لیہ صوبہ پنجاب کے مغربی اضلاع میں واقع ہے۔ اس کا کا حدود اربع یوں ہے کہ اس کے مغرب میں دریائے سندھ کے پار ضلع ڈیرہ غازی خان، مشرق میں ضلع جھنگ ، شمال میں ضلع بکھر اور جنوب میں ضلع مظفر گڑھ واقع ہے۔ شمال مغربی سرحدی صوبہ کے قیام نومبر 1901ء تک یہ ضلع ڈیرہ اسماعیل خان کی تحصیل تھا۔ 1901ء میں میانوالی کی تحصیل بنا 1909ء سے جولائی 1982 ء تک یہ ضلع مظفر گڑھ کی تحصیل بنادیا گیا۔ لیہ کے لوگوں کی جدوجہد کے بعد جولائی 1982ء میں اسے ضلع کا درجہ دیا گیا اور اسے ملتان سے ڈیرہ غازی خان ڈویژن میں شامل کر دیا گیا۔ ضلع کے قیام کے بعد یہ تین تحصیلوں پر مشتمل چھوٹا سا ضلع ہے۔ تحصیل لیہ جو تھانہ کوٹ سلطان، سا تھانہ پیر جنگی ، چوک اعظم تھانہ صدر لیہ اور تھانہ سٹی لیہ پر مشتمل ہے۔ تحصیل کروڑ تھانہ کروڑ لعل عیسن اور فتح پور میں مشتمل ہے جبکہ تحصیل چوبارہ ایک تھانہ چوبارہ پر مشتمل ایک تحصیل ہے۔
تقسیم ہند سے قبل تحریک آزادی میں اس علاقہ میں لوگوں کی اکثریت قیام پاکستان کی داعی مسلم لیگ کے ساتھ تھی۔ 1946ء کے انتخابات میں چونکہ نشستیں علاقوں کی نہیں بلکہ مذاہب (ہندومسلم ) کی نمائندگی کرتی تھی ، اس لیے اس علاقے سے افراد کی نمائندگی کی بجائے سیاسی جماعتوں میں نمائندگی تھی ۔ قیام پاکستان کے بعد سے پہلی اسمبلی 15 اگست 1947ء میں قائم ہوئی۔ دوسری اسمبلی مئی 1951ء سے 1954 ء تک کام کرتی رہی۔
ملک غلام محمد نے اسمبلی توڑ دی تو انتخابات کے بعد 1955ء میں اسمبلی نے کام کرنا شروع کیا۔
ایوب خان کے آئین 1962ء کے بعد قائم ہونے والی قومی اسمبلی میں حلقہ NW59 میں غلام مصطفی کھر کو حق نمائندگی ملا۔ یہ حلقہ موجودہ ضلع لیہ تحصیل کوٹ ادو اور تحصیل مظفر گڑھ پر مشتمل تھا۔ 1955ء میں پاکستان کے صوبوں کو ختم کر کے اسے وحدت مغربی پاکستان کا نام دے دیا گیا۔ وحدت مغربی پاکستان (موجودہ پاکستان اسمبلی میں ایک اہم نام سید نذر حسین بخاری کا تھا جو کہ لیہ شہر کے سید بخاری خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔ انتہائی نڈر بے باک اور جرات مند سیاستدان تھے کیونکہ اس وقت سیاست آلودہ نہیں ہوتی تھی۔ اس لیے سیاستدانوں کے کردار میں جرات انڈر اور بے باقی موجود ہوتی تھی۔
