ اختلاط کا عمل شروع ہوا۔ہریانوی بولنے والے ثقافتی گروہ کے لوگوں کے ہاں یہ شعور مفقود تھا کہ ان کی زبان کوئی علاحدہ لسانی تشخص رکھتی ہے۔ سوانھوں نے اسے اردو گردانا اور یوں اپنی زبان کو بھولنے لگے۔ ان لوگوں نے عمومی طور پر اردو لب ولہجے اور لفظیات کوآئیڈیل گردانا، دوسری طرف مقامی تہذیب وثقافت اور مقامی زبانوں کے ساتھ اختلاط نے ہجرت کرکے آنے والے سبھی لوگوں کے لسانی رویوں اور شناخت کو تبدیلی سے آشنا کرایا۔
قیام پاکستان کے بعد ابتدائی طور پر صرف دو بڑے شہر یعنی کراچی اور لاہور بڑے ادبی مراکز کے طور پر سامنے آئے،بعد میں جب دارالحکومت اسلام آباد میں منتقل ہوا تو ایک نئے تہذیبی اور ادبی مرکز کا اضافہ ہوا۔ملک کے طول وعرض میں موجود تخلیق کاروں نے جب اپنی شعری اور ادبی تخلیقات کا سفر شروع کیا تو علاقائی تہذیب و ثقافت نے اردو زبان وادب میں اپنا حصہ ڈالنا شروع کیا۔اردو کا دہلوی اور لکھنوی لب ولہجہ (جس کی بنا پر حالیؔ اور اقبالؔ پر بھی اعتراضات ہوئے)اب قصۂ پارینہ بن گیا، صوبہ خیبر پختونخواہ میں پشتو اور ہند کو لب ولہجے میں اردو بولی جانے لگی، تو بلوچستان میں بلوچی لہجے نے اردو کو اپنے حصار میں لیا، سندھ میں سندھی اور پنجاب میں پنجابی لب ولہجے نے اردو کو پروان چڑھانے کی کوشش کی۔ دوسری سطح پر علاقائی ثقافتوں، رسوم ورواج اور ماحول نے اردو شعر وادب کو خام مواد مہیا کیا اور اردو زبان وادب کی کایا کلپ ہوتی چلی گئی۔
پچھلی دو تین دہائیوں سے فکری اور لسانی سطح پر پاکستانی سماج کے نئے رویے سامنے آنے لگے ہیں مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ پاکستانی معاشرہ بڑے عجیب اور بے ڈھب انداز میں مختلف ثقافتی دائروں یا زمروں میں تقسیم ہوچکا ہے۔ بڑے شہروں مثلاً کراچی، لاہور، راولپنڈی، اسلام آباد میں تہذیب وثقافت کے مظاہر اور رویوں کی کایا کلپ یوں ہوئی کہ ان شہروں میں آن بسنے والے لوگ ملک بھر کے مختلف علاقوں سے اور مختلف علاقائی ثقافتوں سے تعلق رکھتے تھے، جن کا اختلاط ہوا۔ان شہروں میں تہذیب وثقافت کے مظاہر بین الاقوامی مظاہر سے مطابقت رکھنے لگے ہیں اور ان شہروں کے باسی جذبی سطح پر ایک خلجان میں مبتلا ہیں کیونکہ جذبی سطح پر وہ آج بھی صوبہ خیبرپختونخواہ کے پسماندہ دیہاتی کلچر میں سانس لیتے ہیں یا بلوچستان کے محروم علاقوں سے اپنی جڑت محسوس کرتے ہیں یا پنجاب اور سندھ کی دیہی ثقافتوں میں گُندھے ہوئے ہیں۔ یوں کہہ لیں کہ ان کا سراور ان کا دماغ کہیں بہت بلندیوں میں ہے اور ان کا دل کہیں مٹی کی سوندھی خوشبو سے مسحو ر ہے۔
