انڈیا نیشنل کانگریس کے قیام کے اکیس سال بعد ۱۹۰۶ء میں نواب محسن الملک ، نواب وقار الملک ،سر آغا خان اور دیگر بڑی بڑی شخصیتوں نے ۳۰ دسمبر ۱۹۰۶ء میں ڈھاکہ میں نواب سلیم اللہ خان کی کوٹھی میں مسلم لیگ کی بنیاد رکھی۔ سر آغا خان پہلے صدر اور نواب محسن الملک اور نواب وقار الملک سیکرٹری مقرر ہوئے ۔ پہلی جنگ عظیم کے بعد ۱۹۲۳ء میں پنجاب کے زمینداروں نے سر سکندر حیات سر فضل حسین اور چھوٹو رام کی قیادت میں یونینسٹ پارٹی کی بنیاد رکھی ۔ برصغیر میں پہلا بلدیاتی انتخابات ۱۸۹۱ء میں مدراس میں جسے اب چنائے کہا جاتا ہے منعقد ہوا۔ بعد ازاں یہ سلسلہ پورے ملک میں اختیار کیا گیا۔
گورنر پنجاب کی کونسل (۱۹۲۰ – ۱۸۹۷ء) Council of the Lieutenant Governor of
the Punjab ٣۔پنجاب لیجسلیٹو کونسل کے قیام سے پہلے گورنر پنجاب کی چار کونسلیں مختلف ادوار میں نامزد ہوئیں:
پہلی کونسل یکم نومبر ۱۸۹۷ء تا ۳ جولائی ۱۹۰۹ء
دوسری کونسل جنوری ۱۹۱۰ ء تا ۱۴ دسمبر ۱۹۱۲ء
تیسری کونسل م جنوری ۱۹۱۳ تا ۱۹ اپریل ۱۹۱۹ء
۔ چوتھی کو نسل ۱۲ جون ۱۹۱۶ تا ۱۶اپریل ۱۹۲۰ء پہلی پنجاب لیجسلیٹو کونسل ۸ جنوری ۱۹۲۱ء کو قائم ہوئی۔ اس کونسل میں ملتان سے میاں احمد یار دولتانہ اور سید محمد رضا شاہ گیلانی اور ضلع مظفر گڑھ سے خان محمد عبد اللہ خان ممبر پنجاب لیجسلیٹو کونسل نامزد ہوئے ۔ اور یہ کونسل ۱۲۷ کتوبر ۱۹۲۳ ء کام کرتی رہی۔دوسری پنجاب لیجسلیٹو کونسل ۲ جنوری ۱۹۲۴ء میں وجود میں آئی ۔ جس میں ملتان سے خان ہیبت خان ڈا با اور سیدمحمد علی رضا شاہ گیلانی اور ضلع مظفر گڑھ سے خان محمدعبداللہ خان ممبر پنجاب لیجسلیٹو کونسل منتخب ہوئے۔ یہ کونسل ۱۲۷ کتو بر ۱۹۲۶ ء تک کام کرتی رہی۔ تیسری پنجاب میجسلیٹو کونسل ۳ جنوری ۱۹۲۷ء کو قائم ہوئی۔ ملتان سے احمد یار خان دولتانہ اور مخدوم زاده سید محمد علی رضا شاہ گیلانی ممبران بنے اور ضلع مظفر گڑھ سیخان محمد عبداللہ خان منتخب ہوئے ۔ اس کونسل کا دور اینه ۲۶ جولائی ۱۹۳۰ ء تک رہا۔ ۱۹۳۷ء میں پنجاب پیجسلیٹو کونسل ختم ہوئی اور پنجاب پیجسلیٹو اسمبلی کا قیام عمل میں آیا۔پہلی پنجاب لیجسلیٹو اسمبلی ۱۵ اپریل ۱۹۳۷ء میں عمل میں آئی اور سر سکندر حیات خان وزیر اعظم منتخب ہوئے۔ ۲۶ دسمبر ۱۹۴۲ء میں سر سکندر حیات خان وفات پا گئے تو نوابزادہ میجر ملک سر خضر حیات خان ٹوانہ وزیر اعظم بنے۔ اس امیلی میں مظفر گڑھ سے تعلق رکھنے والے میاں مشتاق احمد خان گورمانی پارلیمانی سیکرٹری ہے۔ میجر عاشق حسین اور خواجہ غلام حسن ملتان سے اور میاں فضل کریم بخش مظفر گڑھ سے ممبر پنجاب لیجسلیٹو اسمبلی منتخب ہوئے۔ یہ اسمبلی ۱۹ مارچ ۱۹۴۵ ء تک قائم رہی۔
