فراڈ یا بینکوں کے ڈیٹا بیس میں خرابی؟ صارفین کے اکاؤنٹس سے رقوم کی منتقلی کیسے ہو رہی ہے؟
پاکستان میں حالیہ دنوں میں بینک صارفین کی مرضی کے بغیر اُن کے اکاؤنٹ سے رقم کی منتقلی کے متعدد واقعات رپورٹ ہوئے ہیں۔ متاثرہ صارفین میں سے کچھ کو رقم واپس مل گئی، مگر کئی افراد ابھی تک اپنے اکاؤنٹس سے منتقل شدہ رقم کی واپسی کے منتظر ہیں۔اسلام آباد کے ایک چھوٹے ریستوران کے مالک، عامر کیانی (فرضی نام)، کو اس صورتحال کا سامنا ہوا۔ وہ اپنے کاروبار کی ضروریات پوری کرنے کے لیے انٹرنیٹ بینکنگ کا استعمال کرتے ہیں اور گذشتہ دس برسوں سے ایک نجی بینک میں اکاؤنٹ رکھتے ہیں۔ گذشتہ ہفتے، جب عامر نے ایک صبح اپنے موبائل پر میسج دیکھا تو ان کے ہوش اُڑ گئے: "آپ کے اکاؤنٹ سے 10 لاکھ روپے کی منتقلی ہو گئی ہے۔” عامر نے نہ تو خود رقم کی منتقلی کی تھی اور نہ ہی اس حوالے سے کسی دوسرے اکاؤنٹ کو ہدایت دی تھی۔ بینک میں شکایت درج کرانے کے بعد اُنہیں رقم واپس مل گئی۔اس حوالے سے صارفین کا خیال ہے کہ بینک کے ڈیٹا بیس یا سیکیورٹی سسٹم میں خرابی ہو سکتی ہے، جبکہ بینکوں نے اس مسئلے کی وجوہات صارفین کے کارڈز کے غلط استعمال اور مشکوک ویب سائٹس پر خریداری کرنے کو قرار دیا ہے۔ماہرین کا کہنا ہے کہ صارفین کے اکاؤنٹس سے اچانک رقوم کی منتقلی یا کٹوتی، چاہے وہ بینک کے ڈیٹا بیس میں خرابی ہو یا صارف کے کارڈ کے غلط استعمال کی وجہ سے، دونوں صورتوں میں ممکن ہے۔ سٹیٹ بینک اور نجی بینکوں نے بینکوں کے ڈیٹا بیس میں خرابی کی تردید کرتے ہوئے اسے صارفین کی طرف سے ممکنہ غلطی کا نتیجہ قرار دیا ہے۔