کالم

حلقہ سٹی لیہ: ن لیگ کے زوال کا ذمہ دار کون؟

محسن عدیل چوہدری

مسلم لیگ نواز کا گڑھ سمجھے جانیوالے ضلع لیہ میں ماضی کے انتخابی نتائج کا جائزہ لیں تو یہ انکشاف حیران کن ہے کہ سٹی حلقہ گزشتہ ستائیس سال سے ن لیگ کی نمائندگی سے محروم ہے، 1997ء کے الیکشن میں مسلم لیگ نواز کے عظیم کارکن ورہنما مرحوم غلام محمدسواگ نے اس وقت کے سٹی حلقہ پی پی 216سے کامیابی سمیٹی، غلام محمدسواگ کی شہادت کی صورت ناگہانی موت پر ہونے والے ضمنی انتخابات میں ملک عبدالشکور سواگ کو ملک غلام محمد سواگ کا جانشین قراردیکر میدان میں اتاراگیا، برسراقتدار امیدوار ہونے، سرکاری مشینری کے بے دریغ استعمال، ہمدردی کی لہر کے ساتھ ساتھ لیگی رہنما اقبال خاکوانی، معروف ٹی وی اینکر مرحوم طارق عزیز ودیگر سیاستدانوں کی جانب سے لیہ آکر بھرپور چلائی گئی مہم نے شکور سواگ کو وکٹری سٹینڈ پر پہنچنے میں مدد دی۔
لیہ کے دیگر حلقوں کے نتائج کے برخلاف گزرے چھبیس سالوں میں قسمت کی دیوی پھرسٹی ن لیگ کے امیدوار پر مہربان نہ ہوئی، دوبار قومی حلقہ سے لیگی ٹکٹ پر پیر آف جگی شریف صاحبزادہ ثقلین بخاری تو کامیاب ٹھہرے لیکن انہوں نے جس کا بھی ہاتھ تھاما اس کی نیا پار نہ لگ سکی، وجوہات پر نظرڈالیں تو کبھی لیہ سے کمزور لیگی امیدوار کو سامنے لانا تو کبھی پیر آف جگی شریف کی فرمائش پر حلقہ کو خالی رکھاجانا اہم ہے، دوسروں کا کاندھا استعمال کرکے اپنے لیے راہ ہموار کرنے کی خودغرضانہ پالیسی کے نتائج ن لیگ کیلئے مثبت کی بجائے منفی ثابت ہوئے ، گزشتہ الیکشن میں بھی ایک یا دو نہیں بلکہ دس کاندھوں کے استعمال کے باوجود ن لیگ کا قومی حلقہ سے پتہ صاف ہونا بھی سیاسی حالات کے منفی ڈگر پرہونے کی دلیل ہے۔
2002ء میں ہونے والے انتخابات میں ن لیگ نے نئی حلقہ بندی پر پی پی 266سٹی سے ملک عبدالشکور سواگ ہی کو ٹکٹ دیکر سیاسی اکھاڑے میں اتارا، قومی اسمبلی کا ٹکٹ پہلی بار صاحبزادہ ثقلین بخاری کے حصے میں آیا، امیدوار کی عدالت میں کم عمری چیلنج ہونے پر ثقلین بخاری کلیئرنس کے انتظار میں اپنی مہم بروقت شروع نہ کرسکے، الیکشن سے چندروز قبل”گوہیڈ“ملنے پر چلائی گئی مہم میں انہوں نے اپنے پہلے الیکشن میں ہی پارٹی فیصلے اورامیدوار سے بے وفائی کاارتکاب کیا، پینل لیگی امیدوار شکور سواگ کی بجائے ہاکی کے نشان پر پہلاالیکشن لڑنے والے معروف کاروباری سیٹھ عبدالشکور کے بیٹے حافظ جمیل کے ساتھ تشکیل دے ڈالا، جلسہ مہم بھی انہیں کے سٹیج پر چڑھ کر چلائی، امیدواروں کی راہیں الگ الگ ہونے، ق لیگ کے سر چڑھ کر بولتے جادو کے باعث دونوں امیدوار ناکام ہوئے، ثقلین بخاری 33ہزار، شکور سواگ 10ہزار ووٹ لے پائے، سرمایہ دار سے الحاق پر ”خرچہ بھی کرو، چرچا بھی کرو“ کی تب سے شروع ہونیوالی پالیسی کو تاحال بریک نہ لگ سکے ہیں۔