ایوب عہد میں 1962 کے آئین میں چونکہ وحدت مغربی پاکستان موجود تھی۔ وحدت مغربی پاکستان اسمبلی میں لیہ کی نمائندگی ملک قادر بخش لیہ کے حصہ میں آئی۔ ملک صاحب پیشہ کے لحاظ سے ایک وکیل اور بہترین ممبر اسمبلی تھے۔ ملک صاحب مغربی پاکستان کے وزیر آبپاشی مقرر ہوئے یہ سرزمین لیہ کے پہلے وزیر بنے کا اعزاز رکھتے ہیں۔ 1967ء 1968ء اور اوائل 1989ء تک ایوب خان کے خلاف چلنے والی تاریخ میں یہ بھی کسی سے پیچھے نہ تھا۔ یہاں کے گلی کوچوں میں یہ تحریک پہنچ گئی۔ یوں 25 مارچ 1969 ء کو ایوب خان نے استعفیٰ دے دیا اور اقتدار جنرل یحیی خان کو منتقل ہو گیا۔ یہ دوسرا مارشل لاء تھا۔ 1970ء میں جنرل یحیی نے ملک میں پہلے عام انتخابات کروائے ۔ باقاعدہ الیکشن کمیشن بنا۔ انتخابی فہرستیں بنائی گئی اور پورے ملک میں مارچ 1970ء میں انتخابات کا انعقاد ہوا۔ ان انتخابات میں مغربی پاکستان میں PPP نے کامیابی حاصل کی۔ ان انتخابات میں لیہ کی قومی اسمبلی کی ایک سیٹ جبکہ صوبائی اسمبلی کی دوسیٹیں تھیں۔ لیہ کا حلقہ NW59 میں PPP کے مہر منظور حسین سمراء نے محمد عبد اللہ عرف پیر بار و صاحب کو شکست دی۔ اور ممبر قومی اسمبلی منتخب ہوئے۔ صوبائی اسمبلی کی نشست لیہ میں سید مہتاب احمد شاہ JUP کے ٹکٹ پر کامیاب ہوئے اور پی پی پی میں شامل ہو گئے۔ صوبائی اسمبلی کروڑ اور فتح پور سیٹ پر PDP کے پیر محمد شاہ آف چھتر شریف منتخب ہوئے وہ بھی بعد میں پی پی میں شامل ہو گئے۔ 1973ء میں ایک متفقہ آئین منظور ہوا۔ اس کے تحت 1977ء میں مارچ میں الیکشن ہوئے ، ان میں لیہ کی قومی اسمبلی کی دو نشستیں اور صوبائی اسمبلی کی تین نشستیں قائم ہوئیں ۔ NA130 لیہ سے ملک قادر بخش جکھرہ جبکہ NA131 سے سردار محمد بہرام خان سیر ممبر قومی اسمبلی منتخب ہوئے۔ صوبائی اسمبلی کے حلقہ PP198 سے مہر محمد سلیمان تھند ، 199 PP سے ڈاکٹر شیخ منظور حسین اور PP200 سے محمد رفیع گوجر جیت کر آئے۔ قومی اسمبلی کے الیکشن میں دھاندلی کا الزام لگا کر اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد PNA نے صوبائی انتخابات کا بائیکاٹ کر دیا تھا۔ اپریل 1977 ء سے PNA نے اس دھاندلی کے خلاف احتجاجی تحریک چلا دی۔ اس کا فائدہ اٹھا کر جنرل ضیاء الحق نے ملک میں مارشل لاء لگا دیا۔ اسمبلیاں برخاست کر دیں اور حکومت توڑ دی۔ جنرل ضیاء کے مارشل لاء کو طول دینے کی خواہشات کو دیکھتے ہوئے اپوزیشن جماعتوں نے ایک اتحاد قائم کیا جس کا نام MRD (Movement for Restoration of Democracy) رکھا گیا۔ اس تحریک نے مارشل لاء حکومت کو پریشان کر کے رکھ دیا۔ لیہ میں بھی اس تحریک کے دوران کافی گرفتاریاں ہوئیں۔ اور سیاسی ورکروں میں جوش و جذبہ دیکھا گیا۔ جنرل ضیاء نے فروری 1985ء میں غیر جماعتی بنیادوں پر ملک میں انتخابات کروا دیے۔ ان انتخابات کے بعد 1973ء کے آئین میں آٹھویں ترمیم کر کے پورے آئین کا حلیہ بھی بگاڑ کے رکھ دیا۔ 58 28 کے تحت صدر کو اسمبلیاں توڑنے کا حق دے دیا اور یوں وزیر اعظم اور منتخب اسمبلیاں صدر پاکستان کے رحم و کرم پر چلی گئیں۔ فروری 1985ء کے انتخابات میں سردار محمد جہانگیر سیبر اور سردار غلام فرید میرانی ممبر قومی اسمبلی، جبکہ اصغر علی گجر، غلام حیدر تھند اور محمد افضل گوجر ممبر صوبائی اسمبلی الیکٹ ہوئے۔ صدر پاکستان نے وزیر اعظم محمد خان جونیجو سے اختلافات کے بعد 29 مئی 1988ء کو اسمبلیاں توڑ کر نئے انتخابات کا اعلان کیا۔ 17 اگست 1988ء کو جنرل ضیاء فضائی حادثے میں ہلاک ہوئے تو سپریم کورٹ آف پاکستان نے صدر کے اس اقدام کو بد نیتی پر مبنی قرار دیا لیکن انتخابات کا انعقاد ہونے دیا۔ اکتوبر 1988ء میں ملک میں عام انتخابات ہوئے۔ 945 Bawwmto 1988ء کے انتخابات میں لیہ سے صاحبزادہ فیض الحسن PML اور ملک نیاز احمد جکھر، PPP ممبران قومی اسمبلی جبکہ اصغر علی گوجر جماعت اسلامی، غلام حیدر تھند آزاد اور ملک احمد علی اولکھ آزاد ممبر صوبائی اسمبلی منتخب ہوئے۔ غلام حیدر تھند اور ملک احمد علی نے مسلم لیگ کو جوائن کیا۔ وفاقی حکومت اور پنجاب حکومت میں شدید کشیدگی جاری رہی ۔ جنرل ضیاء کے انتقال کے بعد غلام اسحاق خان صدر پاکستان بن چکے تھے ۔ غلام اسحاق خان کی وفاقی حکومت سے اختلافات کے بعد قومی اسمبلی اور صوبائی حکومتوں کی برخوانگی اگست 1990ء میں ہوئی۔ 1990ء کے انتخابات میں اسلامی جمہوری اتحاد ال ا نے پورے ملک کی طرح لیہ میں بھی کافی کامیابی حاصل کی۔ اور تمام سیٹیں جیت لیں ۔ قومی اسمبلی میں صاحبزادہ فیض الحسن ، صاحبزادہ خورشید احمد بخاری نے کامیابی سمیٹی جبکہ اصغر علی گوجر، غلام حیدر تھند اور احمد علی اولکھ نے الا کے ٹکٹ پر کامیابی حاصل کی۔ اپریل 1993ء میں غلام اسحاق خان اور وزیر اعظم نواز شریف میں اختلافات بڑھ گئے ۔ صدر نے 1993ء میں اسمبلیاں تحلیل کر دیں۔ مئی 1993ء میں سپریم کورٹ آف پاکستان نے قومی اسمبلی کو بحال کر دیا، لیکن صدر اور وزیر اعظم کے اختلافات بڑھتے چلے گئے اور پھر جولائی 1993ء میں صدر اور وزیر اعظم دونوں کو گھر بھیج دیا گیا اور اکتوبر 1993ء میں از سرنو انتخابات ہوئے ۔ جس میں PPP نے لیہ میں بہترین کارکردگی دکھائی۔ ایک صوبائی سیٹ کے علاوہ باقی تمام سیٹیں جیت لی گئیں ۔ قومی اسمبلی میں دونوں ممبران سردار محمد جہانگیر خان اور ملک نیاز احمد جکھر، PPP کے ٹکٹ ہولڈر تھے جبکہ اصغر علی گوجر جماعت اسلامی جبکہ مہر فضل حسین سمرا اور ملک اللہ بخش سامٹیہ PPP دونوں ممبران صوبائی اسمبلی منتخب ہو گئے ۔ 1994ء میں اپوزیشن نے PPP حکومت کے خلاف یوم نجات منانے کا اعلان کیا۔ اور تحریک شروع کر دی جو کہ کامیاب تو نہ ہوسکی لیکن حکومت کو کمزور کرنے کا باعث بنی۔ ایک بار پھر نومبر 1996ء کو قومی اسمبلی پر 58/28 کا کلہاڑا چلا دیا گیا۔ میاں نواز شریف کی قیادت میں مسلم لیگ کے لیے اس الیکشن کو جیتنے کا سنہری موقع تھا۔ کیونکہ اوپر سے حالات ان کے لیے سازگار تھے۔ فروری 1997 میں ملک میں انتخابات کا انعقاد ہوا تو اس میں پاکستان مسلم لیگ نواز دو تہائی اکثریت سے کامیاب ہوئی ۔ ضلع لیہ سے تمام سیٹیں PMLN نے جیت لیں۔ صاحبزادہ فیض الحسن حسن سواگ اور ملک غلام حیدر تھند ممبر قومی اسمبلی بنے جب کہ مہر اللہ ڈیوا یا تصمد ، ملک غلام محمد سواگ اور ملک احمد علی اولکھ ممبران صوبائی اسمبلی منتخب ہو گئے۔
مارچ 1999ء میں ملک غلام محمد سواگ کے قتل کے بعد ان کے کزن سابق ایم پی اے ملک عبد الشکور منتخب ہوئے۔ ان انتخابات میں اگر چہ ضلع لیہ کے لیے نمبر ان کی تعداد تو وہی رہی جبکہ حلقوں کے نام بدل گئے۔ قومی اسمبلی کے حلقے 130 اور 131 کی بجائے 180 اور 181 بن گئے۔ جبکہ صوبائی حلقے 217,216,215 کہلائے ) ۔ 12 اکتوبر 1999ء کو یہ اسمبلی غیر طبعی موت کا شکار ہوئی۔ جنرل پرویز مشرف نے آئین معطل کر کے فوجی راج لگا دیا اور 1985ء سے شروع ہونے والا سیاست کا یہ دور اختتام پذیر ہو پذیر ہوا۔ صدر پاکستان کو آئین شکنی کا اختیار 58/2B کے تحت دیا گیا تھا۔ اس کا شکار چار اسمبلیاں ہوئیں۔ ان میں 1988ء 1996 1993,1990 اور 1999ء میں اس شق کا استعمال ہوا اور عوامی رائے کا گلا گھونٹ دیا گیا۔مشرف عہد کا آغاز ایک ریفرنڈم سے ہوا تھا، انھوں نے اختیار مملکت سمیٹ لیے ۔ دوسرا اقدام مشرف دور کا بلدیاتی نظام تھا۔ جو بہت خوبیوں کا حامل نظام تھا۔ اس نے انگریزی عہد کے قائم شدہ بیورو کریسی کا نظام بالکل الٹ کر رکھ دیا ضلعی سطح پر اسے گورنر کی حیثیت دے دی گئی۔ 2001ء اگست میں سردار شہاب الدین خان سیرہ ضلع ناظم منتخب ہوئے اور اپنی میعاد کے خاتمہ پر اگست 2005ء میں دوبارہ بلدیاتی انتخابات ہوئے۔ ان میں ملک غلام حیدر تھند دوسرے اور آخری ضلع ناظم بنے۔عہد مشرف 2002ء میں ملک میں عام انتخابات کروائے گئے۔ اس سے قبل ایک سرکاری سیاسی پارٹی پاکستان مسلم لیگ قائد اعظم بھی قائم کی گئی۔ ان انتخابات میں پی ایم ایل کیونے قومی اسمبلی کی ایک نشست سردار بہادر خان اور دوسری نشست ملک نیاز احمد جکھڑ نے PPP کے ٹکٹ پر حاصل کی۔ اس کے بعد وہ مشرف بہ سیاست ہو کر ایک باغی گروپ کے ساتھ پی ایم ایل کیو کی حمایت میں چلے گئے۔ یہاں صوبائی اسمبلی کی پانچ نشستیں تھیں ۔ یہاں صوبائی اسمبلی کی پانچ نشستیں تھیں۔ ان میں چودھری الطاف حسین ، ملک اللہ بخش سامٹیہ PMLQ جبکہ اصغر علی گوجر دو حلقوں چوبارہ اور لیہ سے منتخب ہوئے جبکہ کوٹ سلطان سے مسلم لیگ نواز کی ٹکٹ پر مہر اعجاز احمد اچلانہ نمبر صوبائی اسمبلی بن گئے ۔ اصغر علی سجر کے لیہ شہر کی سیٹ چھوڑنے کے بعد ضمنی انتخابات میں مہر فضل حسین سمرا پی ایم ایل کیو کی ٹکٹ پر منتخب ہو گئے۔ اس اسمبلی نے اپنی معیاد یعنی پانچ سال مکمل کرنے والی پہلی اسمبلی تھی۔2007ء میں انتخابات ہوئے تھے لیکن بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد یہ 2008ء کے فروری کے مہینے ہی منعقد ہوئے۔ ان انتخابات میں مرکز میں PPP نے حکومت تو بنائی مگر اسے لیہ میں قومی اسمبلی کی دونوں سیٹیں نہ ملیں ۔ سردار بہادر خان PMLQ جبکہ تقلین بخاری PMLN کی ٹکٹ پر منتخب ہوئے ۔ PPP کو صوبائی اسمبلی کی دوسیٹیں افتخار علی بابر خان کھیتران اور صفدر عباس بھٹی کی صورت میں مل گئیں ۔ ملک احمد علی اولکھ، قیصر عباس مگسی اور مہر اعجاز اچلانہ PMLN کے ٹکٹ پر الیکشن الیکٹ ہوئے۔ ملک احمد علی اولکھ صوبائی وزیر بن گئے۔ ان کے پاس چھ محکمے زراعت، جنگلات، آبپاشی امداد باہمی وغیرہ تھے۔ اسی دور میں سردار بہادر خان خان سیہڑ اس وقت وفاقی وزیر بن گئے۔ جب PMLQ وفاقی حکومت کا حصہ بنی۔ ان کے حصہ میں دفاعی پیداوار کی وزارت آئی۔ مئی 2013ء میں عام انتخابات میں دونوں ممبران قومی اسمبلی PMLN نے جیت لیے ان میں سے زیادہ محمد ثقلین بخاری جبکہ کہ بڑا اپ سیٹ یہ آیا کہ ملک احمد علی اولکھ یہ انتخابات ہار گئے۔ عبدالمجید خان نیازی پی ٹی آئی، سردار شہاب الدین پی پی پی، قیصر گسی، اعجاز اچلانہ پی ایم ایل ( نواز ) اور چودھری اشفاق احمد آزاد ایم پی اےبنے ۔ میاں نواز شریف وزیر اعظم جبکہ کہ ان کے برادر خورد میاں شہباز شریف وزیر اعلی پنجاب بنے ۔ وفاقی حکومت کے NAB کے زیر عتاب آنے کی وجہ سے وزیر اعظم کو تبدیل کر کے شاہد خاقان عباسی وزیر اعظم بن گئے۔ 25 جولائی 2018ء کے انتخابات کے نتیجے میں پی ٹی آئی کی حکومت قائم ہوئی۔ لیہ میں قومی اسمبلی کی دونوں سیٹیں PTI عبدالمجید خان نیازی اور ملک نیاز احمد جکھڑ کے حصے میں آئیں ۔ شہاب الدین پی ٹی آئی محمد طاہر رندھاوا ( آزاد ) ، ملک احمد علی اولکھ آزاد، اعجاز احمد اچلانہ PMLN جبکہ رفاقت علی گیلانی آزاد حیثیت میں کامیاب ہوئے ۔ یہ ہے وہ سیاسی تاریخ جو اس ضلع لیہ میں 1947 ء سے موجودہ عہد تک وقوع پذیر ہوئی۔ اس ضلع میں سب سے زیادہ اقتدار اصغر علی گجر پانچ با ر اعجاز احمد اچلانہ چار بار جبکہ احمدعلی اولکھ پانچ بار، غلام حید ر تھمند چار باره ملک نیاز احمد جکھر، چار، جبکہ صاحبزادہ فیض الحسن چار بار کے حصہ میں آیا۔ ارد گرد کے اضلاع پر نظر دوڑائی جائے تولیہ کے منتخب ممبران ترقی کے لحاظ سے کافی آگے نظر آتے ہیں۔ اس ضلع میں 18 کالج ، جنرل ایجوکیشن دو ادارے ٹیکنیکل ایجو کیشن اور تقریبا پانچ ادارے نیشنل تعلیم کے اور سیکڑوں سکول قائم ہوئے ۔ پچھلے تین سال سے ترقی کی شرح رک گئی ہے۔ اب سڑکوں کی حالت خراب ہو گئی ہے اور نئے ترقیاتی منصو بے نظر نہیں آرہے۔ ضلع لیہ میں میونسپل کمیٹی لیہ، چوک اعظم ، فتح پور، کروڑ لعل عیسن میں قائم ہے۔ ضلع کونسل جولائی 1982ء میں قائم ہوئی۔ پہلے چیئر مین غلام فرید خان میرانی تھے۔ اس کے بعد چودھری حنیف ، صاحبزادہ فیض الحسن اور 1998ء میں ان کے بھائی نورالحسن کو منتخب کیا گیا۔ PMLN کے عہد میں 2015ء میں بلدیاتی انتخابات ہوئے تو ضلع کونسل کی چیئر مین ملک احمد علی اولکھ کے بھائی ملک عمر علی اولکھ کے حصہ میں آئی ۔ یہ تونسہ پل بنے کا کریڈٹ مسلم لیگ لیتی ہے۔ اس پل کے قیام سے لیہ کا دوسرے صوبوں اور علاقوں میں مواصلات کا نظام بہتر ہو جائے گا۔ اس ضلع سے وزیر بننے کا اعزاز ملک قادر بخش جکھڑ، ملک احمد علی اولکھ، سردار بہادر خان سیہڑ اور مہر اعجاز اچلانہ کو حاصل ہوا۔ جبکہ غلام حیدر تھند ، صاحبزادہ فیض الحسن، غلام محمد سواگ میر فضل حسین اور سید رفاقت علی گیلانی کو وزیر اعلی کا خصوصی معاون بنے کا موقع ملا ہے۔ جنرل ضیاء نے 1980ء میں ایک مجلس شوری قائم کی، جو کہ قومی اسمبلی کے طور پر کام کرتی رہی۔ لیہ سے اس کے دو ممبران منظور احمد خان لاشاری اور میاں بشیر احمد مبرمجلس شورٹی مقرر ہوئے ۔ دونوں کا تعلق جماعت اسلامی سے تھا ۔ ملک محمد شفیع آرائیں، سید اختر حسین شاہ ، لیاقت علی خان کھتر ان اور سیٹ محمد اسلم لیہ کے چیئر مین بلد یہ رہے۔
نوٹ : یہ مضمون گورنمنٹ پوسٹ گریجویٹ کالج لیہ کے "تھل” میگزین سےلیا گیا ہے