دوسری پنجاب لیجسلیٹو اسمبلی ۲۱ مارچ ۱۹۴۶ء کے الیکشن کے نتیجے میں وجود میں آئی اور نواب زادہ میجر
ملک سر خضر حیات خان ٹوانہ وزیر اعظم منتخب ہوئے جن کا تعلق یونینسٹ پارٹی سے تھا۔ ملتان سے نواب میجر عاشق حسین، شیخ محمد امین خان اور مظفر گڑھ سے سردار خان عبدالحمید خان اور میاں محمد غلام جیلانی گورمانی ممبران پنجاب یجسلیٹو اسمبلی ہوئے۔ یہ اسمبلی ۴ جولائی ۱۹۴۷ ء تک کام کرتی رہی۔ ۱۹۲۵ – ۱۹۴۶ء کے صوبائی الیکشن کے نتیجے میں پوٹینسٹ پارٹی نے پنجاب میں اپنی حکومت بنائی اور نوابزادہ میجر ملک سر خضر حیات ٹوانہ وزیر اعظم بنے مگر انھوں نے قیام پاکستان سے ایک ماہ قبل ۴ جولائی ۱۹۴۷ء کو اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا کیوں کہ وہ اکثریت کھو چکے تھے۔ قیام پاکستان کے بعد ۱۵ اگست ۱۹۴۷ء سے پنجاب لیجسلیٹو اسمبلی کا نیا دور شروع ہوا۔ نواب افتخار حسین خان ممدوٹ وزیر اعظم منتخب ہوئے۔ ملتان سے نواب میجر عاشق حسین اور شیخ محمد امین خان جبکہ ضلع مظفر گڑھ سے سردار خان عبد الحمید خان دستی اور میاں محمد غلام جیلانی گورمانی ممبران بنے ۔ سردار عبدالحمید خان دستی کو وزیر محنت و زراعت کا قلم دان سونپا گیا۔ اس اسمبلی کی معیاد ۲۵ جنوری ۱۹۴۹ء کو ختم ہوئی اور مارچ ۱۹۵۱ء میں پنجاب اسمبلی کی ۱۹۷ نشستوں کے لیے پولنگ ہوئی۔ نومنتخب پنجاب لیجسلیٹو اسمبلی نے مئی ۱۹۵۱ ء وجود میں آئی۔ میاں ممتاز محمد خان دولتانہ (۱۵ پریل ۱۹۵۱ء تا ۱۳اپریل ۱۹۵۳ء) ، ملک فیروز خان نون (۱۳) پریل ۱۹۵۳ء ۲۱ مئی ۱۹۵۵ء) اور سردار عبدالحمید خان دستی (۲۱ مئی ۱۹۵۵ تا ۱۴ اکتوبر ۱۹۵۵ء) یکے بعد دیگرے وزرائے اعلیٰ منتخب ہوئے۔ اس اسمبلی کے اپوزیشن لیڈر نواب افتخار حسین خان ممڈوٹ تھے ۔ مخدوم زادہ الحاج پیر سید علمدار حسین شاہ گیلانی بطور وزیر صحت ، بلدیات و تعمیرات ، سید علی حسین شاہ گریزدی بطور وزیر صنعت اور نواب زادہ سردار محمد خان لغاری بطور وزیر محنت وزراعت کا بینہ کا حصہ بنے۔ اور ملک قادر بخش جکھڑ، چیف پارلیمانی سیکرٹری نامزد ہوئے ۔ ضلع مظفر گڑھ سے حافظ کریم بخش ، میاں محمد غلام جیلانی گورمانی سردار نصر اللہ خان جتوئی ، نوابزادہ نصر اللہ خان ، حاجی سردار نواب خان کو پانگ اور سید نذرحسین شاہ بخاری (لیہ ) ممبران پنجاب کو سلیمایی اسمبلی منتخب ہوئے۔ ۱۴ اکتوبر ۱۹۵۵ء کو دن یونٹ کا قیام عمل میں آیا۔ نتیجتا سندھ، پنجاب اور سرحد کی اسمبلیاں صوبائی اسمبلی
مغربی پاکستان میں ضم ہو گئیں اور سوات کے ڈاکٹر خان وزیر اعلیٰ صوبائی اسمبلی مغربی پاکستان بن گئے۔ ۱۹ مئی ۱۹۵۶ء میں پہلی صوبائی اسمبلی مغربی پاکستان کا قیام عمل میں آیا۔ خان عبدالجبار خان عرف ڈاکٹر خان (۱۴ اکتوبر ۱۹۵۵ء تا ۱۶ جولائی ۱۹۵۷ ء) سردار عبدالرشید خان (۱۶ جولائی ۱۹۵۷ ء تا ۱۸ مارچ ۱۹۵۸ء) اور نواب مظفر علی خان قزلباش ( ۱۸ مارچ ۱۹۵۸ء تا ۷ مارچ ۱۹۵۸ء) یکے بعد دیگرے وزیر اعلیٰ منتخب ہوئے۔ ضلع مظفر گڑھ سے تعلق رکھنے والے سردار عبدالحمید خان دستی بطور وزیر تعلیم صوبائی اسمبلی مغربی پاکستان کی کابینہ کا حصہ تھے ۔ ضلع مظفر گڑھ سے حافظ کریم بخش، میاں محمد غلام جیلانی گورمانی، سردار نصر اللہ خان جتوئی ، سید نذرحسین شاہ بخاری (لیہ ) ممبر صوبائی اسمبلی مغربی پاکستان منتخب ہوئے ۔ یہ اسمبلی ۷ اکتوبر ۱۹۵۸ء تک قائم رہی ۔ ڈاکٹر خان خان عبد الغفار خان عرف باچا خان کے بڑے بھائی تھے۔ ۱۹۵۸ء کے مارشل لاء کے بعد وزیر اعلیٰ کا عہدہ ختم کر دیا گیا اور اس کی جگہ لیڈر آف دی ہاؤس کے الفاظ استعمال ہوئے ۔ وزیر اعلیٰ مغربی پاکستان کے اختیارات صدر نے اپنے پاس رکھ لیے۔
۷ اکتوبر ۱۹۵۸ء کو صدر پاکستان میجر جنرل سکندر مرزا نے صدارتی حکم کے تحت کمانڈر انچیف کو مارشل لاء لگانے کا حکم دیا۔ نتیجتا جنرل محمد ایوب خان چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر بن گئے ۔ بعد ازاں ۲۷ اکتوبر ۱۹۵۸ء کو سکندر مرزا سے استعفیٰ لے کر انھیں ملک بدر کر دیا گیا اور ایوب خان صدر پاکستان بھی بن گئے۔
دسمبر ۱۹۵۹ء میں بلدیاتی انتخابات کرائے گئے ۔ اور ان بلدیاتی ممبران کو الیکٹورل کالج کا درجہ دیا گیا اور ۱۹۶۲ء میں انھیں بلدیاتی ممبران نے قومی اسمبلیوں کے ارکان کا انتخاب کیا۔ اس طرح ۱۹۶۲ء میں قومی اور صوبائی اسمبلیاں وجود میں آئیں۔ اور ۱۹۶۲ء کے آئین کی منظوری دی گئی۔
