شہنشاہ اسکواش جہانگیر خان نے 59 بہاریں دیکھ لیں
اسکواش ایک ایسا کھیل ہے جس میں پاکستان نے عالمی سطح پر اپنی سبقت ثابت کی۔ ایک دور تھا کہ پاکستان سے تعلق رکھنے والے کھلاڑی اسکواش میں مکمل طور پر چھائے رہے اور انہوں نے اپنی صلاحیتوں کی بدولت ملک و قوم کا نام روشن کیا۔ ایسے کھلاڑیوں میں ہاشم خان، ان کے چھوٹے بھائی اعظم خان، روشن خان، ان کے سالے محب اللہ خان سینئر، ،ماسٹر آف اسٹروکس کے نام سے معروف قمر زماں، شہنشاہ اسکواش کہلانے والے جہانگیر خان اور لیجنڈ پلیئر جان شیر خان شامل ہیں۔ اسکواش کے افق پر چھا جانے والے یہ کھلاڑی پاکستان کی تاریخ میں امر ہوچکے ہیں۔
اسکواش میں اپنا سکہ جماتے ہوئے روشن آفتاب کی مانند چمکنے و دمکنے والے سابق عالمی چیمپئن جہانگیر خان 59 برس کے ہوگئے۔ نواں کلی، پشاور کے معروف اسکواش گھرانے سے تعلق رکھنے والے جہانگیر خان 10 دسمبر 1963 کو کراچی میں پیدا ہوئے۔ 1957 میں برٹش اوپن اسکواش چیمپئن شپ جیتنے والے اپنے والد روشن خان اور بڑے بھائی عالمی کھلاڑی طورسم خان کو دیکھ کر ان کے دل میں بھی اسکواش کا کھلاڑی بننے کی امنگ پیدا ہوئی۔ بچپن میں ہی ہرنیا کے مرض میں مبتلا ہونے کے باعث ڈاکٹرز کی جانب سے سخت جان کھیل سے دور رہنے کے مشورے پر روشن خان نے اپنے بیٹے کو اسکواش کھیلنے سے منع کردیا تھا، تاہم کھیل کی محبت کم نہ ہوئی اور جہانگیر خان اپنے والد سے چھپ چھپ کر اسکواش کھیلنے لگے۔ ایک دن فلیٹ کلب (اب روشن خان، جہانگیر خان اسکواش کمپلیکس، کراچی) میں بالکونی سے روشن خان نے جہانگیر خان کا کھیل میں انہماک دیکھ کر اپنا فیصلہ تبدیل کرلیا اور بیٹے کو نہ صرف کھیلنے کی اجازت دی بلکہ کھیل کے بنیادی رموز بھی سکھائے۔
بڑے بھائی طورسم خان کی خواہش تھی کہ جہانگیر خان عالمی چیمپئن بنے، چنانچہ طورسم خان نے جہانگیر خان کو اپنے پاس لندن بلالیا اور تربیت دینا شروع کردی، جس کی بدولت صرف 15 سال 10 ماہ 16 دن کی عمر میں جہانگیر خان اکتوبر 1979 میں عالمی امیچر چیمپئن بن گئے۔ اب جہانگیر کی نظریں عالمی ٹائٹل پر تھیں۔ لیکن سوا ماہ بعد ہی 28 نومبر کو جہانگیر خان پر قیامت ٹوٹ پڑی۔ آسٹریلوی شہر ایڈیلیڈ میں آسٹریلین اوپن اسکواش ٹورنامنٹ کے میچ کے دوران طورسم خان دل کا دورہ پڑنے کی وجہ سے انتقال کرگئے۔ دل برداشتہ جہانگیر خان نے اسکواش چھوڑ دینے کا فیصلہ کیا، لیکن پھر بھائی کی خواہش یاد آگئی اور ایک مرتبہ پھر ریکٹ تھام لیا۔ اب ان کے کزن اور روشن خان کے بڑے بھائی نصراللہ خان کے صاحبزادے رحمت خان سامنے آئے اور جہانگیر خان کی کوچنگ کی ذمے داری سنبھال لی۔
