مظفر گڑھ کا ادب

مظفر گڑھ کے اہل ادب و دانش

 

میاں محمد افضل ۔ سابق صوبائی سیکریٹری، ادیب اور دانشور (95)

مظفر گڑھ مردم خیز خطہ ہے یہاں کئی نابغہ روزگار شخصیات نے جنم لیا ہے یہاں کی زرخیز مٹی میں جنم لینے والوں سپوتوں نے زندگی کے ہر میدان میں اپنے علاقے کا نام روشن کیا ہے ان شخصیات میں ایک ہستی میاں محمد افضل خدائی کی ہے۔ میاں محمد افضل کی جدو جہد حیات اور کارنا ہے آج نوجوان نسل کے لئے مشعل راہ ہیں ۔ آپ ایک اعلی آفیسر، کامیاب منتظم اور اعلی پایے کے مصنف ہیں۔ کئی برسوں تک حکومت پنجاب کے ساتھ مختلف عہدوں پر فائز رہے آج کل ریٹائر منٹ کی زندگی گزار رہے ہیں اور اپنے آپ کو تصنیف و تالیف کے لئے وقف کر چکے ہیں۔ کئی شاندار کتابوں کے مصنف ہیں۔ اسلامی تاریخ قرآن، علوم سیاسیات، سوانح، پاکستانیات، فارسی ، اردو اور انگریزی ادب ان کے پسندیدہ مضامین ہیں۔ ان کی کتاب سقوط بغداد سے سقوط ڈھاکہ تک مسلمانوں کی ہزیمت اور اپنوں کی غداری کی داستان ہے۔ اس طرح دو جلدوں پر مشتمل ان کی کتاب میر کارواں بانی پاکستان کی سوانح حیات پرلکھی گئی کتب میں ایک شاندار اضافہ ہے۔ یہ کتاب میاں افضل کے کئی برسوں کی محنت اور تحقیق کا حاصل ہے۔ آپ کی دیگر کتب میں مغرب کی اسلام دشمنی کی داستان تھوڑی سی روشنی کے لئے، یہ باتیں بھی قرآن میں ہیں اور اعلائے کلمتہ الحق کی روایت اسلام میں شامل ہیں۔

میاں محمد افضل مظفر گڑھ کے نواحی گاؤں خدائی بنگلہ میں پیدا ہوئے ۔ آپ کے والد زمیندار تھے اس لئے انہوں نے اپنے بیٹے کو پڑھایا لکھایا۔ ابتدائی تعلیم مظفر گڑھ سے حاصل کی اور گورنمنٹ ایمرسن کالج ملتان سے گریجوایشن کیا۔ جبکہ پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے انگلش کی ڈگری حاصل کی اور محکمہ تعلیم پنجاب میں انگریزی کے لیکچرر مقرر ہوئے۔ اسی دوران میں سی ایس ایس کا امتحان پاس کر کے پاکستان پوسٹل سروس کو جوائن کیا بعد میں پنجاب سول سروس کا امتحان پاس کر کے پنجاب حکومت میں آگئے ۔ 32 برس کی سرکاری ملازمت میں اہم عہدوں پر فائز رہے۔ کئی محکموں کے سیکریٹری سیکریٹری پبلک سروس کمیشن اور ممبر پنجاب سروسز ٹربیونل بھی تعینات رہے۔ 60 سال کی عمر میں سرکاری ملازمت سے ریٹائر ہوئے اور لاہور میں سکونت اختیار کی۔

