خبریں

ٹی ٹی پی پاکستان میں بھی افغانستان جیسے رولز لانا چاہتی ہے، تجزیہ کار

کراچی : میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے سینئر صحافی سمیع یوسفزئی کا کہنا تھا کہ ٹی ٹی پی پاکستان میں بھی افغانستان کے جیسے رولز لانا چاہتی ہے، سینئر صحافی عامر رانا نے کہا کہ ماضی کی طرح اب بھی افغان طالبان اور ٹی ٹی پی کا بھائی چارہ اور رابطے جاری ہیں، سینئر صحافی احسان ٹیپو محسود کا کہنا تھا کہ ٹی ٹی پی مذاکرات کے لئے کسی صورت تیار نہیں ہوسکتی اس لئے اس ساری صورتحال کو مدنظر رکھ کر اس معاملے پر پالیسی بنائی جائے۔

سینئر صحافی سمیع یوسفزئی کا کہنا تھا کہ اس وقت افغانستان میں 1994 جیسی صورتحال ہے افغانیوں کی مشکلات میں اضافہ ہورہا ہے خواتین کی اعلیٰ تعلیم پر قدغنیں لگ رہی ہیں ملک معاشی بحران کا شکار ہے، افغان حکومت بہت سخت فیصلے کر رہی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ جس طرح ماضی میں طالبان افغانستان میں حملے کرکے پاکستان میں پناہ لیتے تھے اسی طرح ٹی ٹی پی بھی پاکستان میں حملے کرکے افغانستان میں پناہ لے رہے ہیں جس طرح اشرف غنی کی حکومت مطالبہ کرتی تھی کہ انہیں باہر نکالو بالکل اسی طرح اب پاکستانی حکومت بھی مطالبہ کر رہی ہے۔

سمیع یوسفزئی نے کہا کہ ٹی ٹی پی افغان طالبان کے امیر کو اپنا امیر مانتے ہیں اور یہ پاکستان میں بھی افغانستان کے جیسا رولز لانا چاہتے ہیں افغان طالبان چاہیں تو وہ ان کو پاکستان سے نکال سکتے ہیں مگر وہ ایسا نہیں کریں گے۔

سمیع یوسفزئی کا مزید کہنا تھا کہ اس سارے معاملے کے حل کرنے کا واحد راستہ پاک افغان بارڈر پر رہنے والوں کو کنٹرول کیا جائے کہ یہاں سے کوئی بھی ایسا اقدام نہ ہو جس سے جوابی کاروائی کی جائے، اور اس مسئلے پر افغان حکومت سے سنجیدگی سے بات کی جائے۔

سینئر صحافی عامر رانا نے کہا کہ پاکستان میں امن بحال ہوا تھا نہ ہی اب ہے اسی تسلسل کے ساتھ حملے دوبارہ شروع ہوگئے ہیں ماضی کی طرح اب بھی افغان طالبان اور ٹی ٹی پی کا بھائی چارہ اور رابطے جاری ہیں یہ پاکستان کی ناقص افغان پالیسی کا مسئلہ ہے کہ جس طرح اقدامات کرنے چاہیے تھے وہ نہیں ہوئے۔

انہوں نے کہا کہ ٹی ٹی پی کے حملوں میں اب شدت آرہی ہے اور وہ بڑے شہروں کی طرف بڑھنے کی حکمت عملی اپنا رہے ہیں، اسلام آباد حملہ ایک بڑے خطرے کی نشاندہی کرتا ہے، اس پالیسی پر نہ سابقہ حکومت کا کنٹرول تھا نہ موجودہ حکومت کا ہے اور نہ ہی حکومتیں اس کا کنٹرول لینا چاہتی ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کے لئے اس مسئلے سے نکلنا ایک بہت بڑا چیلنج ہوسکتا ہے جس طر ح پاکستان اور عالمی سطح پر افغان طالبان کے ڈیڈ لاک پر جو توقعات کی جارہی تھیں پاکستان کے لئے معاملہ اس کے برعکس ہے تو اب ٹی ٹی پی سے نمٹنے کے پاکستان کو بڑے چیلنج کا سامنا کرنا ہوگا کیونکہ اس ڈیڈ لاک کے دوران پاکستان کی بہت ساری پالیسیاں غلط تھیں۔ طالبان کو گارنٹر کے بجائے ایک فریق کے طور پر بیٹھنا چاہیے تھا۔

عامر رانا کا مزید کہنا تھا کہ ٹی ٹی پی کے مسئلے کو پارلیمنٹ میں لایا جائے اس پر مشاورت ہونی چاہیے اس کے بعد فیصلہ کرنا چاہیے کہ ہمیں کس بلاک میں جانا ہے اور اس سارے معاملے پر کس طرح کی پالیسی بنانی چاہیے، ریاستی سطح پر طالبان سے بات کرنی چاہیے اس سے بہتری کی صورتحال نکل سکتی ہے۔

سینئر صحافی احسان ٹیپو محسود کا کہنا تھا کہ ہمیں اس چیز کا ادراک نہیں ہے کہ یہ نئے جہادی ہیں ان کا ٹیکنالوجی پر کنٹرول ہے یہ روایتی جہادی نہیں ہیں ان میں سوشل میڈیا کا استعمال بہت زیادہ ہے اور اب یہ سوشل میڈیا کے ذریعے آگے بڑھ رہے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ٹی ٹی پی اپنے حملوں کا دائرہ ملک میں وسیع کررہے ہیں جس میں پولیس اور سکیورٹی فورسز کو نشانہ بنایا جاسکتا ہے، پورے ملک سے لوگ ان کے ساتھ شامل ہورہے ہیں، تمام دہشتگرد گروپس ان کے ساتھ مل رہے ہیں اور مقصد پاکستان کی ریاست کو کمزور کرنا ہے۔

احسان ٹیپو محسود نے مزید کہا کہ اس معاملے پر ہمیشہ خیبر پختونخواہ حکومت کا وفاقی حکومت اور اسٹیبلمنشٹ سے گلا رہا ہے ، وہ کہتے ہیں کہ اس معاملے نہ وہ ڈیل کرتے ہیں نہ ہی یہ ان کی اور پولیس کی صلاحیت ہے، ان کی توقعات نئے آرمی چیف سے ہیں۔

 

یہ بھی پڑھیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button

For copy this text contact us :thalochinews@gmail.com