کھیلوں کے حوالے سے معروف شخصیت اور پی آئی اے کے سربراہ ایئر مارشل (ر) نور خان نے ابھرتے ہوئے کھلاڑیوں کےلیے بنائی جانے والی پی آئی اے کولٹس اسکیم میں جہانگیر خان کو شامل کرلیا اور بعد ازاں کم عمری کے باوجود ادارے میں ملازمت بھی فراہم کی۔ جہانگیر نے بھی بھائی کی خواہش کے مطابق عالمی چیمپئن بننے کا عزم کیا اور مسلسل محنت اور جدوجہد کی۔ اپریل 1981 میں پہلی مرتبہ اس وقت کے عالمی نمبر 1 آسٹریلوی کھلاڑی جیف ہنٹ سے برٹش اوپن اسکواش ٹورنامنٹ کا فائنل کھیلا۔ اسی برس 17 سالہ جہانگیر خان نے اپنے بھائی کے خواب کو پورا کردیا اور جیف ہنٹ کو شکست دے کر عالمی چیمپئن بن گئے۔ پاکستان آمد کے بعد کراچی ایئرپورٹ سے سیدھے اپنے بھائی طورسم خان کی قبر پر پہنچے اور وننگ ٹرافی قبر کے سرہانے رکھ دی۔
جہانگیر خان نے دس مرتبہ برٹش اوپن اور چھ مرتبہ ورلڈ اوپن اسکواش ٹورنامنٹ جیتنے کا ریکارڈ قائم کیا۔ شہنشاہ اسکواش کہلائے جانے والے جہانگیر خان مسلسل 555 میچز میں ناقابل شکست رہنے کا بھی اعزاز رکھتے ہیں۔ 1993 میں اسکواش کو خیرباد کہہ دینے والے جہانگیرخان کو خدمات کے اعتراف میں حکومت پاکستان نے صدارتی تمغہ حسن کارکردگی اور ہلال امتیاز سے بھی نوازا۔ جہانگیر خان ہاکی کے اولمپئن اسد ملک کے بعد والے دوسرے کھلاڑی ہیں جن کی تصویر والے ڈاک ٹکٹ جاری ہوئے۔ جاپان کی حکومت نے بھی 2017 میں جہانگیر خان کی تصویر والے یادگاری ٹکٹ جاری کرکے اس عظیم کھلاڑی کو خراج تحسین پیش کیا۔ لندن میٹرو پولیٹن یونیورسٹی نے جہانگیر خان کو ڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگری عطا کی۔ جہانگیر خان ورلڈ اسکواش فیڈریشن کے اعزازی صدر بھی رہے۔
جہانگیر خان جتنے بڑے کھلاڑی رہے، اتنے بڑے انسان بھی ہیں۔ وہ اپنی منسکرالمزاجی، سادہ طبیعت، خوش اخلاقی اور اعلیٰ ظرفی کے سبب دنیا بھر میں انتہائی عزت اور تعظیم کی نگاہ سے جانے اور پہچانے جاتے ہیں۔ ان کی اخلاقی تربیت میں لندن کی خاتون جوائس ویڈی کا اہم کردار ہے، جنہوں نے نوعمر جہانگیر کو انگریزی زبان سکھانے کے ساتھ اعلیٰ اخلاقیات و اقدار کا درس بھی دیا۔
جہانگیر خان پاکستان میں اسکواش کی موجودہ صورتحال سے بہت دل برداشتہ نظر آتے ہیں۔ جہانگیر خان کا کہنا ہے کہ آج کے کھلاڑی جیت کی امنگ سے عاری اور سخت محنت سے اجتناب برتتے ہیں۔ تاہم سہولتوں کا فقدان بھی پاکستان میں اسکواش کے کھیل میں تنزلی کا باعث ہے۔ اگر مناسب اور راست اقدامات کیے جائیں تو پاکستان ایک مرتبہ پھر عالی اسکواش میں اپنا مقام پیدا کرسکتا ہے۔
ناقابل تسخیر کہلائے جانے والے جہانگیر خان کہتے ہیں کہ میں نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ اس مقام پر پہنچوں گا۔ مجھے فخر ہے کہ ملک کےلیے خدمات انجام دیں۔ میرے لیے یہ بڑا اعزاز ہے کہ لوگ آج بھی اسی طرح عزت کرتے اور محبت دیتے ہیں۔ مداحوں سے درخواست ہے کہ آئندہ بھی مجھے اپنی دعاؤں میں یاد رکھیں۔