۹ جون ۱۹۶۲ء کو دوسری صوبائی اسمبلی مغربی پاکستان وجود میں آئی ۔ شیخ مسعود صادق لیڈر آف دی ہاؤس منتخب ہوئے ۔ ملک قا در بخش جکھرہ (یہ مظفر گڑھ) کو وزرات خوراک، زراعت ، آبپاشی ، توانائی کا قلم دان سونپا گیا۔ ان کے علاوہ محمد ابراہم برق ضلع مظفر گڑھ سے ممبر صوبائی اسمبلی منتخب ہوئے۔ یہ اسمبلی ۸ جون ۱۹۶۵ء تک قائم رہی۔
۱۹۶۴ء میں نئے بلدیاتی انتخابات کرائے گئے اور ان بلدیاتی ممبران کے ووٹوں سے ۱۹۶۵ء میں صدارتی انتخابات کروائے گئے جس میں ایوب خان اور فاطمہ جناح نے الیکشن میں حصہ لیا اور ایوب خان الیکشن جیتنے میں کامیاب ہو گئے۔ تمام حکومتی جبر اور ہتھکنڈوں کے باوجود لیہ اور کراچی دو ایسے شہر ہیں جہاں فاطمہ جناح کامیاب رہیں ۔ ملک قادر بخش جکھر، ایوب خان کے وزیر بھی تھے اور حامی بھی جبکہ سید نذرحسین شاہ فاطمہ جناح کے حامی تھے۔۹ جون ۱۹۶۵ء میں بلدیاتی ممبران کے ووٹوں سے نئی پنجاب اسمبلی وجود میں آئی ۔ خان حبیب اللہ خان (۹ جون ۱۹۶۵ ء تا ۲۵ ستمبر ۱۹۶۶ء) اور ملک خدا بخش بچه (۲۵ ستمبر ۱۹۶۶ ء تا ۲۵ مارچ ۱۹۶۹ء) یکے بعد دیگرے لیڈر آف دی ہاؤس منتخب ہوئے۔ ضلع مظفر گڑھ سے شیخ فضل حسین اور ملک قادر بخش جکھر، (لیہ ) ممبران منتخب ہوئے۔ اور یا اسمبلی ۲۵ مارچ ۱۹۶۹ ء تک قائم رہی۔ ملک قا در بخش جکھرہ نے اپنی سیاست کا آغاز یونینسٹ پارٹی سے کیا اور اسی پارٹی کے پلیٹ فارم سے وہ انتخابات میں حصہ لیتے رہے۔ ۱۹۴۵ء کے الیکشن میں وہ میاں غلام جیلانی کے مقابلے میں یونینسٹ پارٹی کی طرف سے امیدوار تھے اور الیکشن ہار گئے۔ پاکستان بن گیا تو یونینسٹ پارٹی کی سیاست بھی ختم ہوگئی۔ مگر قادر بخش جکھڑ نے وکالت اور بلدیاتی سیاست میں اپنی اہمیت برقرار رکھی۔ ملک قادر بخش جکھرہ کی شخصیت اور سیاست کے حوالے سے معروف وکیل مہر عبد القادر او پانچ ایڈووکیٹ نے راقم کو ایک انٹرویو میں اس بات کی تفصیل بتائی کہ لیہ کی معروف زمیندار فیملی کو پانچ ملک قادر بخش کے گروپ میں شامل تھی۔ جس میں مہر فقیر محمدلو پانچ مہر عبدالحق لو انچ اور مہر گل محمد کو پانچ ذیلدار بالخصوص قابل ذکر ہیں۔ علاوہ ازیں سمرا خاندان میں سے معروف زمیندار مہر فیض اللہ سمرا بھی ملک قادر بخش جکھرہ کے گروپ کے ایک سرکردہ نمبر تھے۔ لیہ کے معروف وکیل شیخ اللہ بخش (سابق ممبر بلد یہ لیہ ) بھی ملک قادر بخش جکھرہ کے گروپ سے تعلق رکھتے
ملک قادر بخش جکھڑ ۱۹۰۰ء میں بستی جکھر تحصیل لیہ میں پیدا ہوئے ۔ انھوں نے پرائمری تعلیم بستی جکھڑ،
