مظفر گڑھ: کے سرائیکی شعرا
سرزمین مظفر گڑھ میں سرائیکی شاعری کی روایت بہت قدیم ہے۔ سینکڑوں برسوں سے یہاں شعرا اپنا کلام سناتے رہے ہیں اس میں سے کچھ سینہ بہ سینہ ہم تک پہنچا ہے بہت سے شعرا کا کلام اور تذکرہ ریکارڈ ہی نہیں ہو سکا۔ کیونکہ اس وقت لکھنے پڑھنے کی سہولیات نہیں تھیں اب تک صرف انیسویں اور بیسویں صدی کے شعرا کا کچھ کلام ہم تک پہنچ سکا ہے۔ یہ ایک دلچسپ حقیقت ہے کہ پاکستان بننے سے پہلے سرائیکی شاعری کے موضوعات اور تھے مگر پاکستان بننے کے بعد موضوعات یکسر بدل گئے ہیں پاکستان بننے سے پہلے ہر شاعر قصہ ہیر رانجھا ، سی پنوں اور سونی ماہیوال سمیت اسی قسم کے قصے لکھتا تھا۔ ہر پرانے شاعر نے ان عشقیہ داستانوں کے حوالے سے طبع آزمائی کی ہے ۔ اس کے علاوہ نعتیہ شاعری بھی لکھی جاتی تھی ۔ قیام پاکستان بننے کے بعد سرائیکی شاعری کے موضوعات بدلنا شروع ہوئے اب تمام سرائیکی شعرا وسیب کی محرومی ، پسماندگی ، غربت، سرائیکی تحریک ،سرائیکی پہچان اور سرائیکی صوبے جیسے موضوعات پر شاعری کرتے نظر آتے ہیں۔
مولوی جند وڈا ۔۔۔ سیت پور:
سلطان محمود عرف جندوڈا 1774ء میں پیدا ہوئے ۔ رانی پور (سندھ) کے کلہوڑا خاندان سے تعلق تھا ۔ مگر ان کے والد سیت پور رہائش پذیر ہو گئے تھے ۔ بابا فرید گنج شکر کے خاندان کے مرید تھے انھوں نے سیت پور آکر شاہی مسجد کو آباد کیا۔ آپ نے ابتدائی تعلیم مولانا عبد الغفور سندھی سے حاصل کی۔ خواجہ تاج محمد کوریجہ (شیدانی ) کے مرید اور خلیفہ تھے ۔ 12 سال تک مدینہ میں تدرس کے شعبہ سے منسلک رہے۔ آپ سرائیکی کے قادر الکلام شاعر تھے عربی زبان میں کئی کتب تحریر کیں ۔ آپ نے فارسی زبان میں بھی شاعری کی ۔ آپ 1881ء میں فوت ہوئے [1]۔
نواز سیت پوری:
1811ء میں گوپانگ خاندان میں پیدا ہوئے ۔ مڈل پاس کر کے محکمہ تعلیم سے منسلک ہوئے ۔ سیت پور ، جتوئی کوٹ ادو اور بندہ اسحاق کے مڈل سکولوں کے ہیڈ ماسٹر رہے ۔ بندہ اسحاق میں قیام (25-1923ء) کے دوران محمد حسین ناز نے انھیں اپنی ادبی مجلس کا نائب صدر بنادیا۔ عوامی شاعر تھے۔ سرائیکی مشاعروں اور میلوں ٹھیلوں میں شرکت کر کے عوام کو اپنا کلام سناتے تھے ۔ شاعری میں مولوی صفدر سے اصلاح لی۔ یتیم جتوئی ان کے شاگرد تھے ۔ سرائیکی زبان کے نامور شاعر ہو گزرے ہیں مگر ان کا بہت سا کلام شائع نہ ہونے کی وجہ سے ضائع ہو گیا ہے ۔ کچھ کلام ان کے بیٹے منظور الحسن کے پاس تھا۔ ان کی کتابوں میں گزار الشہادتین ( مرثیہ )، رسالہ کاشف الراز ، قصہ شاہ سیفل ، شکوہ جواب شکوہ ( منظوم سرائیکی ترجمہ ) [2] نمونہ کلام
مه رخ مہ متوالا مدنی مانیں ماہ منور
ملک ملوک ملائک مرسل ، وا ہے مولا مغفر
مسجد مہر دا مالک کلی ، کیا محراب تے منبر
مثل مسیحا مرد معظم موئے موڑے اکثر
محسن منبع مہر محبت میم محمد مظہر
من موہن من ٹھار مزین، نیا قلم دا مصدر