2008ء کے الیکشن میں ٹکٹوں کی تقسیم کی کہانی دلچسپ ہے، یہ اسی سال کی بات ہے جب محترمہ بینظیر بھٹو ملک واپس آئیں اور شہید رانی بنادی گئیں، بظاہر ق لیگ کا طوطی بولتا نظرآتا تھا، پرویز مشرف نے ن لیگ کے راستوں میں بے شمار رکاوٹیں کھڑی کررکھی تھیں، ن لیگ کا ٹکٹ لینے سے سیاستدان کنی کترا رہے تھے، جکھڑ تھند اتحاد کے چرچے تھے، ق لیگ نے بڑوں کے بڑے اتحاد کو ترجیح دی، ٹکٹ اپنے سابق ایم پی اے مہر فضل سمرا کی جگہ دختر غلام حیدر رضیہ تھند کو دیدیاگیا، مرحوم مہر فضل سمرا ق لیگ کے سیکرٹریٹ سے مایوسی کے عالم میں مقامی ہوٹل پہنچے تو ملاقات ن لیگ کے اہم رہنما سے ہوگئی، حال احوال پر انہوں نے مہرفضل سمرا کو سٹی حلقہ لیہ سے ن لیگ کا ٹکٹ دلوادینے کی پیشکش کی، مہر فضل سمرا پیپلزپارٹی کے رہنماشمار ہوتے تھے، مقتدر حلقو ں کی فرمائش پر ق لیگ جوائن کی تھی، ن لیگ سے ہمیشہ سے نظریاتی اختلاف تھا لیکن ق لیگ سے لال جھنڈی ملنے پر انہوں نے لیگی ٹکٹ کی پیشکش پر پہلے تو حیرانی کااظہار کیا پھر کچھ پس وپیش پر میزبان کے ہمراہ ٹکٹ کے حصول کیلئے لیگی سیکرٹریٹ میں جاری انٹرویو میں شامل ہوگئے، مرحوم نے ریڈیو ایف ایم کے پروگرام میں بطور میزبان میرے پوچھے گئے سوال پر ٹکٹ کے ایوارڈ کی دلچسپ کہانی سنا ڈالی، بتایا کہ انٹرویو پینل نے پوچھا کہ جناب آپ کتنے عرصہ سے ن لیگ سے وابستہ ہیں تو ان کا کہناتھا کہ میرے منہ سے بے ساختہ نکلا کہ دروازے کے باہر ملنے والی پیشکش اورآپ تک پہنچنے کے بیس منٹ ہی میری ن لیگ سے وابستگی کا پیریڈ ہے، مرحوم نے بتایا کہ اس بات پر قہقہہ لگا، ن لیگ کاٹکٹ کوئی لیتا نہ تھا،ہمیں کوئی ٹکٹ دیتا نہ تھا،سو اسی ہنسی مذاق میں ٹکٹ سائن کرکے مجھے تھمادیاگیا، اس الیکشن میں ثقلین بخاری اپنی سیٹ نکالنے میں کامیاب رہے، فارمولا اس بار بھی مختلف کاندھوں کے استعمال، سب سے دکھاوے کے یارانے کا تھا، سو مہر فضل سمرا اپنی سیٹ ہار گئے، محترمہ کی شہادت پر ”اوپر پیر نیچے تیر“کانعرہ لگا، اور بابر کھتران کیلئے ایوان تک رسائی کا دروازہ کھل گیا۔