انجینئر عبدالحکیم ملک محقق قرآن

عبد الحکیم ملک کا تعلق مظفر گڑھ کے قصبے آلو دے والی سے ہے ۔ 16 جون 1946ء کو آلودے والی میں پیدا ہوئے ابتدائی تعلیم وہیں سے حاصل کی ۔ پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے سیاسیات اور ایل ایل بی کی ڈگری بھی حاصل کی ۔ پیشے کے اعتبار سے انجینئر تھے۔ آبپاشی، واپڈا اور مواصلات میں خدمات سرانجام دیتے رہے۔ 2005ء میں بطور ایس ڈی اور ٹائر ڈ ہوئے۔ انھیں 70 کی دہائی میں سعودی عرب میں پیشہ وار نہ خدمات سرانجام دینے کا موقع ملا۔ تبوک میں رہے وہیں شوق پیدا ہوا کہ قرآنی مضامین کی ریفرنس بک تیار کی جائے ۔ سعودی عرب سے واپسی پر اسلامک ریسرچ فاؤنڈیشن نامی تنظیم کی بنیاد رکھی ۔ 2008ء میں انہوں نے کینیڈا میں رہائش اختیار کر لی۔ 1996ء میں ان کی کتاب منشور قرآن منظر عام پر آئی جسے دنیا بھر کے سکالرز نے ایک شاندار دستاویز قرار دیا۔ انجینئر عبدالحکیم ملک اب تک کئی کتب لکھ چکے ہیں کینیڈا میں انکی تنظیم اسلامک ریسرچ فاؤنڈیشن گلوبل اسلامی تعلیمات ، عالمی امن اور بین المذاہب رواداری کے فروغ میں سرگرم عمل ہے۔ عبدالحکیم ملک کی کاوشوں کو دنیا کے بڑے بڑے سکالرز نے سراہا ہے حکیم سعید اور ڈاکٹر عبدالقدیر خان سمیت کئی عظیم اشخاص نے ان کے کام کو پسند کیا ہے۔ ضلع مظفر گڑھ کا ہیلی اور تحقیقی کام کرنے والا سپوت عالمی شہرت حاصل کر چکا ہے۔ ضلع مظفر گڑھ کو اس عظیم سپوت پر ناز ہے [96]۔

پروفیسر ڈاکٹر سجاد حیدر پرویز  ۔  ماہر تعلیم ، ادیب اور شاعر

28 اگست 1961 ء کو دراہمہ ڈیرہ غازیخاں میں پیدا ہوئے ۔ ان کے والد غلام حید ر ارشادڈ پر دی سرائیکی کے شاعر تھے ۔ سجاد حیدر پرویز نے گورنمنٹ ہائی سکول مظفر گڑھ سے 1976 ء میں میٹرک کا امتحان پاس کیا۔ 1980ء میں گورنمنٹ کالج مظفر گڑھ سے گریجوایشن کی ۔ 1983ء میں ملتان سے ایل ایل بی کا امتحان پاس کیا کچھ عرصہ وکالت کے پیشے سے منسلک رہے۔ 1987ء میں اردو کے لیکچرار کے طور پر محمہ تعلیم پنجاب کو جوائن کیا ۔ 1986ء میں گورنمنٹ کالج مظفر گڑھ تعیناتی ہوئی۔ اب تک وہی تعینات ہیں۔ اردو میں یو نیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی ۔ شاعر، ادیب محقق اور ماہر لسانیات پروفیسر سجاد حیدر پرویز نے مظفر گڑھ جیسے شہر میں بیٹھ کر ادب اور تحقیق کے میدان میں بہت نام کمایا ہے۔ انکی کتب مختلف یونیورسٹیوں کے نصاب میں شامل ہیں۔ ادارہ تحقیق کے نام سے ایک تحقیقی ادارہ قائم کیا۔ سرائیکی زبان وادب پر ان کا کام ہر جگہ سراہا جاتا ہے۔ اردو، سرائیکی اور پنجابی زبان کے ادیب ڈاکٹر سجاد حیدر پرویز نے ادب کے میدان میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا ہے ۔ آپ کئی کتابوں کے مصنف ہیں ۔ 80 سے زائد کتابیں لکھ چکے ہیں ۔ اب تک ڈاکٹر سجاد حیدر پرویز کی جو کتابیں اہل ادب سے داد وصول کر چکی ہیں ان میں ویند ، وگریں (سفر نامه) ، مدنی مٹھا من ٹھار (سیرت نگاری ) ، تاریخ مظفر گڑھ (سرائیکی) ، فرید و چار ( فرید یات ) ، جادہ شوق اور رحمت العالمین ( مجموعہ نعت ) شامل ہیں ۔ صدارتی ہجرہ ایوارڈ مسعود کھدر پوش
ایوارڈ۔