ملجا ماوی مست ملنگ موالی مومن صفطر
نورالدین مسکین ۔ ۔ ۔ آلو دے والی:
مولوی نور الدین مسکین روہیلانوالی کے نزدیک 1845ء میں اوڑھانی خاندان میں پیدا ہوئے ۔ آپ کے والد حافظ محمد عمر بھی عالم دین تھے۔ ابتدائی تعلیم گاؤں کے مدرسے سے حاصل کی ۔ آپ شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ جید عالم دین تھے۔ خواجہ غلام فرید مٹھن کوٹی کے ہم عصر اور ان کے گہرے دوست تھے ۔ آپ عالم با عمل متقی اور عظیم صوفی بزرگ تھے ۔ شاندار مقرر اور مبلغ دین تھے ۔ آپ کے قصہ سسی پنوں ، قصہ ہیر رانجھا، سہ حرفی ڈھولا اور طوطا نامہ مشہور ہیں [3] ۔ نمونہ کلام
الف آن رہی ساڈا دوست ولیس دا
مرسل میر محمد بانکا عرش بریں دا
حامی روز ندم دا مانا کل مذنبین دا
خاصا کیا ٹولہ نورالدین مسکین را
دلورام موجی ۔۔۔سرائیکی کے مزاحیہ شاعر:
1860ء میں خیر پور سادات میں پیدا ہوئے۔ سرائیکی کے عظیم شاعر تھے ۔ ان کی مشہور سرائیکی تصانیف میں موجی دا پیسہ، غافل سیٹھ تے نمک حرام نوکر اور قصہ نونہ کس مشہور ہیں ۔ آپ نے حضرت امام حسین کی شہادت کے حوالے سے مر جمے بھی لکھے۔ 1923ء میں خیر پور میں انتقال ہوا [4] نمونہ کلام
غافل سیٹھ سے نمک حرام نوکر ( ٹالو، بالو )
ٹالو با لو تھئے بھا ئیوال ۔ بیٹھے ساری بڑی گال
مہینہ کھن بچیندے رہ گئے ۔ حال احوال و ڈیندے رہ گئے
انھیں روز کریندے رہ گئے۔ مکیاں گا ھیں اپنے گیا جال
ٹالو با لو تھئے بھائیوال (ڈوڈ رانیاں واجیرا)
ڈیکھو کیا زمانہ آئے ۔ بے شرمی دی ہوگئی طے
ہر ویلے جھگڑے لاون ڈرانیاں
چاہے ہو ون ڈھیر سیانیاں
بھانڈے پھوڑن تروژن تا نیاں
اجڑ گیا کوں کون وسائے
ڈیکھو کیا زمانہ آئے
خادم مکھن بیلوی۔۔۔ ہیر خادم کے خالق:
1860ء میں بندہ اسحاق کے قریب مکھن بیلہ میں پیدا ہوئے ۔ جلال پور پیر والا سے ابتدائی تعلیم حاصل کی۔ والد معمولی کسان تھے ۔ والد کے انتقال پر کاشت کاری شروع کی ۔ بندہ اسحاق کے زمیندار میاں محمد حسین ناز سے گہری دوستی تھی ۔ ان کی محبت کی وجہ سے شیعہ مسلک اختیار کیا، ذاکری شروع کی تھیٹر کمپنی بھی بنائی ۔ کچھ عرصہ دائرہ دین پناہ میں ایک جائیداد کے منیجر بھی رہے۔
سرائیکی زبان کے عظیم شاعر تھے خادم کی لکھی ہیر خادم مکھن بیلوی کا بڑا چہ چہ ہے۔ میاں محمدحسین ناز کی فرمائش پر مولوی لطف علی کے سیفل نامہ کی بحر میں ہیر لکھی۔ سرائیکی زبان میں لکھی گئی ہیر میں خادم کی ہیر سرتاج ہے [5]۔ دیگر تصانیف میں گلزار مدینہ اور بہار مدینہ نعتوں کے مجموعے اور قصہ کسی پنوں شامل ہیں ۔ خادم کی کافی اج لڑ گئے دلدار دلیں دئے بہت مشہور ہے۔ نمونہ کلام
اے دلربا، ماہ لقا تشریف لا، توڑے جھٹ دا جھٹ
حلقے چھاں پنجاب وچ آ پیر پا، توڑے جھٹ دا جھٹ
اے گل رخا کھڑا ڈکھا، نہ دل سکا، نہ ہن کہا
سٹ گھت خفا، بهر خدا، خادم بنا، توڑے جھٹ دا جھٹ
احمد بخش بانہا۔ بندہ اسحاق:
