ہم لکھنے والوں کی تخلیق کے سوتے دل کی گہرائیوں سے پھوٹا کرتے ہیں یوں لگتا ہے کہ یادوں کی دنیا کا بھی کچھ یہی حال ہے یہ سینوں میں دھڑکتی رہیں،راتوں میں آنکھوں کی پلکوں پر جاگتی رہیں تو سچ مچ کنول کے پھول کی طرح ہوتی ہیں جس کی خوشبو پانی کی سبک لہروں کے ذریعے بس آس پاس ہی رہتی ہیں ،سن تو مجھے یاد نہیں مگر اُس روز 5فروری تھا اور کشمیری بھائیوں کے ساتھ یکجہتی کا اظہار قافلوں کی شکل میں جا بجا نظر آیا اور دوسری جانب شہر کی دیواروں پر پوسٹروں کی شکل میں ایک خوبصورت تصویر نمایاں تھی میرے قبیلے کے اس فرد کی تصویر کے نیچے تحریر تھا کہ ”اُمیدوار برائے صدارت“ پھر ایک روز اُس خوبرو تصویر والی شخصیت سے میرا آمنا سامنا ہو گیا مصافحہ ہوا تو میں اُس کے سحر میں کھو گیا باتوں کی چاشنی ا ور گفتگو کے لہجہ نے مجھے مسحور کر دیا تب وہ اخبارات کی دنیامیں میں ایک بڑے گروپ کے ساتھ منسلک تھے جس کے ریذیڈنٹ ایڈیٹر شیخ ریاض پرویز مرحوم تھے وہ مجھے شیخ ریاض کے پاس لے گئے اور میرا تعارف بطور رائٹر کرایا
قارئین میرے ذکر خاص کا محور شخصیت محترم جبار مفتی کی ہے ملتان میں جب بھی جانا ہوا تو اُن سے ملنے کی خواہش کی شدت انگڑائی لیتی رہی ایک روز گیا تو پریس کلب ملتان میں ان کی بابت معلوم پڑا مگر ملنے کی تشنگی باقی رہی اخباری دنیا کی مصروفیات انسان کو دوستوں سے بیگانہ کر دیتی ہے زندگی یوں الجھی ہے جیسے کسی دیوانے کے دکھوں سے اٹے بال،آج کا انسان بے بس سا ہو گیا ہے،سکون نایاب ہے مگر ایسے دوست باقی ہیں کہ اُن کو آنکھیں موند کر سوچا جائے تو ٹھنڈک کا احساس لیئے چاندنی پور پور میں اُتر جاتی ہے اور ایسے دوستوں کی وسعتیں انسان کو سمیٹ لیا کرتی ہیں بہر کیف وصال کی یہ سچی طلب کسی روز ملن کا سبب بنے گی
ملک وزیر اعون ،عظمت کی آخری سیڑھی پر کھڑا انسان، اُن کا سنگ بھی کچھ عرصہ ہی سمیٹ سکا آنسو آج بھی پلکوں پر ٹھہر ے ہوئے ہیں اور کبھی تو نمکین پانی کا اک اک قطرہ رگوں میں زہر بن کر اُترتا ہے،درد کی ٹیسیں ہیں کہ جاگتی ہیں گھنٹہ گھر سے کچہری کی طرف آتے ہوئے ایک اونچی اور قدیم بلڈنگ میں اُن کا دفتر ہوا کرتا تھا مجھ سے محبت کا یہ عالم تھا کہ ساکت لبوں پر جتنے ان کہے لفظ بکھرتے چن لیتے گزری ساعتیں وہی عذاب بنا کرتی ہیں جہاں کوئی اپنی ذات کی دوسروں کی خاطر نفی کر دے یہ اُن کے جذبوں کی پذیرائی تھی کہ آج برسوں بعد بھی ملتان کی شاہراہوں پر تنہا چلتے ہوئے یوں محسوس ہوتا ہے کہ وہ میرے شانہ بشانہ چل رہے ہیں ذوالفقار علی بھٹو مرحوم پہلی بار جب ملتان آئے تو اُن کا