ملک خیر محمد بدھ ۔۔ بیوروکریٹ ، ادیب اور دانشور

بیوروکریٹ، ادیب، کالم نگار اور دانشور ملک خیر محمد بدھ 25 ستمبر 1948ء کو مظفر گڑھ کے نواحی گاؤں قصبہ بدھ میں پیدا ہوئے ۔ گورنمنٹ ہائی سکول کوٹ ادو سے میٹرک کا امتحان پاس کیا۔ گورنمنٹ ایمرسن کالج ملتان سے گریجوایشن کی ۔ پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے سیاست اور لاء کی ڈگری حاصل کی اور سرکاری ملازمت اختیار کی ۔ 2001ء سے 2008 ء تک مظفر گڑھ میں بطور ای ڈی او فنانس اور پلانگ تعینات رہے ۔ طلبا یونین میں بھی متحرک رہے۔ کالج یونین کے عہدیدار منتخب ہوئے ۔ زمانہ طالب علمی سے سماجی علمی اور ادبی موضوعات لکھتے رہے ہیں ملک خیر محمد بدھ نے سرکاری ملازمت کے ساتھ ساتھ ادب اور صحافت کے میدان میں بھی بڑا نام کمایا ہے ۔ سرائیکی وسیب کی تعمیر وترقی کیلئے لکھتے رہے ہیں اور ہر فورم پر آواز بلند کرتے رہے ہیں ۔ 1970ء میں ملتان یونیورسٹی بناؤ تحریک میں پیش پیش تھے اب مظفر گڑھ میں یونیورسٹی بناؤ تحریک کا حصہ ہیں ۔ گورنمنٹ پوسٹ گریجوایٹ کالج مظفر گڑھ میں ماسٹ کی کلاسز کے اجرا میں بہت اہم کردار ادا کیا۔ بہاؤ الدین زکریا یونیورٹی میں بطور وزیٹنگ فیکلٹی ممبر پڑھاتے بھی رہے ہیں۔ 2008ء ریٹائر منٹ کے بعد وکالت کے پیشے سے وابستہ ہیں اور سماجی خدمت کے ساتھ ساتھ عوامی مسائل پر کالم لکھتے رہتے ہیں۔ ملک خیرمحمد بدھ نے کئی کتب بھی تحریر کی ہیں ان میں جدید تاریخ مظفر گڑھ ادھر ادھر سے ( کالموں کا مجموعہ اور منظر گڑھ کی عدالت تاریخ شامل ہیں ۔ آپ پنجاب یو نیورٹی میں دیکھی سٹوڈنٹس کے اسٹنٹ ایڈیٹر جبکہ یونیورسٹی میگزین محور کے ایڈیٹر بھی رہے ۔ 2008ء میں ضلع کونسل کے ممبران نے ایک قرارداد کے ذریعے سوشل سیکیورٹی روڈ کا نام کے ۔ ایم بدھ روڈ رکھنے کا فیصلہ کر کے آپ کی سماجی خدمات کو خراج تحسین پیش کیا (98)۔

نعیم کا شف قریشی۔ ۔ شہر کا تہذیبی چہرہ

نعیم کا شف قریشی مظفر گڑھ کی ایک ہمہ جہت شخصیت ہیں ۔ شاعر ادیب صحافی کمپئیر اور سیاسی در کر آپ کی شخصیت کے کئی معتبر حوالے ہیں۔ کھیلوں کے فروغ اور فیصل اسٹیڈیم میں منعقدہ پینل اور انٹرنیشنل کھیلوں کے ایڈیٹس کے کمنٹیٹر اور آرگنا ئز رہے ہیں۔ یہ خدمات 1980 سے سرانجام دے رہے ہیں ۔ بہت ساری ادبی تنظیموں کا حصہ رہے ہیں ۔ 77-1976 میں گورنمنٹ کالج مظفر گڑھ کے ادبی میگزین، ڈرامیٹک کلب اور کھیلوں میں نمایاں تھے ۔ ادا کار تو قیر ناصر کے ساتھ اسٹیج پر کام کیا اصغر ندیم سید کے ساتھ ڈرامے لکھے اور پروڈیوس کیے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے ضلعی جنرل سیکرٹری ہے۔ ہمیشہ نوجوانوں کی حوصلہ افزائی فرمائی ، مشاہیر کرام سے آپ کی ملاقاتیں رہیں ، اور ملک کے چوٹی کے شعراءو ادباء کو مظفر گڑھ مدعوکرتے رہے ہیں۔ ضلعی انتظامیہ ہر تہوار پر محفل مشاعرہ سے لے کر جشن بہاراں تک کے پروگراموں میں اسٹیج سیکرٹری کے فرائض آپ کے سپرد کرتے ہیں۔ نعیم کا شف قریشی مظفر گڑھ کا ایک خوبصورت تہذیبی چہرہ ہیں [99]۔