1866ء میں بندہ اسحاق کے نزدیک بستی گانگ میں پیدا ہوئے ان پڑھ تھے مگر عربی ، فاری ، اردو اور سرائیکی پر عبور تھا۔ ان کا سارا علم غیر مکتبی تھا۔ کہتے ہیں کہ جوانی میں بانہا مویشی چور تھا ۔ ایک رات گائے چوری کر کے دریائے چناب پار کرنے کی کوشش کی مگر تین مرتبہ دریا نے اسی کنارے پر لا پھینکا بس اسی رات بانہا نے چوری چکاری سے تو بہ کر لی اور مستاجری پر زمین کاشت کرنے لگے۔ بانہا سرائیکی کا نامور شاعر ہوگزرا ہے۔ انہوں نے قصہ سی پنوں منظوم لکھا، ڈوہڑے اور کافیاں لکھیں۔ اس دور میں بندہ اسحاق کے آس پاس لوگوں کو ان کا کلام زبانی یاد تھا۔ اب دستیاب نہیں ہے [6] نمونہ کلام
واہ دلڑی دلبر نال اڑی ہئی ۔ جیں ڈینہہ کن کنز اوچ
کچھے استی بانگ سٹیم پڑھ صلوات دہن وچ
حسن ماہی دے ضرب چلائی ۔ جر در تن وچ
ققنس وانگوں فغوں فریادی ۔ جھڑک لگی اگ تن وچ
بانہا ہند پنجاب جلیند ہیں ۔ میڈا سوہنا صاحب مدن وچ
(لنس ایک خیالی پرندہ ہے جو جوانی میں گھونسلہ بناتا ہے۔ دیپک راگ گا تا ہے تو اس کے جسم کو آگ لگ جاتی ہے گھونسلہ اور خود دونوں جل جاتے ہیں۔ ملھار مینہ میں دوبارہ پیدا ہوتا ہے اور یہ سلسلہ جاری رہتا ہے)۔
احمد بخش غافل – ( قصبه گورمانی):
احمد بخش قوم گورا یہ قصبہ گورمانی کے ایک معمولی گھرانے میں 1870ء میں پیدا ہوئے ۔ ابتدائی تعلیم قصبہ گورمانی سے حاصل کی ۔ ڈیرہ غازی خان کے ایک مدرسے سے فارسی اور عربی علوم سیکھے ۔ واپسی پر ریلوے میں بطور مزدور شامل ہوئے ۔ اسی دوران جنگ عظیم اول میں جبری فوجی بھرتی شروع ہوئی ڈر کے مارے غافل جنگل میں چھپ گئے ۔ مصطفیٰ کھر کے دادا ملک فتح محمد کھر اپنے گاؤں لے گئے اور ان سے کنواں کھدوایا تب سے کنواں کھود نے کے فن سے وابستہ ہوئے اور علاقے میں احمد بخش ٹو بہ کے نام سے مشہور ہوئے ۔ قصبہ گورمانی کے ایک ہندو حکومت رائے سے علوم کا تبادلہ کیا ۔ دس سال لالہ حکومت رائے کو قرآن پاک اور اسلامی علوم سکھائے ۔ اس کے بدلے لالہ حکومت رائے ان کو سومنات اور ہری دوار برہمن کے بھیس میں ساتھ لے گیا۔ ہندوؤں پنڈتوں سے علمی میانئے کرتا رہا۔ مگر لالہ حکومت رائے مسلمان ہوا نہ غافل ہندو ہوا ۔ غافل کا تخلص سیرانی بھی ہے۔ اپنے زمانے میں سرائیکی وسیب میں ہر میلے ٹھیلے اور مشاعرے میں غافل کو بلایا جاتا تھا لوگ اس سے اس کا لکھا قصہ ہیر رانجھا، قصہ سی پنوں، سوہنی ماہیوال سنے کی فرمائش کرتے [7]۔
1940ء کے بعد شاعری میں مذہبی رنگ غالب آگیا اور بدعتوں کے خلاف قلمی جہاد کیا۔ ان کی مشہور نظموں میں چوتھ خلیفہ سیر حلال بھو پا پیر پیر شکری، بدعتی ملاں معراج رسول اور یا ثبوت کئی بار شائع ہوئیں اور ہاتھوں ہاتھ لی گئیں ۔ 1960ء میں 90 سال کی عمر میں غافل کا انتقال ہوا ۔ نمونہ کلام
پہلو ہیر آئی ، دل کسی آئی ، پچھے آئی سوہنی گجرات والی
سنگ عاشقاں دا اکٹھا آن ہو یا ، اوہ رات آئی ملاقات والی
جے سک ملن دی ہووی ڈساں پتہ نشانی
