سو روپے میں افریقہ جانے کی کوشش : پاکستانی لڑکیوں کی کہانی
ڈیرہ غازی خان سے جنوبی افریقہ جانے کے لیے تین بہنیں ایک ساتھ لاہور ریلوے سٹیشن پہنچیں جہاں ریلوے پولیس نے انہیں حفاظتی تحویل میں لے کر ورثا کے حوالے کر دیا۔
ریلوے پولیس کے ترجمان کنور عمیر ساجد نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ستمبر کی 28 تاریخ کو لاہور ریلوے پولیس کے کانسٹیبل شاہنواز نے ان بچیوں کو بغیر کسی سرپرست کے اکیلے بیٹھے دیکھا تو دریافت کیا کہ وہ وہاں کیا کر رہی ہیں، تسلی بخش جواب نہ ملنے پر کانسٹیبل نے بچیوں کو حفاظتی تحویل میں لے لیا۔
عمیر نے مزید بتایا کہ جب بچیوں سے پوچھ گچھ کی تو معلوم ہوا کہ وہ تینوں بس پر ڈیرہ غازی خان سے لاہور ریلوے سٹیشن پہنچیں۔ یہاں ان بچیوں کے پاس ایک مسافر بھی آیا جس نے انہیں پیش کش کی کہ وہ ان کے ساتھ کراچی چلیں لیکن اسی دوران کانسٹیبل شاہنواز وہاں پہنچ گئے جس پر وہ مسافر وہاں سے فرار ہوگیا۔
عمیر نے بتایا کہ ’ان کے پاس کچھ سامان تھا اور تینوں کے پاس 100 روپے تھے جبکہ ایک موبائل فون بھی تھا جس میں سم تو نہیں تھی البتہ اس میں انڈیا اور جنوبی افریقہ کے دو نقشوں کے سکرین شاٹ تھے۔ تفتیش کے دوران ان بہنوں نے بتایا کہ وہ بہتر مستقبل اور کچھ بننے کے لیے گھر سے نکلی ہیں’جب ہم نے پوچھا کہ نقشے کیوں رکھے ہیں تو انہوں نے کہا کہ ہم نے یہاں سے کراچی جانا تھا اور وہاں سے پیدل انڈیا جانا تھا اور وہاں سے جنوبی اقریقہ جانا تھا جہاں ہمارا مستقبل سنور جائے۔
بچیوں کے سامان سے ایک قینچی بھی نکلی تھی جس سے ان تینوں میں سے دو نے لڑکا لگنے کے لیے اپنے بال بھی کاٹے اور انہوں نے اپنے بھائی کے کپڑے پہن رکھے تھے تاکہ کسی کو ان کے لڑکی ہونے کا شک نہ ہو۔‘
عمیر نے بتایا کہ بچیوں کے گھر والوں کے مطابق بچیاں گھر سے سکول کے لیے نکلیں تھیں لیکن گھر واپس نہیں آئیں چونکہ ڈیرہ غازی خان میں اغوا کے واقعات رونما ہوتے رہتے ہیں اس لیے بچیوں کے چچا کی مدعیت میں تھانہ کوٹ مبارک ڈیرہ غازی خان میں 27 ستمبر کو ان کے اغوا کی ایف آئی بھی درج کی گئی تھی۔
ہم نے بچیوں ے گھر والوں کا رابطہ نمبر لے کر انہیں اطلاع کی اور وہ اگلے دن یہاں لاہور پہنچے اور اس دوران ہم نے ان بچیوں کو اپنی حفاظتی تحویل میں رکھا۔‘
آئی جی ریلوے پولیس راؤ سردار علی خان نے اس حوالے سے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’ریلوے پولیس نے بروقت کارروائی کرتے ہوئے ایک بڑی ہیومن ٹریفکنگ کی واردات کو ہونے سے بچایا ہے۔ ریلوے پولیس کے ہیلپ ڈیسک تمام ریلوے سٹیشنز پر بنے ہوئے ہیں جو سیف ہیون کے طور پر ان بچوں کے لیے کام کر رہے ہیں جو گھر سے بھاگتے ہیں یا گم ہو جاتے ہیں اور ہمیں ریلوے سٹیشنز سے ملتے ہیں۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’رواں برس بھی یکم جنوری سے 30 ستمبر تک پاکستان ریلوے پولیس نے ایسے کل 735 بچے اور بچیوں کو ان کے ورثا کے حوالے کیا ہے۔‘