سیرت نگار۔۔ارشاد العصر جعفری

ارشاد حسین 1970ء کو مظفر گڑھ شہر میں رب نواز کے گھر پیدا ہوئے ۔ آپ کے اجداد کا اصل تعلق شجاع آباد سے ہے ۔ آپ کا گھرانہ شروع ہی سے علمی ذوق کا حامل تھا ۔ ابتدائی تعلیم مظفر گڑھ سے حاصل کی ۔ ہائی سکول مظفر گڑھ سے میٹرک کیا۔ گورنمنٹ کالج مظفر گڑھ سے 1993ء میں گریجوایشن کی اور شعبہ تعلیم سے بطور مدرس وابستہ ہوئے ۔ ادیب ،لکھاری اور محقق ہونے کے ساتھ آپ شاعر بھی ہیں غزل نظم ، نعت اور مدحت اہل بیت ان کے پسندیدہ موضوعات ہیں ۔ آپ نثر نگار بھی ہیں۔ ناول بھی لکھتے ہیں۔ بچوں کیلئے کہانیاں لکھتے رہے ہیں ۔ پہلا ناول ( بچوں کیلئے ) موت کا منصوبہ اس وقت لکھا جب آپ آٹھویں جماعت میں تھے ۔ اس جاسوسی سیریز میں 35 ناول لکھے ۔ بڑے بڑے رسالوں اور میگزین کیلئے کہانیاں لکھیں ان کی کہانیاں اور ناول سچی کہانیاں ( کراچی ) ، دو شیزہ (کراچی) آئیڈیل (کراچی) آنچل ، حکایت ، آداب عرض ، چاند ، سچی کہانی (لاہور ) اور سلام عرض سمیت بہت سے رسائل میں شائع ہوئیں ۔ آپ سیرت نگار بھی ہیں آپ نے 2014ء میں سرائیکی زبان میں سیرت کی کتاب سوجھلا شائع کی ۔ جسے جنوری 2014ء میں صوبائی سیرت ایوارڈ اور دسمبر 2015ء میں قومی سیرت ایوارڈ دیا گیا۔ ان کی دیگر تصانیف میں وجہ تخلیق کائنات ، سائبان رسالت ، آخری بادی کا ئنات ، اول نور ، رضائے آل محمد اور کائنات وفا ( حضرت عباس علمدار ) شامل ہیں۔ اس کے علاوہ انکے لکھے قیس چلبلائی ( مزاحیہ ناول ) نکلے تیری تلاش میں مزاحیہ ڈرامہ) اور دل تانگے تانگھ اے (سرائیکی ڈرامہ پی ٹی وی ملتان سنٹر ) بھی شہرت حاصل کر چکے ہیں -[100]

ندیم رحمان ملک ۔ ۔ ادیب، دانشور اور ڈرامہ نویس

ندیم رحمان ملک 1969ء میں ملک رسول بخش جھورڈ ایڈوکیٹ کے گھر مظفر گڑھ میں پیدا ہوئے ۔ انکے والد بہت ملنسار خلیق اور وضع دار انسان تھے۔ ندیم رحمان ملک کی والدہ محترمہ ثریا پروین بھی پہلے وقتوں کی تعلیم یافتہ تھیں۔ ندیم رحمان ملک کے نانا جان ملک امام بخش کیمبل معروف ماہر تو معروف ماہر تعلیم ، گورنمنٹ ایلیمنٹری کالج مظفر گڑھ کے پہلے پرنسپل اور پنجاب یونیورسٹی کے گولڈ میڈلسٹ تھے، آپ کے نھیال میں سارے اعلی تعلیم یافتہ اور اہم عہدوں پر فائز ہیں۔ ندیم رحمان ملک کے خالو سردار عاشق ڈوگر پیپلز پارٹی کے سابق ایم این اے اور وفاقی پارلیمانی سیکرٹری بھی رہے ہیں ان کے ایک صاحب زادے کرتی ہاشم ڈوگر آجکل پنجاب کا بینہ میں منسٹر فار پاپولیشن ہیں ۔