مڈل لیہ ، میٹرک ملتان ، ایف ۔ اے۔ بہاول پور ، بی۔ اے۔ اسلامیہ کالج لاہور ، ایل ۔ ایل۔ بی ۔ پنجاب یو نیورسٹی لاء کالج لاہور سے کیا۔ ایل۔ ایل۔ بی کرنے کے بعد انھوں نے وکالت کا آغاز مظفر گڑھ سے کیا۔ وہ مظفر گڑھ بار کے لائف ٹائم صدر بھی رہے۔ قیام پاکستان سے پہلے وہ وائس چیئر مین ڈسٹرکٹ بورڈ مظفر گڑھ تھے۔ ۱۹۵۲ء میں پنجاب لیجیسلیٹو اسمبلی کے چیف پارلیمانی سیکرٹری نامزد ہوئے ۔ واضح رہے کہ اس وقت وہ اسمبلی کے منتخب ممبر نہ تھے۔ معروف کالم نگار محمد سعید اظہر نے ۴ ستمبر ۲۰۱۹ء کو روزنامہ جنگ میں ایک کالم لکھا جس کا عنوان تھا برس پہلے کا ایک منظر نامہ اور نیا پاکستان ملک قادر بخش جکھڑ کے حوالے سے ایک اقتباس ملاحظہ ہو: 1952ء کا سال، انگریزی معاصر ڈیلی "ڈان” کا شمارہ مورخہ 4 نومبر صوبہ پنجاب کے نظم و نسق سے متعلق اُس وقت کے پارلیمنٹری سیکرٹری ملک قادر بخش نے ایک رپورٹ مرتب کی جس کے بعض مندرجات آپ کی خدمت میں پیش کئے جارہے ہیں۔ ملک قادر بخش صاحب نے اپنی رپورٹ میں انکشاف کیا: ” متعدد اضلاع میں انتظامی حالت نا گفتہ یہ ہے ۔ معاملات میں بروقت کارروائی اگلے زمانے کی ایک داستان بن گئی ہے جس سے آج کے سرکاری ملازمین نا آشنا ہیں۔ ہر محکمے میں رشوت کا بازار گرم ہے ، اقربا نوازی،دوست پروری، بے پروائی اور نکما پن ایسے عیوب ہیں جن کا آئے دن مشاہدہ ہوتا رہتا ہے”۔” میں نے سرگودھا اور منٹگمری کے دفتر آباد کاری کا معائنہ کیا ان کی بے ترتیبی کا یہ حال تھا کہ وہ دفتر کی بجائے کہاڑیے کی دکان معلوم ہوتے تھے”۔
وہ ۱۹۶۲ء کے انتخابات میں صوبائی اسمبلی مغربی پاکستان کے مبر منتخب ہوئے اور خوراک ، زراعت اور آبپاشی، توانائی ، قانون ، جنگلات، ماہی گیری اور ٹی ڈی اے کے وزیر بنائے گئے۔ اس وقت طریق کار یہ تھا کہ جو شخص وزیر بنادہ اپنی سیٹ چھوڑ دیتا قادر بخش جکھر بھی جب وزیر بنے تو انھوں نے مغربی پاکستان اسمبلی کی اپنی سیٹ خالی کر دی اور وہاں اپنے ایک بھتیجے ملک محمد حسین جکھر، کو مغربی پاکستان اسمبلی کا ممبر منتخب کرایا۔ اس کے مقابلے میں دائرہ دین پناہ کے ایک مخدوم امیدوار تھے ۔ ملک قادر بخش جکھر، جب صوبائی وزیر تھے اس وقت ذوالفقار علی بھٹو ایوب خان کی کابینہ میں وزیر خارجہ تھے۔ اس طرح ذو الفقار علی بھٹو اور ملک قادر بخش جکھڑ کے درمیان ایک درینہ دوستی تھی یہی وجہ ہے کہ جب ذوالفقار علی بھٹو نے ۱۹۷۷ء کے انتخابات کا اعلان کیا تو انھوں نے کوٹ ادو اور لیہ کی مشترکہ سیٹ کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا۔ لیہ سے دائرہ دین پناہ تک کی سیٹ کے لیے ملک قادر بخش جکھرہ کو پیپلز پارٹی کا ٹکٹ جاری ہوا ان کے مدمقابل جماعت اسلامی کے میاں بشیر احمد پی۔ این۔اے کی ظرف سے قومی اسمبلی کے امیدوار تھے۔ قادر بخش جکھرہ نے یہ الیکشن واضح اکثریت سے جیت لیا اور وہ قومی اسمبلی کے ممبر منتخب ہوئے۔ اس وقت لیہ شہر اور کروڑ کی مشترکہ سیٹ پر سردار محمد مہرام خان پیپلز پارٹی کی طرف سے چودھری رحمت علی علوی پی۔ این۔اے کی طرف سے اور سید ریاض حسین شاہ ( سید نذرحسین شاہ بخاری سابق ممبر اسمبلی پنجاب اور مغربی پاکستان کے بیٹے ) قومی اسمبلی کے امیدوار تھے ۔ شہر کے کئی پولنگ اسٹیشن سید ریاض حسین شاہ نے بھاری اکثریت سے جیت لیے مگر مجموعی طور پر سردار محمد بہرام خان قومی اسمبلی کے ممبر منتخب ہو گئے۔ یہ اسمبلی جو مارچ ۱۹۷۷ء کو وجود میں آئی ۔ یہ اسمبلی ۵ جولائی ۱۹۷۷ء کو جنرل محمد ضیاء الحق نے مارشل لگا کر ختم کر دی۔ اس طرح ملک قادر بخش جکھرہ اور سید نذرحسین شاہ کی سیاست ۱۹۷۷ء کے انتخابات کے ساتھ ہی اختام پذیر ہو گئی۔ ملک قادر بخش جکھڑ ایک متوسط بلکہ غیر گھر کے فرد تھے۔ ان کی رہائش بھی دیہات بستی جکھڑ میں تھی۔ یہ ایک سلیف میڈ انسان تھے جو زیرو سے سفر شروع کرتے ہیں اور مغربی پاکستان کے وزیر بنتے ہیں۔ اگر غور کیا جائے تو قادر بخش جکھرہ کے خاندان میں پہلے کوئی مشخص وزیر تو کیا صوبائی اسمبلی کا نمبر بھی نہیں بنا۔ مگر وہ اپنی خداداد صلاحیت اور ذہانت کے بل بوتے پر مسلسل محنت کے ذریعے آگے بڑھتے رہے۔ ان کی صلاحیتوں کا انداز و اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ وہ محکمہ زراعت میں کلرک بھی۔ محکمہ زراعت نے کنواں کھودنے کے لیے انھیں تقاوی کا قرضہ جاری کیا جن سے انھوں نے بی اے اور ایل ایل بی کی تعلیم حاصل کی۔ انھوں نے ضلع کچہری مظفر گڑھ سے اپنی وکالت شروع کی اور جلد ہی اپنی صلاحیتوں سے ایک نامور وکیل بن گئے ۔ انھوں نے ڈسٹرکٹ بورڈ مظفر گڑھ سے اپنی عملی سیاست کا آغاز کیا اور ڈسٹرکٹ بورڈ کے وائس پریذیڈنٹ منتخب ہوئے ۔ اس وقت ضلع کونسل کی بجائے ڈسٹرکٹ بورڈ ہوا کرتا تھا۔ اس کے ارکان بھی منتخب ہوا کرتے تھے۔ ملک قادر بخش جکھر، ایوب خان کے دور میں ۱۹۶۲ء میں مغربی پاکستان اسمبلی کے ممبر بنے اور پھر وزیر بنے ۔ اُن کے داماد ملک فضل حسین جگور ممبر ضلع کونسل لیہ بنے اور پھر ملک قادر بخش جبکھرہ کے نواسے ملک افتخار احمد جکھر، ۲۰۰۵ء کے بلدیاتی الیکشن میں تحصیل ناظم لیہ بنے ۔ جبکہ اُن کے عزیز ملک نیاز احمد جکھڑ ایڈووکیٹ اس وقت قومی اسمبلی کے ممبر ہیں وہ سال
۲۰۱۸ ء میں چوتھی مرتبہ قومی اسمبلی کے ممبر منتخب ہوئے ہیں۔
سید نذرحسین شاہ الیہ شہر کی بخاری فیملی کے چشم و چراغ تھے۔ ان کے والد کا نام سید محمد شاہ تھا جو بھر اتری ہائی سکول لیہ میں بہت لائق اور ہر دلعزیز اُستاد تھے۔ سید نذرحسین شاہ نے مسلم لیگ کے پلیٹ فارم سے اپنی سیاست کا آغاز کیا۔ تحصیل لیہ میں انھوں نے مسلم لیگ کی بنیاد رکھی اور اپنا ایک گروپ تشکیل دیا۔ سردار عبدالحمید دستی اور میاں غلام جیلانی گورمانی مظفر گڑھ میں ان کے گروپ کے اہم لیڈر تھے۔ ۱۹۴۵ء کے الیکشن جس کے نتیجے میں پاکستان بنا۔ لیہ اور کوٹ ادو کی پنجاب اسمبلی کی سیٹ کے لیے میاں غلام جیلانی گورمانی مسلم لیگ کی طرف امیدوار تھے، لیہ میں ان کی انتخابی مہم سید نذر حسین شاہ نے چلائی ۔ جبکہ مدمقابل ملک قادر بخش جکھرہ یونینسٹ پارٹی کے امیدوار تھے۔ لیہ کے جو معروف خاندان سید نذر حسین شاہ کے گروپ میں شامل تھے ان میں مہر خدا بخش سمرا، میر قادر بخش سمراء عبر اللہ داد سمراء عبر اللہ ڈلوایا سمراء عبر حاجی محمد کلاسراء، امداد حسین شاہ کسپیری رضا خان جسکانی (بستی شاد و خان)، یار محمد خان میرانی ، سامٹیہ برادری چھند برادری کھوکھر برادری، بھٹی برادری ، قیصر خان مگسی (جس کے ہوتے قیصر خان مگسی چوبارہ سے دو مرتبہ ایم پی اے منتخب ہوئے ، نور عالم شاہ گیلانی پیر چھتر شریف) ، قریشی خاندان کرد اهل عیسن ، غلام حسین عرف چینو شاہ دور شد، کوئلہ حاجی شاہ کے شاہ صاحبان، چانڈ یہ خاندان کے غلام فرید خان چانڈیہ، غلام سرور ٹانوری، سواگ خاندان ، علیانی، اولکھ خاندان سردار فضل احمدخان سید ( والد محترم سردار ارشد اسلم خان ایڈووکیٹ ) کروڑ اور سردار اسلم خان سیڈ ڈ بھی مکوڑی اور لیہ کےغریب، پسماندہ اور کچلے ہوئے طبقات کے ہر دل عزیز لیڈرنذرحسین شاہ تھے ۔