چوی کوه ملتان دے لہندے ہے شہر گورمانی
خاص نکانہ ہم اتھا میں جے کرے قسمت آنی
اصلی ذات گوراہا ٹوبہ احمد بخش سیرانی
محمد حسین ناز ۔ بندہ اسحاق:
1871ء میں بندہ اسحاق میں میاں عمر وڈا چھجڑہ کے گھر پیدا ہوئے ۔ ڈھائی سال کے تھے کہ والد کا سایہ سر سے اٹھ گیا ۔ ابتدائی تعلیم میاں جی علی محمد سے حاصل کی اور اردو، فارسی اور عربی میں مہارت حاصل کی ۔ آپ دو مواضعات بندہ اسحاق اور فیض پور کے نمبردار اور ڈسٹرکٹ بورڈ کے ممبر تھے [8]۔
خوبرو اور تنومند تھے ۔ شاعر تھے۔ سیاحت کا شوق تھا۔ مہمان نواز اور سخی تھے ۔ پورے ہندوستان کی سیاحت کی ۔ گرمی کے موسم میں صحت افزا مقامات پر چلے جاتے تھے۔ ان کے باورچی اتر پردیش اور دہلی کے ہوتے تھے ۔ چار شادیاں کیں ۔ چوتھی بیوی کو ئٹہ کے ہزارہ خاندان سے تھی اور عربی وفاری کی عالمہ وفاضلہ تھیں ۔ اس کے ساتھ علمی مباحثوں کے بعد شیعہ مسلک اختیار کیا۔ ان کے زمانے میں بندہ اسحاق شعر وسخن کا بڑا مرکز بن گیا ۔ آپ شاعر اور ادب نواز تھے۔
خادم مکھن بیلوی سے قصہ ہیر رانجھا لکھوایا۔ محمد بخش نوروز بہاولپوری ،مولوی چراغ دین ، نواز سیت پوری ، حاجی برخودار وفا، اتم چند سادھو، احمد بخش بانہا اور دیگر کئی بڑے شاعر بندہ اسحاق تشریف لاتے اور آپ کے پاس کئی کئی دن قیام کرتے تھے انہوں نے ادبی سنگت قائم کی۔ پہلے پہر زمیندارہ کرتے اور پچھلے پہر ادبی نشست ہوتی تھی ۔ آپ 8 مئی 1936ء کو اللہ کو پیارے ہوئے [9]۔
درد فراق کنوں وچ تھل دے کر کر رہیاں ہوئے ، منڈھ دی تر وئے
وس لاون جاؤ میں ، تھئے لنگ باز د کچھ ٹوٹے ، منڈھ دی تر وئے
نازکسی کوں وسدے جگ وچ رہی ہو تل دی اوئے ، منڈھ دی تر وئے
ان کی وفات پر خادم مکھن بیلوی نے ان کو یوں خراج تحسین پیش کیا تھا۔
دانا دور د ہر دا ۔ عالم ہنر دا
گاہک ہر جو ہر دا محرم راز دلاں دا
محمد حسین بھی دے، پڑھدی خلق قصیدے
چارے پہر خوشی دے، ہر کوئی گاون گاندا
سرائیکی کے شاعر انقلاب ۔ ۔ غلام حیدر یتیم جتوئی:
قیم جتوئی کا اصل نام غلام حیدر خان جتوئی تھا۔ شاعری میں یتیم تخلص کرتے تھے ۔ انہیں سرائیکی کا شاعر انقلاب کہا جاتا ہے جبکہ انہیں فروری ملتان کا خطاب بھی دیا گیا تھا۔ سرائیکی کے عظیم شاعر 1894ء میں جتوئی میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم جتوئی سے حاصل کی۔ پہلی جنگ عظیم میں فوج میں بھرتی ہوئے ۔ فوج چھوڑ کر 1922ء میں الیں۔ دی کا امتحان پاس کر کے تعلیم کے شعبہ سے وابستہ ہوئے ۔ کاشتکاری بھی کرتے تھے۔ سردار نصر اللہ جتوئی کے گہرے دوست اور ان کی جائیداد کے مختار عام رہے۔ خود بھی زمیندار تھے ڈسٹرکٹ بورڈ کے ممبر اور سہائے والا کے چیئر مین یونین کونسل رہے ۔ آپ نے تحریک آزادی کے متعلق نظمیں لکھیں ۔ آپ ۔ آپ کا پہلا شعری مجموعه در یتیم سرائیکی اکیڈی ملتان نے 1967ء میں شائع کیا۔ ان کی شاعری اسلامیہ یونیورٹی بہاولپو اور بہاؤالدین زکریا ای خورشی ملتان کے ایم اے سرائیکی کے نصاب میں شامل ہے۔ آپ کی ان خدمات کے اعتراف میں اہل مظفر گڑھ نے آپ کو ستارہ مظفر گڑھ 2019ء میں دیا۔ چڑی دا گھر اور نکیاں بالڑیاں ان کی مشہور نظمیں ہیں ۔ 22 اپریل 1972ء کواللہ کو پیارے ہوئے [10]۔