ندیم رحمان ملک کے ایک اور کزن پروفیسر ڈاکٹر مہر سعید اختر چیئر مین ادارہ تعلیم و تحقیق پنجاب یونیورسٹی ہیں [101]۔ آپ نے ابتدائی تعلیم مظفر گڑھ سے حاصل کی۔ گورنمنٹ کامرس کالج مظفر گڑھ سے انٹر اور بہاؤالدین زکریا یو نیورسٹی سے گریجوایشن کی ۔ ایم اے پولیٹیکل سائنس بھی وہیں سے کی اور بعد ازاں علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی اسلام آباد سے ایم ایس کی ماس کمیونیکیشن کی ڈگری حاصل کی۔ ندیم رحمان ملک نے لکھنے کا آغاز 1982ء میں روز نامہ امروز ملتان سے کیا۔ 1992ء میں پاکستان ٹیلی ویژن لاہور سنٹر سے پہلا سرائیکی ڈرامہ ” یک خواب دی تعبیر” لکھا۔ 1993ء میں پہلا پنجابی ڈرامہ پلیٹ فارم نمبر 4 لکھا اور یوں 2003 ء تک درجنوں ڈرامے لکھے۔ اس دوران محکمہ ہیلتھ پنجاب کے لیے دو ڈاکومینٹری ڈرامے بھی لکھے۔ 2006ء میں وسیب ٹی وی ملتان سے بے شمار انفرادی سیریل اور سریز لکھیں۔ ایک سیریل 29 اقساط کی ایک نجی ٹی وی کے لیے لکھی جسکا نام "تقدیر ” تھا۔ یوں 2009 ء میں آخری ڈرامہ لکھا اور پھر ڈرامہ لکھنا ہمیشہ کے لیے چھوڑ دیا۔ اب مختلف جرائد اور ویب سائٹس پر بطور آرگنائزر لاہور میں 1994ء کو عطاء اللہ عیسیٰ خیلوی شو کرایا، پھر مظفر گڑھ میں جناب حافظ اکبر نقاش، جناب خلیل احمد شیخ اور افضل چوہان کے ساتھ مل کے بہت سے یادگار علمی ، ادبی اور ثقافتی شو کر وائے ۔

2015ء سے انجینئر شبیر اختر قریشی کے ساتھ مل کے بزم فکر و دانش تنظیم بنائی اور اس کے زیر اہتمام آل پاکستان اردو کا نفرنس منعقد کی۔ 2019ء میں یاد گار لٹریری کلب مظفر گڑھ کی بنیاد رکھی اور پہلا پروگرام نامور کالم نگار اور مصنف سجاد جہانیہ کی کتاب ” ادھوری کہانیاں” کی تقریب رونمائی ( کوٹ ادو) کی صورت میں کیا۔ دوسرا پروگرام 14 مارچ 2020 ء کو یادگار آفیسرز کلب مظفر گڑھ میں ملک کے نامور کالم نگار، دانشور اور سفر نامہ نگار رانا محبوب اختر کے اعزاز میں ” شام پذیرائی را نا محبوب اختر ” منعقد کیا۔ اسلامی موضوعات پر مشتمل ایک کتاب ” رحمتوں والے اعمال ” 2016 ء میں لکھی ، گزشتہ آٹھ سالوں سے سیرت پاک میں ہی ہم پر ایک تحقیقی کتاب لکھنے میں مصروف ہیں۔ ماضی میں انھیں یہ بھی شرف حاصل رہا ہے کہ انکی ملاقاتیں اشفاق احمد مستنصر حسین تارڑ، عطاء الحق قاسمی ، احمد ندیم قاسمی ۔ ایم ۔اے راحت قتیل شفائی ہمنیر نیازی، فیصل بھی ، امجد اسلام امجد، یونس بٹ ، جناب رضا علی عابدی، وسعت اللہ خان ، عارف نظامی اور نصرت فتح علی خان سے ہیں ۔ آپ سرکاری ملازمت ( سوئی گیس) سے وابستہ ہیں اور ان دنوں سنانواں میں مقیم ہیں۔