قیام پاکستان کے بعد سے ملک کے طول وعرض میں موجود تعلیمی اداروں نے ملک بھر میں اردو خواندہ لوگوں کی ایک بڑی کھیپ تیار کی، خصوصاً پنجاب اور سندھ کے شہری علاقوں میں،دیگر صوبے بھی پیچھے نہیں رہے مگر وہاں کی اکثریت لب ولہجے اور مقامی زبانوں کے قواعد کی وجہ سے پریشان رہی (مثلاً پشتو میں مذکرمونث کا مسئلہ)مگر اس کے باوجود اردو بولنے پڑھنے، سمجھنے والے لوگوں کی تعداد میں بے حد اضافہ ہوا اور اردو کو لسانی اور تخلیقی حوالے سے آئیڈیل بھی گردانا گیا۔ شہروں میں جدید سائنسی وصنعتی سماج تشکیل پانے لگا، ان سماجی تبدیلیوں، ملک کے اندر دیہاتوں سے شہروں کی جانب ہجرت،اور بڑی حدتک تعلیم کے عام ہونے کی وجہ سے شہری ثقافتی زمروں میں سماجی اور ثقافتی سطح پر اختلاط بھی عمل میں آیا اور سماجی رویے تبدیلی سے آشنا بھی ہوئے، نتیجتاً اردو شعر وادب میں بھی کچھ نئے رویے جھلکنے لگے۔
اگر ماضی کے حوالے سے سماجی اختلاط، ربط ضبط اور دیہاتوں سے شہروں کی طرف ہجرت کے معاملے پر غور کریں محسوس ہوتا ہے کہ یہ کوئی نیاتصور نہیں ہے بلکہ پرانی بات ہے مگر اس میں شدت اور تیزی جدید سائنسی ایجادات نے پیدا کی،مراد ریل کی آمد اور انگریزی حکومت کی طرف سے قائم کردہ اداروں میں ملازمت کے مواقع ہیں جن کی وجہ سے دیہاتوں کے لوگ شہروں کی طرف آئے یعنی ہجرت کا یہ عمل انیسویں صدی سے ہی شروع ہوچکا تھا۔لہذا ہم دیکھتے ہیں کہ اردو شعروادب کی تخلیق کے حوالے سے اہم تر(بلکہ اہم ترین)لوگوں کا تعلق اردو کے روایتی مراکز سے نہیں بلکہ ان کا تعلق مضافات اور دیہات سے ہے۔ ان میں سے بہت سے تخلیق کاروں کے ہاں وہ محاوراتی اور روایتی زبان بھی مستعمل نہیں،جو دلی اور لکھنو کی تہذیب کی شناخت سمجھی جاتی ہے مگر اس کے باوجود ان کی زبان دانی اور ان کی تخلیقات کو اردو کے ادب عالیہ میں شمارکیا جاتا ہے۔ مثلاً اقبال اور حالی۔
بیسویں صدی کے ادب پر نظر دوڑائیں تو ایک لمبی فہرست موجود ہے۔ ان میں منیر نیازی کا تعلق ہوشیار پور سے تھا، ظفر علی خان کا تعلق کرم آباد(وزیرآباد) سے، مختار صدیقی کا تعلق گوجرانوالہ سے، مجید امجد کا تعلق جھنگ سے، عبداللہ نیاز کا تعلق لیہ سے، ن، م، راشد کا تعلق گوجرانوالہ سے، احمد ندیم قاسمی کا تعلق خوشاب سے، سید ضمیر جعفری کا تعلق چک عبدالحق ضلع جہلم سے، شیرافضل جعفری کا تعلق جھنگ سے،محسن نقوی کا تعلق ڈیرہ غازیخان سے، فتح محمد ملک کا تعلق جہلم کے دیہات سے، منشایاد کا تعلق شیخوپورہ کے دیہات سے، ظفر اقبال کا تعلق اوکاڑہ سے، شکیب جلالی کا تعلق بھکر سے، فرازؔ کا تعلق خیبر پختونخواہ کے دیہات سے، اشفاق احمد کا تعلق ریاست پٹیالہ کے دیہات سے، آفتاب اقبال شمیم کا تعلق جہلم سے، نسیم لیہ کا تعلق لیہ سے، خیال امروہوہی کا قصہ سب سے نرالا ہے، پیدائش اورلڑکپن امروہہ میں گزرا، بعدازاں کراچی میں رہے،جوانی لاہور میں گزاری، کچھ عرصہ شکر گڑھ میں گزرا، کچھ عرصہ ملتان میں،جوانی میں ہی لیہ میں آکر رہے اور لیہ کے ہی ہورہے۔ادا جعفری بدایوں (یو۔پی) سے ہجرت کر کے کراچی آئیں،کشور ناہید بلند شہر سے ہجرت کر کے آئیں،(ادھر ہندوستان میں بھی صورت حال کچھ ایسی ہی ہے۔ گیان چند جین کا تعلق دیہات سے ہے۔احمد یوسف (افسانہ نگار)پٹنہ کے رہنے والے ہیں (بحوالہ سہ ماہی روشنائی کراچی ادارت: زین الدین جنوری تامارچ ص197)ظہیر غازی پوری کا تعلق غازی پورسے ہے۔ بعد میں ہزاری باغ جھاڑ کھنڈ میں مقیم رہے (بحوالہ سہ ماہی روشنائی کراچی اکتوبر، دسمبر2003 ص 138)سید اقبال عظیم(وقار عظیم کے چھوٹے بھائی ہیں،شاعر ہیں) قصبہ انبہٹہ ضلع سہارن پور سے تعلق رکھتے ہیں (بحوالہ سہ ماہی روشنائی جولائی، ستمبر2007 ص،144)،محبوب خزاں موضع چندائرضلع بلیا(یو۔پی سے تعلق رکھتے ہیں۔)تخلیق کاروں کی یہ فہرست بہت طویل ہے مگر مذکورہ بالا نام اور اردو شعروادب کے حوالے سے ان کاکام دیکھ کریہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ اردو شعروادب کو شہری اور مضافاتی زمروں میں تقسیم کرنا ایک سعی لاحاصل کے سوا کچھ نہیں۔
جب ہم جدید دور کے شعروادب کے موضوعات کا جائزہ لیتے ہیں تو حیران کن نتائج سامنے آتے ہیں۔ مضافات/دیہات اور علاقائی ثقافتی زمروں سے نکل کر شہروں میں آبسنے والے سبھی شاعروں اور ادیبوں نے اپنی تہذیبی اور ثقافتی شناخت اور اپنے علاقے کے ثقافتی موضوعات کو اردو میں سمونے کی بھرپور کوششیں کی ہیں۔ ان میں وہ لوگ بھی ہیں جو بڑے مراکز میں پلے بڑھے ہیں مگر موضوعات علاقائی تہذیب وثقافت سے اخذ کرتے ہیں مثلاً ”جانگلوس“کا پورا منظر نامہ، شوکت صدیقی نے کراچی میں بیٹھ کر پنجاب اور جنوبی پنجاب کے جاگیردارانہ تہذیب کے پس منظر میں تخلیق کیا۔احمد فراز نے اردو غزل کے روایت کو بے حد ملحوظ رکھا مگر نظم”لختئی“خالصتاً پشتو تہذیب وثقافت کے پس منظر میں لکھی گئی۔ساقی فاروقی نے نظم”الکبڑے“لکھی۔مجیدامجد کی بیشتر شاعری اور نظمیں پنجاب کی مٹی کی خوشبو سے مہکتی ہیں۔پریم چند کے افسانوں کی فضا اور موضوعات میں ہندوستان بھر کا دیہات سانس لیتا ہے۔کرشن چندر کے ہاں دیہی کلچر کی پیش کش موجودہے۔احمد ندیم قاسمی کے افسانوں میں دیہاتی تہذیب وثقافت کے رنگ بکھرے ہوئے ہیں۔اشفاق احمد کا اہم ترین افسانہ ”گڈریا“دیہی کلچر اور دیہی ثقافتوں کے مظاہر سے مملو ہے۔ وزیرآغاکے ہاں دیہی ثقافتی عناصر موجود رہے۔
ٍ اردو شعروادب کے مطالعے سے یہ بات محسوس ہوتی ہے کہ عمومی طور پر دیہی ثقافتوں کے پس منظر میں مختلف فن پارے تخلیق پاتے ہیں تو ان کا موضوعاتی حسن اور رچاؤ دو چند ہوجاتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پاکستان کے دیہات میں ترقی کی رفتار بہت سست ہے،جس کی وجہ سے زندگی کی رفتار بھی سست ہے اور انسانی جذبوں اور محبتوں کوآج بھی ایک خاص انداز سے دیکھا اور محسوس کیا جاتا ہے۔ جبکہ شہروں میں (ہر چند کہ یورپ جیسی سائنسی اور صنعتی ترقی یہاں پر نہیں ہوئی)ایک حدتک زندگی کی رفتار تیز ہے (اور جیسا کہ پچھلے صفحات میں ذکر ہوا شہروں میں موجود لوگ مختلف سماجی اور ثقافتی زمروں سے آئے ہیں)فرد سے فرد کا رشتہ کمزور ہوتامحسوس ہونا شروع ہوچکا ہے۔ لہذا تخلیق کاروں کے ہاں احساس بیگانگی،اپنوں سے دوری کا کرب اور ماضی کے حوالے سے ناسٹلجیاپیدا ہونے لگا ہے۔ پھر دیہات سے آمدہ ان تخلیق کاروں کو خود اپنی شناخت کا مسئلہ بھی گھیرے رہتا ہے۔ اسی وجہ سے دیہات کے پس منظرمیں تخلیق ہونے والے ادب میں مضامین وموضوع کی ندرت بھی ہوتی ہے اور ان کاکینوس بھی وسیع ہوتا ہے۔