سید نذرحسین شاہ کے اہم معاونین میں مہر قا در بخش سمرا اس حوالے سے قابل ذکر ہیں کہ ان کے بیٹے مہر منظور حسین سمرا ۱۹۷۰ء کے الیکشن میں پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر نمبر قومی اسمبلی بنے ۔ بعد ازاں ان کے چھوٹے بیٹے عبر فضل حسین سمر ۱۹۹۳۱ ء اور ۲۰۰۳ء کے الیکشن میں مہر پنجاب اسمبلی منتخب ہوئے۔
سید نذرحسین شاہ کی رہائش لیہ شہر میں تھی۔ نذر حسین شاہ کے چاچراغ شاہ کا کنواں عید گاہ کے شمال میں تھا۔ جب کہ سید محمد شاہ بھر اتری ہائی سکول میں اُستاد تھے۔ نذر حسین شاہ انتہائی متحرک اور ذہین شخص تھے ۔ انھوں نے اپنی خدا داد صلاحیتوں سے اپنا ایک گروپ بنایا اور مسلم لیگ کی بنیاد رکھی اور لیہ کے معروف زمیندار خاندانوں کو اپنا اتحادی بنایا ۔ نذر حسین شاہ اپنی جرات اور بہادری کی وجہ سے لیہ شہر میں اپنے مخالف سیاستدانوں اور زمینداروں کو آسانی سے داخل نہیں ہونے دیتے تھے۔ ان کے جانثاروں کا ایک گروہ تھا۔ جس میں حسن نامی دو شخص تھے دونوں کا شمار اہم جان شاروں میں ہوتا ہے۔ لیہ شہر کی بڑی آبادی یا اکثریت رکھنے والی برادریاں نذر حسین شاہ کے ساتھ تھیں۔ ان کے جاں نثارسید نذرحسین شاہ کے اشارہ ابرو پر بڑی سے بڑی شخصیت سے الجھ جاتے تھے جھگڑ پڑتے تھے۔ نتیجتاً شہر اور گردو نواح میں اپنے رعب اور دبدبے کی وجہ سے اپنے مخالفین کے لیے سخت پریشانی کا سبب تھے۔ یہی وجہ سے کہ ۱۹۴۵ء کے الیکشن میں وہ مضبوط مخالف دھڑوں کے باوجود چوبارہ، نواں کوٹ اور تھل کے علاقوں کے بی ڈی ممبران کو اپنی خطابت شخصیت کے اثر سے اپنے ساتھ ملانے میں کامیاب ہوئے ۔ نذر حسین شاہ کی سیاست ، خطابت ، جرات و بہادری اور بڑے زمینداروں کی مخالفت کے باوجود مسلم لیگ کی کامیابی کا سبب بنی۔ کہا جاتا ہے کہ کسی پنچائیت میں کسی ہجوم میں کسی جلسے میں اور کسی میٹنگ میں نذرحسین شاہ کی خطابت کا جادو سر چڑھ کر بولتا تھا۔ مگر بد قسمتی سے ۱۹۷۰ ء کے الیکشن میں اپنی علالت کی وجہ سے وہ کوئی فعال کردار ادا نہ کر سکے اور ۱۹۷۱ ء میں راہی ملک عدم ہوئے۔ ۱۹۷۷ء کے عام انتخابات میں سید نذر حسین شاہ کے بیٹے سید ریاض حسین شاہ بخاری نے بطور آزاد امیدوار قومی اسمبلی کا الیکشن لڑا۔ سید صدر حسین شاہ بخاری ایڈووکیٹ کے بیٹے اور سید نذرحسین شاہ کے داماد سید اختر حسین شاہ ۱۹۸۳ء کے بلدیاتی انتخابات کے نتیجے میں چیئر مین بلد یہ یہ منتخب ہوئے۔