پاکستان

ریڈ زون کے قریب پمپس اور مارکیٹیں بند کر دی گئیں

شنگھائی تعاون تنظیم کے سربراہی اجلاس کے موقع پر پاکستان کے وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں کرفیو کا سا سماں ہے۔ جڑواں شہروں میں عام تعطیلات کے باعث اگرچہ رش تو نہیں تاہم اس کے باوجود ہزاروں افراد کا کاروبارِ زندگی متاثر ہوا ہے۔
اسلام آباد میں راستوں اور شاہراہوں کی بندش کوئی نئی بات نہیں بلکہ اب تو شہری بھی اتنے عادی ہوتے جا رہے ہیں کہ صبر شکر کر کے بیٹھ جاتے ہیں یا پھر بہت ہی مجبوری ہو تو متبادل راستوں سے اپنے دفاتر کو پہنچ جاتے ہیں۔مناظر حسین اسلام آباد میں دودھ کا کاروبار کرتے ہیں۔ وہ معمول کے مطابق رات تین بجے گھر سے نکلتے ہیں اور مختلف علاقوں کے باڑوں سے دو ہزار لیٹر سے زائد دودھ اکٹھا کرکے ریڈ زون میں واقع اداروں کی کنیٹین یا کیفے سے ملحقہ سیکٹرز کے کاروباری مراکز میں ہوٹلوں پر سپلائی کرتے ہیں۔
راستوں کی بندش اور عام تعطیل کے باعث انھیں روزانہ کی بنیاد پر لاکھوں روپے کے نقصان کا سامنا ہے۔ اُردو نیوز سے گفتگو میں انھوں نے بتایا کہ ’سرکاری اداروں میں چھٹیاں ہیں تو زیادہ تر گھروں میں موجود ہیں، ہوٹلوں وغیرہ پر بھی رش کم ہے اور دوسرے شہروں سے آمد بھی رکی ہوئی ہے۔ اس وجہ سے ہوٹل مالکان بھی زیادہ دودھ لینے سے گریزاں ہیں اس کے باوجود سوموار کو تھوڑا بہت فروخت ہو ہی گیا تھا۔‘
انھوں نے بتایا کہ ’ایک دن پہلے اسلام آباد پولیس کا ٹریفک پلان دیکھ کر ایک دو جگہوں پر دودھ سپلائی کرنے کا طریقہ نکالا تھا تاکہ دودھ ضائع نہ ہو لیکن منگل کو جب نکلے تو وہ راستے بھی بند کر دیے گئے تھے۔ٹریفک پلان کے مطابق جو راستے کُھلے رکھے جانے تھے وہ بھی بند کر دیے گئے۔‘
مناظر حسین نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ’جب پولیس کے بتائے ہوئے متبادل راستے پر گئے تو وہاں پر بھی صورت حال مختلف نہیں تھی جس کی وجہ سے دو گھنٹے اندرونی راستے پر خوار ہوتے رہے اور بالآخر گھر لوٹنا پڑاان کا کہنا تھا کہ ’اب دودھ گھر میں فریزر میں رکھنے کے کے ساتھ ساتھ مقامی مارکیٹ میں دکانداروں کی منّت سماجت کرکے سستے داموں بیچنے کی کوشش کر رہے ہیں۔‘
دودھ فروش مناظر حسین نے بتایا کہ ’گزشتہ ہفتے تحریک انصاف کے احتجاج کے دوران ریڈ زون کی بندش کے باعث کئی گھنٹے مارگلہ روڈ پر پھنسے رہے اور گرمی کے باعث کم و بیش پانچ من دودھ خراب ہو گیا تھا۔‘
اسی طرح محمد اکرم اسلام آباد کے نواحی علاقے بنی گالہ میں سبزی اور فروٹ کی دکان چلاتے ہیں۔ انھوں نے اپنے کچھ ساتھی دکانداروں کے ساتھ یہ طے کر رکھا ہے کہ وہ سبزی منڈی سے ان کا سامان بھی لاد کر لایا کریں گے۔
تاہم اب راستے بند ہونے کی وجہ سے وہ تین دن سبزی منڈی نہیں جا سکے اور دکان پر موجود سبزی اور پھل بھی ختم ہو چکے ہیں جس کی وجہ سے وہ تین دن تک کمائی کرنے سے محروم رہیں گے۔
اُردو نیوز سے گفتگو میں انہوں نے کہا کہ ’کبھی احتجاج کے نام پر راستے بند ہوتے ہیں تو کبھی اعلیٰ سطح کے دوروں کی وجہ سے ہمیں کاروبار کرنے سے روک دیا جاتا ہے۔ شاید باقی دنیا میں بھی ایسا ہوتا ہوگا لیکن کبھی سُننے میں نہیں آیا۔‘
محمد اکرم کا کہنا تھا کہ ’نتظامیہ کو چاہیے تھا کہ ایسا انتظام کرتے کہ کسی کی روزی روٹی متاثر نہ ہو۔ اب جب سب کچھ بند پڑا ہے تو اس سے بھی تو باہر کی دنیا میں کوئی اچھا تاثر نہیں جا رہا۔‘
اسلام آباد میں عام تعطیل کے باوجود میڈیا سمیت کئی ادارے ایسے ہیں جن کے ملازمین کا اپنے دفاتر میں ہونا ضروری ہے لیکن ان کی انتطامیہ کی جانب سے کوئی ایسا نظام وضع نہیں کیا گیا کہ وہ اپنی ڈیوٹیز پر پہنچ سکیںاس وقت شنگھائی تعاون تنظیم کے سربراہ اجلاس میں شرکت کے لیے وفود کی آمد کا سلسلہ جاری ہے اور سربراہانِ مملکت بھی پہنچ رہے ہیں۔
ایسے میں اسلام آباد کا ایکسپریس وے، کشمیر ہائی وے، راولپنڈی کا مری روڈ اور ریڈ زون کی طرف جانے والے تمام راستے مکمل طور پر بند کر دیے گئے ہیں۔ صرف ان افراد کو اسلام آباد میں داخلے کی اجازت مل رہی ہے جن کے پاس کانفرنس کے لیے جاری کیے گئے خصوصی سکیورٹی پاسز موجود ہیں۔
صرف یہی نہیں بلکہ ریڈ زون کے آس پاس اور کئی کلومیٹر دور تک تمام مارکیٹیں اور پٹرول سٹیشنز بھی بند کر دیے گئے ہیں۔
اسلام آباد ٹریفک پولیس کے مطابق میں پارک روڈ کو بنی گالہ کے مقام پر اور راول ڈیم چوک کو کلب روڈ سے بند کیا گیا ہے۔
اسی طرح فیصل ایونیو کو فیض آباد انٹر چینج کے مقام پر، آئی جے پی روڈ سے آئی ایٹ جانے والے، کشمیر ہائی وے پر کنونشن سینٹر جانے والے اور بارہ کہو سے مری روڈ جانے والے راستے بند کیے گئے ہیں

یہ بھی پڑھیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button

For copy this text contact us :thalochinews@gmail.com