دوسری سطح پر زبان اور زبان کے قواعد کا مسئلہ ہے اور ساتھ ہی لفظ اور لفظ کے تلفظ کا مسئلہ بھی۔پاکستان میں اردوزبان کے علمبرداروں کا رویہ فطری لسانی نظریات کے برعکس ہے۔ دنیا بھر میں سمجھاجاتا ہے کہ زبان اور زبان کی اصل دیہات میں ملتی ہے۔ مقامی ثقافتی رویے زبان کے تشکیلی عناصر میں بہت اہم کردار ادا کرتے ہیں پھر جب زبان شہروں کا رُخ کرتی ہے تودیگر زبانوں سے اختلاط بھی ہوتا ہے اور لہجے میں ایک گداختگی بھی پیدا ہوتی ہے مگر اردو کے معاملے میں بڑے تہذیبی مراکز سے دیہات کی طرف الٹاسفر ہے۔ اس زبان کو درباروں سے متعلق سمجھا گیا۔ اس کی لفظیات اور لب ولہجے کا تعلق نوابوں اور محلوں کی تہذیب سے جوڑا گیا۔نتیجتاً مفرس ومعرب قسم کی، کوثر وتسنیم میں دھلی دھلائی زبان کو زیادہ فصیح ماناگیااور ایسی زبان جس میں دیہی،علاقائی ثقافتی عناصر کو شامل کیا گیا،ایک عرصے تک طنز کا نشانہ بنتی رہی ہے۔ اردو خواندہ حلقوں اور اُردو کے تخلیق کاروں نے علاقائی ثقافت اور روایت اور ساتھ ہی علاقائی زبانوں کے الفاظ کو اردو سے دور رکھنے کی شعوری کوششیں کیں اوراس قسم کے اختلاط کو محض تفنن طبع اور مزاح کے لیے استعمال کیا۔ ایسے میں ان فلموں اور ڈراموں نے بھی اپنا کردار ادا کیا جن میں مزاحیہ ادا کار پنجابی یا پشتو، سرائیکی یاسندھی آمیز اُردو، مقامی لہجوں میں بولتا اور مقامی تہذیبی ثقافتی رویوں کو تضحیک کا نشانہ بناتا رہا ہے (اُردو ٹیلی ڈراموں میں یہ رویہ اب بھی موجود ہے۔)
اس ساری بحث کو ملحوظ رکھیں تو یہ بات واضح طور پر ہمارے سامنے آتی ہے کہ آج اُردو زبان کی بقاء مقامی ثقافتی رویوں اور مقامی زبانوں کے الفاظ کو اُردو میں سمونے میں مضمرہے،اس کی شروعات ایک حدتک ہوچکی ہیں مگر عمومی طور پر اُردو کے نقاد اور تخلیق کار اس عمل سے گریزاں رہتے ہیں۔ اس سارے منظر نامے کو پیش نظر رکھیں تویہ نتیجہ اخذ کرنا مشکل نہیں کہ اردو میں مضافاتی ادب کی اصطلاح یا اصطلاحی معنوں میں ایسے ادب کی کوئی صورت موجود نہیں۔ شہروں اور دیہاتوں کے رہنے والے تخلیق کاروں نے اردوشعروادب میں جو اضافے کیے ہیں،وہ اپنی مثال آپ ہیں۔ اردو کے لسانی ڈھانچے اور نئی لفظیات کے حوالے سے ہمیں کچھ نئے فیصلے کرنے ہیں۔ جتنی جلد ہم حقائق کو تسلیم کرکے نئے فیصلے کرلیں گے اردو کا مستقبل اتناہی محفوظ ہوجائیگا۔
ان تمام مباحث کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے جب ہم چھوٹے شہروں اور قصبوں میں ترویج زبان و ادب پر نظر کرتے ہیں تو حیرت زا نتائج سامنے آتے ہیں۔ اگلے صفحات میں ہم اس حوالے سے لیہ کے مجموعی شعروادب پر نظر ڈالنے کی کوشش کریں گے۔
نوٹ: یہ مضمون ڈاکٹر افتخار بیگ کی کتاب لیہ کا شعری افق کل اور آج سے لیا گیا ہے۔