متین کا شمیری ۔ نعت گو شاعر اور ادیب

متین اقبال کا شمیری کا تعلق ضلع مظفر گڑھ کی تحصیل کوٹ ادو سے ہے ۔ ان کے اجداد کشمیری ہیں ۔ جو کشمیر سے لاہور منتقل ہوئے ۔ ان کے والد کوٹ ادو میں مقیم تھے اور وہاں شادی کی ۔ آپ کے ننھیال کا تعلق حضرت دیوان چاولی حاجی بشیر احمد کے خاندان سے ہے ۔ آپ کے نانا حضرت مولوی خدا بخش درویش صفت انسان تھے۔ متین کا شمیری کوٹ ادو میں 14 اگست 1965ء میں پیدا ہوئے ۔ ابتدائی تعلیم کوٹ ادو کے مدارس اور سکولوں سے حاصل کی ۔ بی اے علامہ اقبال اوپن یونیورٹی اور ایم اے اردو کی ڈگری پنجاب یونیورسٹی لاہور سے حاصل کی ۔ بطور مدرس محکمہ تعلیم پنجاب سے وابستہ ہوئے ۔ ان دنوں لاہور میں مقیم ہیں۔ شاعر اور ادیب متین کا شمیری کئی کتابوں کے مصنف ہیں ۔ 1993ء میں ان کی کتاب احوال و آثار حضرت علامہ عبدالعزیز پر ہاڑ وی شائع ہوئی جو کہ علامہ عبدالعزیز پر ہاروی پر لکھی جانے والی اولین کتاب ہے۔ ان کی دیگر غیر مجموعہ کتب میں ذوق و شوق ( شعری مجموعہ ) ، کوٹ ادو کے نعت گو شاعر اور فیض چشتیائی شامل ہیں ۔ آج کل نعت گو کی سے وابستہ ہیں۔ نعتوں پر مشتمل ان کی کتاب اشاعت کے آخری مراحل میں ہے [102]۔

عارف ملک ۔ ادیب

ادیب اور لکھاری عارف ملک کا تعلق علی پور کی بستی کا رچ والا سے ہے۔ 11 اگست 1986 ء کو پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم علی پور سے حاصل کی ۔ بہاؤ الدین زکریا یونیورسٹی سے ایم اے (سرائیکی ) کا امتحان پاس کیا ۔ عارف ملک کو اپنی مٹی اور وسیب سے محبت ہے۔ وسیب کے مسائل پر لکھتے رہتے ہیں ۔ اب تک کئی کتابیں لکھ چکے ہیں ان میں تاریخ علی پور اور صحرا کے پھول شامل ہیں۔ تاریخ علی پور میں علی پور کی تاریخ، ثقافت ،قصبوں اور شخصیات کا احاطہ کیا گیا ہے جبکہ صحرا کے پھول مظفر گڑھ کی نامور شخصیات کے حیات زندگی کے احوال پر مشتمل ہے ۔ آج مختلف اخبارات اور رسائل میں مضامین اور کالم لکھتے ہیں [103]۔

تحسین سبائے والوی ۔ سرائیکی کے پہلے افسانہ نگار

سرائیکی کے پہلے افسانہ نگارمحمد اقبال تحسین جنوری 1943ء کو سرائیکی کے عظیم شاعر خدا بخش عبرت کے گھر سبائے والا ( علی پور) میں پیدا ہوئے ۔ ابتدائی تعلیم احمد پور شرقیہ سے بدل علی پور اور میٹرک جتوئی سے کی ۔انٹر گورنمنٹ کالج علی پورے کر کے محکمہ صحت میں بھرتی ہوئے۔ 1970ء میں ملازمت چھوڑ کر کراچی چلے گئے ۔ واپس آکر 1974ء میں بہبود آبادی میں اسٹنٹ بھرتی ہوئے ۔ آپ سرائیکی زبان کے شاعر اور عظیم افسانہ نگار تھے۔ سرائیکی زبان کا سب سے پہلا مطبوعہ افسانہ "شہید” لکھنے کا اعزاز تحسین کو حاصل ہے جو 1967ء میں رسالہ سہ ماہی سرائیکی بہاولپور میں شائع ہوا۔ اس کے علاوہ آپ کے دیگر اہم سرائیکی افسانوں میں سہارا ، رقیب ، ہک ہیرا تیک پھر ، قیدی ، روزی رازق ڈیندا اے، بھلی کا ، وعدہ ، وہ کون ہئی اور ڈو بھی کندھی شامل ہیں [104]۔