2013ء کے الیکشن میں ق لیگ کو پیارے ہونے والے ملک غلام حیدر تھند نے میاں برادران کی واپسی پر پھر فرنٹ سیٹ سنبھال لی، قومی اسمبلی سے ثقلین بخاری، صوبائی حلقہ سے حیدرتھند امیدوار تھے، بخاری کو ٹف ٹائم کا سامنا تھا، ایف ایم ریڈیو ہی کے پروگرام میں وقفہ کے دوران انہوں نے اعتراف کیاکہ کامیابی کے امکانات معدوم ہیں، بصورت ناکامی سیاسی نگری میں جگہ کیسے بنائے رکھنی ہے اس پر توجہ دے رہا ہوں، پنکچر لگانے والوں نے کام دکھایا تو ثقلین بخاری دوسری بار اعلیٰ ایوان کا حصہ بنادیئے گئے، غلام حیدرتھند کو عدالت نے آخری روز نااہل کردیا، ن لیگ سٹی حلقہ کے امیدوار سے محروم ہوئی تو قرعہ چوہدری اشفاق کے نام نکلا، جیت پر وہ نون میں شامل ہوئے، دور اقتدار میں بخاری اور چوہدری کی باہم نہ بن پائی، نتیجہ پارٹی پلیٹ فارم پر نفاق کی صورت میں نکلا، تب کی پڑنے والی دراڑ آج بھی پُر نہ کی جاسکی ہے۔
2018ء کے الیکشن تک ثقلین بخاری جہاندیدہ سیاستدان کا روپ دھارچکے تھے، انہیں سیاسی پتے کھیلنے کا ڈھنگ آچکا تھا، سو ٹکٹ کیلئے کسی لیگی امیدوار کے چناؤ کی بجائے جماعت اسلامی کے امیدوار اصغر علی گجر سے پینل تشکیل دیاگیا، فرمائشی پروگرام کے تحت حلقے میں ٹکٹ کااجراء نہ کیاگیا، زبان زدوعام ہے کہ اس الیکشن میں درپردہ پی پی حلقہ سے قسمت آزماء لگ بھگ دس امیدوار وں سے ان کی اندر خانے ”گِٹ مِٹ“ ہوئی، کچھ لو،کچھ دو کی پالیسی کے گھن چکر میں ان کی صندوقچی تو ووٹوں سے بھر گئی لیکن بدقسمتی سے آرٹی ایس کے بیٹھنے پر نتیجہ ملک نیاز جکھڑ کی فتح کی صورت برآمد ہوا، لیہ کے دونوں قومی اسمبلی کے حلقوں میں رزلٹ کیسے تبدیل ہوئے یہ آنکھوں دیکھی کہانی پھرسہی، صرف اتنا کہ دونوں رزلٹ ٹی وی پر بریک کرنے کا مجھے ہی موقع ملا، اعلان پر جیتنے والے بھی حیران،پریشان،نتائج کے درست ہونے اور نتیجہ کہاں سے حاصل کیا، اس بارے موبائل پر مجھ سے استفسار کرتے رہے، شاید انہیں خوداپنی کامیابی کا یقین نہیں آرہاتھا۔
کبھی پیراشوٹرامیدوار،کبھی ٹکٹ ہولڈر کی نااہلی تو کبھی سیٹ کے خالی رکھے جانے پر سٹی میں مسلم لیگ کا ورکر مایوسی کاشکار ہوتا چلاگیا، اس دوران لسانی بنیادوں پر ن لیگ کے ضلعی صدر عابدانوارعلوی کی عہدے سے معزولی نے رہی سہی کسر نکال دی، ورکر بددل ہوا، شہر میں مسلم لیگ کا جھنڈااٹھانے اور لگانے والا کوئی نہ رہا، اپنے گڑھ میں مسلم لیگ نواز گنتی کے چند کارکنوں تک آن محدود ہوئی، دوسروں کے کاندھے استعمال کرکے، گردنیں پھلانگ کر اپنا شملہ اونچا رکھنے کی خودغرضانہ پالیسی نے مسلم لیگ نواز کو گزشتہ چھبیس سال سے سٹی حلقہ میں اقتدار سے محروم کررکھا ہے، اس بار بھی یہی پالیسی اپنائی جارہی ہے، اب تو زبان زدوعام ہے کہ پیر آف جگی شریف دل کا حال کسی کو نہیں سناتے، گہرے اور خاموش پانی کی طرز پر راز چھپائے رکھنے کی پالیسی اپنائے ”سب کو پُتر“ دینے کی نوید سنا تے ہیں اوراپنا ہمنوا بناتے ہیں، لیکن لگتا ہے اس بار کچھ سیاسی ادراک دوسروں نے بھی پا لیا ہے۔
