۱۹۴۵ء کے عام انتخابات کے نتیجے میں مسلم لیگ کے غلام جیلانی گورمانی واضح اکثریت سے ممبر قانون ساز اسمبلی برصغیر منتخب ہوئے۔ جبکہ ان کے مد مقابل یونینسٹ پارٹی ( زمینداروں کی پارٹی) کے امیدوار ملک قادر بخش جکھرہ مرحوم نا کام ٹھہرے۔ چنانچہ لیجسلیٹو اسمبلی ( آف انڈیا) کے لیے غلام جیلانی گورمانی ایم ایل اے
( ممبر لیجسلیٹو اسمبلی منتخب ہوئے ۔ بعد ازاں اسی اسمبلی کے مطلوبہ ممبران نومولود مملکت خداداد پاکستان کی قانون ساز اسمبلی کا حصہ بنے۔ جو ایوب دور کے مارشل لاء تک اپنی خدمات سر انجام دیتے رہے۔ اسی دوران میں
(۱۹۴۷ تا ۱۹۵۸) تک ماسوائے چند ضمنی انتخابات کے کسی جنرل الیکشن کا انعقاد نہ ہو سکا تھا۔ تا ہم پہلے جمہوری عام انتخابات ( بعد از مارشل لاء (۱۹۷۰ء میں کرائے گئے تھے۔ لیہ اور کوٹ ادو ایک انتخابی حلقہ شمار کیے جاتے تھے ۔
( بحوالہ تاریخ لیہ از نور محمد تھند مرحوم ) ۔ نذر حسین شاہ مسلم لیگ کے سپورٹر تھے ۔ ۱۹۴۶ء میں گرفتار ہوئے۔ جب وہ قید میں تھے تو ان کا بیٹا فوت ہو گیا۔ بعد از آزادی پاکستان رہائی ملی ۔ کسی نے تعزیت کی تو فرمایا ‘ آج مجھے اپنے بیٹے کا صدمہ نہیں۔ خوش ہوں کہ آج ہم آزاد ہیں۔ اس کے بعد اکتوبر ۱۹۵۱ء میں لیاقت علی خان شہید کر دیے گئے۔ اس وقت قومی اخبارات میں یہ خبر بڑی شدومد کے ساتھ شائع ہورہی تھی کہ لیاقت علی خان کے قتل میں ہندوستان و افغانستان کا ہاتھ ہے۔ ( بحوالہ قلمی ڈائری از قلم میاں الہی بخش لکھی مرحوم ) ایوب دور میں بی ڈی ممبران نے مرکزی اور صوبائی اسمبلیوں کے لیے ارکان منتخب کیے۔ لیہ سے ملک قادر بخش جکھر (وفاقی وزیر زراعت ویسٹ پاکستان) اور سید نذرحسین شاہ (ممبر صوبائی اسمبلی) منتخب کیے گئے۔ اُس وقت نواب ملک امیر محمد خان اعوان المعروف نواب آف کالا باغ مغربی پاکستان کے تیسرے گورنر مقرر کیے گئے تھے۔ مہر محمد اقبال سمراء مبر امن کمیٹی ڈسٹرکٹ لیہ کے مطابق ایک دفعہ نواب آف کالا باغ ملک سے باہر تشریف لے گئے تھے۔ اُن کی غیر موجودگی میں ملک قادر بخش جکھرہ عارضی گورنر بنائے گئے تھے۔ واضح رہے کہ سمیر املک ( سابقہ ایم این اے مشرف دور ) نواب آف کالا باغ کی پوتی ہیں۔ ڈاکٹر اشرف المعروف اشو لال فقیر کے مطابق بھٹو صاحب نے ایک مرتبہ خواہش کا اظہار کیا تھا کہ وہ اُس لیہ کو دیکھنا چاہتے ہیں کہ جس کی عوام اتنی تو باشعور ہے کہ جس نے صدر ایوب کے خلاف صدارتی مقابلہ کے وقت میں محترمہ فاطمہ جناح کو جتوا دیا تھا۔ بلاشبہ لیہ پاکستان میں واحد شہر تھا جہاں سے محترمہ فاطمہ جناح واضح اکثریت سے جیتی تھیں ۱۹۷۰ء کے الیکشن میں قومی اسمبلی کے حلقہ این اے ۳۹ الیہ سے مہر منظور حسین سمر اجب کہ پی پی شمالی صوبائی حلقہ ۱۹۹ سے پیرمحمد شاہ آف پیر چھتر ، حلقہ ۱۹۸ جنوبی سے جمعیت علمائے پاکستان کے حمایت یافتہ پیر مہتاب شاہ کامیاب ٹھہرے۔ یہ پہلی مرتبہ تھا کہ ایم ایل اے کی اصطلاح کی جگہ ایم این اے“ کا لفظ مستعمل ہوا۔ جب کہ انڈیا میں ایم ایل اے کی اصطلاح ہنوز استعمال کی جاتی ہے۔ جنرل الیکشن ۱۹۷۷ء میں این اے ۳۹ الیہ سے بہرام خان سیہڑ، این اے ۱۳۸ لیہ سے ملک قادر بخش جکھڑ، صوبائی اسمبلی کے حلقہ پی پی ۱۹۸ سے مہر سلیمان تھند ، پی پی ۱۹۹ لیہ شہر سے شیخ منظور حسین نے میدان مارا۔ بعد از مارشل لاء (ضیاء الحق ) یکم جولائی ۱۹۸۲ء میں لیہ کو مظفر گڑھ سے الگ کر کے علیحدہ ضلع بنادیا گیا۔ انتخابات ۱۹۸۵ء میں این اے ۱۳۰ حلقہ لیہ سے سردار غلام فرید خان میرانی، این اے ۱۳۱ لیہ سے سردار محمد جہانگیر سیبر ، پی پی ۱۹۸ سے اصغر علی گوجر ، پی پی ۹۹ الیہ سے غلام حیدر تھند (لیہ کے واحد بزرگ لیڈر ہیں جن کے ہر دور میں سب سے زیادہ ترقیاتی کام ہوئے ) پی پی ۲۰۰ سے چودھری محمد افضل گوجر اسمبلیوں تک پہنچنے میں کامیاب رہے۔ محمد خان جونیجو وزیر اعظم پاکستان جبکہ میاں نواز شریف وزیر اعلی پنجاب بنائے گئے۔ ۱۹۸۸ء کے الیکشن میں این اے ۳۹ الیہ سے پاکستان پیپلز پارٹی کے نامزد امیدوار ملک نیاز احمد جکھر، این اے ۴۰ الیہ سے اسلامی جمہوری اتحاد کے صاحبزادہ فیض الحسن، پی پی حلقہ ۲۱۵ سے آئی جے آئی کے اصغر علی گوجر ، صوبائی حلقہ ۲۱۶ سے آزاد امیدوار ملک غلام حیدر تحصید اور صوبائی حلقہ ۲۱۷ سے آزاد امید وار احمد علی اولکھ منتخب ہوئے ۔ مرکز میں بینظیر بھٹو جبکہ پنجاب میں نواز شریف وزیر اعلی بنائے گئے۔ ( بحوالہ ہینڈ آؤٹ اخبار لیہ ) الیکشن ۱۹۹۰ء میں تمام قومی و صوبائی اسمبلیوں کی نشستوں سے آئی جے آئی کے امیدواران الیکشن معرکہ سر کرنے میں کامیاب ٹھہرے۔ این اے ۱۳۹ سے پیر سید خورشید احمد شاہ بخاری، این اے ۱۴۰ سے فیض الحسن، پی پی ۲۱۵ سے اصغر علی گوجر ، پی پی ۲۱۶ سے ملک غلام حیدر تھیر اور پی پی ۲۱۷ سے احمد علی اولکھ فاتح قرار پائے۔ نواز شریف وزیر اعظم پاکستان جب کہ غلام حیدر وائیں وزیر اعلی پنجاب بنائے گئے۔ انتخابات ۱۹۹۳ء میں این اے ۱۳۹ سے ملک نیاز احمد جکھرہ (پی پی پی)، این اے ۱۴۰ سے محمد جہانگیر سیر (پاکستان پیپلز پارٹی) صوبائی حلقہ ۲۱۵ سے پاکستان اسلامک فرنٹ کے اصغر علی گوجر، پی پی ۲۲۶ سے پیپلز پارٹی کے ورکر سیاستدان مہر فضل حسین سمرا مرحوم، پی پی ۲۱۷ سے ملک اللہ بخش سامٹیہ منتخب ہوئے ۔ بطور وزیر اعظم مرکز میں بینظیر بھٹو مسند اقتدار پر جلوہ افروز تھیں تو پنجاب میں غلام حیدر وائیں بطور وزیر اعلیٰ در بارنشین تھے۔ لیہ میں ۱۹۹۷ء کے عام انتخابات میں تمام قومی وصوبائی سیٹوں پر مسلم لیگ کے امیدوار ان ہی مسند نشین ہو گئے تھے۔ این اے ۱۳۹ سے ملک غلام حیدر تهید ، این اے ۱۴۰ سے فیض الحسن سواگ، پی پی ۲۱۵ سے مھر اللہ ڈوایا تھند ، پی پی ۲۱۶ سے ملک غلام محمد سواگ، پی پی ۲۱۷ سے ملک احمد علی اولکھ کا چناؤ عمل میں لایا گیا تھا۔ ملک غلام محمد سواگ کے تین مارچ 1999 ء کو اپنے گھر میں قتل کیے جانے سے ملک شکور سواگ مسلم لیگ کے ٹکٹ پر ضمنی الیکشن میں اپنے سیاسی حریف مصر فضل حسین سمرا کو شکست دینے میں کامیاب رہے تھے۔ مرکز میں نواز شریف جب کہ پنجاب میں شہباز شریف نے خادم اعلیٰ کا منصب سنبھالا تھا۔ مگر بعد ازاں جنرل پرویز مشرف کے مارشل لاء نے تمام امیدوں پر پانی پھیر دیا۔ ۲۰۰۲ء کے انتخابات کے لیے نئی حلقہ بندیاں ترتیب دی گئیں۔ لیہ میں دو نئے حلقوں کے اضافے کے ساتھ صوبائی حلقوں کی تعداد پانچ ہو گئی۔ جب کہ قومی اسمبلی کے حلقوں کے نمبر ز تبدیل کر دیے گئے ۔ تعداد وہی رہنے دی گئی۔ حلقہ این اے ۱۸۱ لیہ سے مسلم لیگ قائد اعظم کے ٹکٹ سے سردار بہادر احمد خان سیہڑ، این اے ۱۸۲ لیہ سے پی پی پی کے نیاز احمدجبکھرہ، صوبائی حلقہ ۲۶۲ سے ق لیگ کے چوہدری الطاف حسین، پی پی ۲۶۳ سے ق لیگ کے ملک اللہ بخش سامٹیہ ، جماعت اسلامی کے چودھری اصغر علی گوجر بیک وقت دو حلقوں ۲۶۴ و ۲۶۶ سے ۲۶۵ سے ن لیگ کے مہر اعجاز احمد اچلانہ اپنی اپنی سیٹیں جیتنے میں کامیاب رہے تھے۔ چودھری اصغر علی گوجر کی چھوڑی ہوئی سیٹ پر ضمنی الیکشن میں مہر فضل حسین سمرا کا چناؤ ق لیگ کے ٹکٹ پر عمل میں لایا گیا تھا۔ مرکز میں شوکت عزیز وزیر اعظم پاکستان جب کہ پنجاب میں چودھری پرویز الہی مسجد اقتدار پر مسند نشین ہوئے تھے۔ الیکشن ۲۰۰۸ء میں این اے ۱۸۱ سے ق لیگ کی جانب سے بہادر احمد خان سیر ، این اے ۱۸۲ سے ن لیگ کی جانب سے پیرسید تقلین احمد بخاری، پی پی ۲۶۲ سے ن لیگ سے ملک احمد علی اولکھ ، پی پی ۲۶۳ سے پی پی پی کے رائے مندر عباس بھٹی، پی پی حلقہ ۲۶۴ میں ن لیگ سے سردار قیصر عباس بھٹی، حلقہ ۲۶۵ سے ن لیگ کے ہی مہر اعجاز احمد اچلانہ، ۲۶۶ سے پاکستان پیپلز پارٹی کے افتخار علی بابر کھتر ان بڑے بڑے برج الٹنے میں کامیاب رہے۔ مرکز میں اتحادیوں کی مدد سے پیپلز پارٹی جبکہ پنجاب میں ن لیگ اپنا حکومتی نظم و نسق چلانے میں
سرخرو ہوئی۔عام انتخابات ۲۰۱۳ء میں این اے ۱۸۱ سے صاحبزادہ فیض الحسن ، این اے ۱۸۲ سے سید تقلین شاہ بخاری ، پی پی ۲۶۲ سے تحریک انصاف کی ٹکٹ پر عبدالمجید خان نیازی، پی پی ۲۶۳ سے پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر سردار شہاب الدین خان ، پی پی ۲۶۴ سے مسلم لیگ ن کے ٹکٹ پر سردار قیصر خان مگسی ، بی بی ۲۶۵ سے ن لیگ کے ٹکٹ پر مہر اعجاز احمد اچلانہ، پی پی حلقہ ۲۶۶ سے آزاد امیدوار چودھری اشفاق احمد (بعد ازاں شمولیت ن لیگ) منتخب ہوئے ۔ مرکز میں وزارت عظمیٰ نواز شریف جبکہ پنجاب میں شہباز شریف وزارت اعلیٰ کے تاج اپنے اپنے سر سجانے میں کامیاب رہے۔ ہنگامہ خیز عام انتخابات ۲۰۱۸ ء میں این اے ۸۷ الیہ سے تحریک انصاف کے عبدالمجید خان نیازی ، این اے ۱۸۸ الیہ سے قومی اسمبلی نشست کے لیے تحریک انصاف کے ہی ملک نیاز احمد جکھرہ، صوبائی اسمبلی کے حلقہ پی پی ۲۸۰ سے آزاد امیدوار ملک احمد علی اولکھ ، پی پی حلقہ ۲۸۱ سے تحریک انصاف کے سردار شہاب الدین خان سیہر حلقہ ۲۸۲ سے آزاد امیدوار محمد طاہر رندھاوا، پی پی ۲۸۳ سے ن لیگ کے مہر اعجاز احمد اچلانہ، پی پی ۲۸۴ سے سید رفاقت علی گیلانی جمہوری انداز سے عوام کی جانب سے منتخب ہوئے۔ دو آزاد امیدواروں ( محمد طاہر رندھاوا اور سید رفاقت علی گیلانی نے تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کر لی اور حکومت کاحصہ بنیں۔
نوٹ : یہ مضمون گورنمنٹ پوسٹ گریجویٹ کالج لیہ کے "تھل” میگزین سےلیا گیا ہے