پڑاؤ ملک وزیر اعوان کے ہاں تھا ملک وزیر اعوان کی محبتوں کا اعجاز تھا کہ بھٹو مرحوم نے بہت سی قیمتی اشیاء جو اُن کے زیر استعمال تھیں ملک وزیر اعوان کو دان کر دیں کچھ آذار جان کے ساتھ ایسے منسلک ہو جاتے ہیں جن سے فرار ممکن نہیں ہوتا ایک بیٹی جو کینسر جیسے مرض سے برسر پیکار رہنے کے بعد جہان ِ فانی سے دارالبقاء کو سدھار گئی ملک وزیر اعون مرتے دم تک اس سانحہ کے حصار سے نہ نکل سکے اور اس سے قبل ملک بشیر اعوان جو ملتان کے ڈپٹی میئر بھی رہے کی موت اُن کے اعصاب پر چھائی رہی میری اُن سے بالمشافحہ ملاقات پاکستان نیشنل کانفرنس کے انعقاد پر ہوئی یہ کانفرنس 97ء میں فرید پارک مزنگ لاہور میں ہوئی جس کی سرپرستی ایئر مارشل اصغر خان کر رہے تھے اسی کانفرنس میں اپنے مربی ملک وزیر اعوان سے ملنے کا شرف ہوا معروف دانشور ڈاکٹر انور سجاد،بھٹو مرحوم کے دیرینہ دوست ڈاکٹر غلام حسین،ممتاز کاہلوں نے اپنی تقاریر کا جادو جگایا ملک وزیر اعوان بھی اکثر جبار مفتی کا ذکر لے کر بیٹھتے
اک لامحدود اُداسی ہے
اک بے انتہا محبت کے بعد
اس شہر خرابی میں ایک مونس اور غمگساراور بھی ہے جو شہر میں نہیں دلوں میں بستا ہے دعاؤں جیسا رضی الدین رضی،انسانوں کے وہ سارے دکھ جو اس کی ذات سہار سکتی ہے اپنے ذمہ لینا اُس کا وطیرہ ٹھہرا اور اُن کی محبتوں کا قرض میں اُتارنا بھی چاہوں تو نہ اُتار سکوں جذبوں کی ایسی سچائی رکھنے والا انسان جس کے رنگ کبھی ماند نہیں پڑتے اور ہمیشہ ایسے ماحول کی طلب جہاں انسان سر اُٹھا کر جی سکے ایک ڈھارس یہ ہے کہ عظمت کی معراج پر یہ انسان مجھے اپنے قریب پاتا ہے مجھے اپنا جانتا ہے اور اعظم خاکوانی جن کے الفاظ بولتے ہیں 78برسوں سے مسلط فرسودہ نظام کے خلاف جن کا ہر لفظ اعلان ِ بغاوت ہے اور ہر لفظ کے چہرے کو سچائی کا جھومر نکھار رہا ہے اور اس نظام کی بازگشت میں رہنے والے اس لکھاری کا حوصلہ بھی بہت تنومند ہے قوم کا مزاج آشنا قلم کار ہے جانتا ہے کہ خوابیدہ قوم کا المیہ کیا ہے؟
عرصہ پہلے ایک دوست نے کہا تھا کہ انسانوں کے داغ دھوتے دھوتے تمھارے اپنے ہاتھ کالے پڑ جائیں گے جبار مفتی،رضی الدین رضی،محمد اعظم خان خاکوانی، نسیم شاہد ،یہ سچے اور سندر دوست ہیں جو سچ کو فضول خرچی سے بکھیرتے جا رہے ہیں ایک ایسے معاشرے میں جہاں سچ کے پتھر کو جسم کے ساتھ باندھ لیا جائے تو انسان ڈوب تو سکتا اُڑ نہیں سکتا وہ لفظوں کی صورت اپنے رتجگوں کی آنچ میں سلگتی ہوئی کروٹیں قارئین کے نام کرتا ہے اور یہ خوبی بھی کہ اُس کی تحریریں غیر انسانی منظر کو قریب سے دیکھتی ہیں