ن لیگ کے ٹکٹ کیلئے پانچ امیدوار میدان میں آئے، اسامہ گجر سے پینل بنانے سے پیر آف جگی شریف کے انکار اور اعلیٰ قیادت کو دیئے گئے پیغام پر وہ راہیں جدا کرچکے، پی ٹی آئی کو پیارے ہوئے، مہرطفیل،سیٹھ اسلم، عابدعلوی کے علاوہ مہراعجازاچلانہ بھی حلقہ سے لیگی ٹکٹ پرالیکشن لڑنے کے خواہاں اور ن لیگ کی کامیابی دیکھنے کے متمنی ہیں، وہ حلقہ خالی چھوڑنے کے حق میں نہیں، سٹوڈنٹ لائف سے مسلم لیگ کا پرچم اٹھائے عابدانوار علوی گرم سرد موسم، اپنوں کی بے اعتنائیوں، ٹکٹ کی دوڑ میں ہر بار لال جھنڈی دکھادیئے جانے کے باوجود دیگر جماعتوں کی پیشکشوں کو ٹھکرا کر ملک کی خالق جماعت کے سحر میں اب تک جکڑے ہوئے ہیں، عوام میں انتخابی مہم کیلئے جاتے ہیں تو سوال اٹھتا ہے،ہم ساتھ دیں، ن لیگ آپ کو ٹکٹ نہ دے، آپ الیکشن سے دستبردار ہوجائیں تو ہمارا اعلان حمایت کس کام کا، ہم نہ ادھر کے رہیں گے نہ اُدھر کے، دوسری جانب ٹکٹ وپینل کی خواہش کااظہار کریں تو سیاستدان کہتے ہیں،آپ گھر بیٹھے ہیں آپ نے ورک اسٹارٹ نہیں کیا، گاڑی چلتی، کچھ سفر طے کیے ہوتی تو ہم بھی سوار ہونے کو ترجیح دیتے، عابد علوی ساری عمر اسی مخمصے سے نہ نکل سکے، نہ لیگی سیاستدانوں خصوصاً پیر آف جگی شریف نے انہیں نکلنے دیا۔
لاگو فارمولے میں ووٹ بھی دو، فرمائشیں بھی پوری کرو، ساتھ میں شکست بھی کھاؤ شامل ہے،آپ جی جان سے سرتسلیم خم کریں، بطور صوبائی ونگ شکست بھی کھائیں، تب تو آپ پینل کے امیدوار بن سکتے ہیں، نتائج گواہ ہیں، ٹکٹ کا مثبت سگنل ملے تو ووٹ کیلئے کوئی تگ ودو کرے، فتح یا شکست کا جواء تو کھیلا جاسکتا ہے، فرمائش جتنی بھی تگڑی ہو،مان بھی لی جائے لیکن ”ڈومور“ کامطالبہ کون پورا کرے۔
اعجازاچلانہ،عابدعلوی،اسلم سمرا، مہرطفیل ایک پیج پر دکھائی دیتے ہیں لیکن دال گلتی نظرنہیں آتی، سابقہ نعرے اوپر پیر نیچے تیر میں معمولی تبدیلی سے ”اوپر پیر نیچے پیر“ کے نئے نعرے کی جئے جئے کار کیلئے تگ ودو جاری ہے، پرانا لولی پاپ سب کو تھمانے کی کوشش بھی فارمولے کا حصہ ہے، اپنا اُلو سیدھا کرو کوئی جائے بھاڑ میں، لیکن ہر بار شاید ایسا نہ ہوسکے، مجھے مقامی مسلم لیگ سے بغاوت کی بو آرہی ہے، کروڑ حلقے میں چچا بھتیجے کی کھینچاتانی جاری رہی تو وہاں نیا ڈوبنے سے کوئی نہیں بچاسکتا، لیہ حلقہ میں ایک بار پھر سب خود غرضانہ پالیسی کی بھینٹ چڑھتا دکھائی دیتا ہے۔

بشکریہ روزنامہ لیہ ٹو ڈے

یہ بھی پڑھیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button

For copy this text contact us :thalochinews@gmail.com