فیض بلوچ ۔ شاعر ، ادیب اور افسانہ نگار

سرائیکی زبان کے شاعر ، ادیب اور افسانہ نگار فیض بلوچ کا تعلق کوٹ ادو کے معروف تاریخی قصبے نورشاہ ملائی کی چاند یہ برادری سے ہے۔ نورشاہ تلائی تھل میں آباد ایک تہذیبی اور ثقافتی قصبہ ہے۔ آپ 1941ء میں شیر محمد چانڈیہ کے گھر موضع نور شاہ تلائی میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم نورشاہ تلائی سے حاصل کی ۔ سنانواں میں حافظ شیر محمدقریشی کے پاس حفظ قرآن کی تعلیم مکمل کی۔ 1958ء میں راجن پور کے مرکز العلوم میں مولا نا محد عبد اللہ سے عربی گرائمر اور حرف ونحو کی تعلیم مکمل کی۔ آپ نے تجوید و قرآت کا چار سالہ کورس جامعہ موسیہ ملتان سے مکمل کیا ۔ مگر کچھ عرصہ تدریس سے وابستہ رہنے کے بعد بطور مدرس استعفی دیگر دیگر کاموں کی طرف راغب ہوئے ۔ فرنیچر بنانے کا فن سیکھا۔ اسی دوران واحد بخش خان ، غلام صادق خان ( مشوری برادران ) اور غلام قادر کبڑا جیسے خوش البان قصہ گو دوستوں کی صحبت میسر آئی ۔ جو گھڑا بجا کر لوگوں کی شادی بیاہ اور میلوں میں قصہ یوسف علیہ السلام اور ہیر غافل سناتے تھے ۔ فیض بلوچ نے اپنے چا پہلوان خان اور چھوٹے بھائی سونہا را خان کے ساتھ ملکر گھڑے کی خوبصورت موسیقی پر منظوم قصے کہانیاں سنانے کا کام جاری رکھا۔ ان کی شہرت دور دور تک پھیل گئی ۔ گھڑا بجا کر گانے اور داستان گوئی کا یہ فین اب ختم ہوتا جارہا ہے۔ 1970ء سے شاعری کا آغاز کیا شاعری میں اقبال سوکڑی ان کے استاد ہیں۔ 1980ء میں فیض بلوچ بسلسلہ روزگار ملتان رہائش پذیر ہوئے۔ اس دوران انھیں اسد ملتانی، اللہ بخش یاد، مشکور قطب پوری اور سجاد حیدر پرویز جیسے ادب نواز دوستوں کی صحبت میسر آئی ۔

1997ء میں ملتان میں ادبی تنظیم مشغل ادب کی بنیاد رکھی ۔ شاعری میں ان کی کتب زلفیں دی قید ہتھل دی تس پھل واس اور تھل دی ڈات شامل ہیں اس کے علاوہ والدی ڈھلدی چھاں اور پکھی واس ان کے سرائیکی افسانوں کے مجموعے شائع ہو چکے ہیں۔ 28 سال تک ملتان میں قیام کے بعد 2008ء میں فیض بلوچ اپنے علاقے نور شاہ تلائی تشریف لے گئے ۔ 2008ء میں نور شاہ تلائی میں بزم فیض بلوچ کی بنیاد رکھی [105]۔

سیرت نگا۔ منیر ملک ( اوڈھانی )

سیرت نگار لکھاری اور محقق منیر ملک کا تعلق مظفر گڑھ کے ایک گاؤں آلودے والی سے ہے ان کا تعلق علمی دارد بی گھرانے سے ہے ان کے دادا مولوی نور الدین مسکین اپنے دور کے بڑے مایہ ناز سرائیکی شاعر اور صوفی بزرگ تھے ۔ آپ 1942ء کومحمد ابراہیم اوڑھانی کے گھر پیدا ہوئے ۔ ابتدائی تعلیم آلود ے والی اور روہیلا نوالی سے حاصل کی ۔ 1957ء میں میٹرک کا امتحان گورنمنٹ ہائی سکول مظفر گڑھ سے پاس کیا ۔ اسلامیہ کالج ملتان سے انٹر کیا جبکہ گر کی ایشن گورنمنٹ کالج مظفر گڑھ سے کی ۔ 1962ء میں بی ایڈ کی ڈگری بہاولپور سے حاصل کی ۔ 1963ء میں بطور مدرس محلہ تعلیم میں شمولیت اختیار کی ۔ 31 دسمبر 2001ء کو بطور ہیڈ ماسٹر ریٹائرڈ ہوئے ۔ آپ ایک مایہ ناز سیرت نگار ہیں آپ کو پیارے نبی ملا ل ی م س حددرجہ عقیدت و محبت ہے۔ جس کی جھلکیاں ان کی تمام تصانیف میں نظر آتی ہیں ۔

 

نوٹ: مضمون محمد شہزاد کی کتاب "سر زمین مظفرگڑھ” سے لیا گیاہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button

For copy this text contact us :thalochinews@gmail.com