مراکش کشتی حادثہ: ایک ہی گاؤں کے 4 نوجوان ہلاک ہاتھوں سے پیسے دے کر بچے مروا دیے

وہ سب سے چھوٹا اور لاڈلا تھا۔ والد کی وفات کے بعد بڑے نازوں سے اسے پالا تھا۔ مالی حالات بھی برے نہیں تھے، اچھا کاروبار تھا لیکن یورپ جانا اس کی ضد تھی۔ جس نے ہمیں گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیا۔ جب اسے منع کیا تو اس نے منت کی کہ میرے راستے میں رکاوٹ مت ڈالیں۔ مجھے جانے دیں، وہ گیا اور پانچ ماہ بعد اس کی موت کی خبر ہم تک پہنچی۔‘
یہ کہنا ہے ضلع گجرات کی تحصیل کھاریاں کے گاؤں جوڑا کے رہائشی میاں اکرام کا جن کا سب سے چھوٹا بھائی مراکش کشتی حادثے کی بھینٹ چڑھ گیا ہے۔
اسلام آباد سے لاہور کی طرف جاتے ہوئے لالہ موسیٰ جی ٹی روڈ سے ڈنگہ کے لیے ایک سڑک نکلتی ہے جسے عرف عام میں ’جوڑا لالہ موسیٰ روڈ‘ بھی کہا جاتا ہے۔ اس سڑک نہر اپر جہلم کے کنارے پر ایک بڑا گاؤں جوڑا آتا ہے جو اب قصبے کی شکل اختیار کر چکا ہے۔آج لالہ موسیٰ جوڑا روڈ کی فضا سوگوار ہے۔ ہر شہری اداس اور آنکھوں میں نمی لیے ہوئے ہے۔ آپ اس سڑک پر سفر کرتے ہوئے جوڑا پہنچیں تو مین بازار اور گلیوں میں اداسی کھانے کو دوڑتی ہے۔
مراکش میں ہونے والے کشتی حادثے میں اس گاؤں کے چار نوجوان جان کی بازی ہار گئے ہیں۔ ان نوجوانوں میں ریحان اسلم، عمر فاورق، علی رضا اور ابوبکر شامل ہیں جبکہ علی عرف ظاہر شاہ اور تابی شاہ بچ جانے والوں میں شامل ہیں۔
یہ اداسی صرف جوڑا ہی نہیں بلکہ دیگر نواحی دیہات ڈھولہ اور گھرکو میں بھی اپنے پر پھیلائے ہوئے ہے کیونکہ ان دیہات سے بھی دو دو تین تین نوجوان اپنے ہاتھوں پیسے دے کر موت کی کشتی میں سوار ہوئے اور پھر کبھی واپس نہ آنے والے سفر پر روانہ ہو گئے۔
جمعرات کو سامنے آنے والی خبر کے مطابق مغربی افریقہ سے سپین جانے والی تارکین وطن کی کشتی ڈوبنے سے 50 افراد ہلاک ہوئے جن میں سے 44 پاکستانی شامل تھے۔ تارکین وطن کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیم ’واکنگ بارڈر‘ کی سی ای وا ہیلینا مالینو نے جمعرات ہی کو ایکس پر لکھا تھا کہ ’کشتی میں سوار افراد نے 13 دن سمندر میں بڑی مشکل میں گزارے اور کوئی ان کی مدد کو نہیں آیا۔‘
اس حادثے کا شکار ہونے والے جوڑا کے ریحان اسلم کے بھائی میاں اکرام نے کہا کہ ’ریحان کی عمر 34 برس تھی اور وہ تین بچوں کا باپ ہے۔ چھ سال کی بیٹی، چار سال کا بیٹا اور پانچ ماہ کی بیٹی اب کبھی اپنے والد کا چہرہ نہیں دیکھ سکیں گے۔ وہ ہم بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹا ہے۔ ابھی بہت چھوٹا تھا تو والد کی وفات ہو گئی۔ میں نے اسے اور دیگر بہن بھائیوں کو پالا۔ کچھ عرصہ قبل والدہ بھی وفات پا گئی تھیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’چھ ماہ پہلے اس نے بیرون ملک جانے کی ضد پکڑ لی اور کہتا تھا کہ بس پہنچ گیا تو دو سال بعد واپس آ جاؤں گا۔ ہمارا رینٹ اے کار کا اچھا بزنس ہے۔ کسی چیز کی کمی نہیں تھی لیکن یورپ جانے کے شوق نے اسے ہم سے دور کر دیا۔‘