عاصی کرنالی نے ان کو یوں خراج تحسین پیش کیا۔ نمونه کلام
فن ترا برائے زندگی ہے۔ تخلیق زبان سے بولتی ہے
ہے در یتیم ترا ہر شعر ۔ دل ترا وہ بحر شاعری ہے
نمونه کلام
چن کجھ دیالا ٹاں ہک پاسے ۔ تیڈا جھاتی پاون ہک پاسے
کوہ طور دی بجلی بک پاسے ۔ تیڈا مکھ مرکاون ہک پاسے
یعقوب دا یوسف یک پاسے ۔ تیڈا ناز ڈکھا ون بک پاسے
ڈینہہ سخت قیامت ہک پاسے ۔ تیڈا کجلا پاون بک پاسے
منصور دی سولی یک پاسے ۔ تیڈا زلف کھنڈاون یک پاسے
فریاد یتیم دی ہک پاسے . ۔ تیڈا ظلم کماون بک پاسے
جانباز جتوئی۔۔۔صدارتی ایوارڈ یافتہ:
جانباز جتوئی (سردار غلام رسول خان جتوئی میں سردار نصرت علی خان کے گھر 1918ء میں پیدا ہوئے۔ دادا سردار غلام رسول خان سولہ ہزار ایکڑ اراضی کے مالک اور بڑے جاگیردار تھے۔ آپ ابھی چار برس کے تھے کہ آپ والدہ کی محبت سے محروم ہو گئے ۔ ازاں بعد نانی نے پرورش کا بیڑا اٹھا، اس دوران میں آپ کے والد سردار نصرت علی خان نے بیٹے کو اپنے ساتھ لیجانے کی کوشش کی مگر آپ کی نانی نے سوتیلی ماؤں سے بھرے گھر میں اپنے نواسے کا رہنا مناسب نہ سمجھا۔ کچھ عرصہ بعد آپ کے والد اور نانی اماں بھی دار فانی سے کوچ کر گئے ۔ لہذار یکیں گھرانے کا چشم و چراغ اورچ کی تنگ و تاریک گلیوں اور ایک چھوٹے سے مکان میں سن بلوغت کو پہنچنے سے پہلے تمہارہ گیا۔ جانباز جتوئی کیلئے زندگی کے وہ دن بہت مایوس کن تھے۔ اوچ شریف کے علاوہ لاہور اور اجمیر شریف تک مزدوریاں کیں۔ یوں بڑے باپ کا بیٹا مصائب کی چکی پیتا رہا۔ جانباز جتوئی نے ابتدائی تعلیم گورنمنٹ مڈل سکول سیت پور سے حاصل کی۔ آپ اوائل عمر میں ہی شعر وادب کی طرف راغب تھے ، آپ کے سکول کے ہیڈ ماسٹرمحمد نواز خان نواز نے شعر و ادب میں آپ کی اصلاح کے فرائض انجام دیئے ۔ جانباز جتوئی ایک قادر الکلام شاعر تھے ۔ وسیب کے مسائل اور معاشرے کی تلخیاں آپ کی شاعری کے خاص موضوعات تھے [11]۔
اردا ساں ، تنواراں، ہواڑاں اور مشہور مثنوی کسی شائع ہو چکے ہیں ، گستاخی معاف محبوب رب دا، کوڑے گھٹ ، مرثیہ امام حسین اور دیوان جانباز تا حال غیر مطبوعہ صورت میں محفوظ ہیں۔ 23 مارچ 1994 ء کو حکومت پاکستان کی جانب سے جانباز جتوئی کی ادبی خدمات کے پیش نظر انہیں صدارتی ایوارڈ برائے حسن کارکردگی سے نوازا گیا۔ جانباز جتوئی پھیپھڑوں کے کینسر کا شکار تھے ۔ 17 دسمبر 1994ء کو سانس کی تکلیف اتنی بڑھی کہ نشتر ہسپتال ملتان کے گیٹ پر ہی دم توڑ گئے۔ نمونہ کلام
توں رہتے پچھد میں ول ول کیا سرکار محمد عربی دے
خود آپ خداوند خالق من حب دار محمد عربی دے
خلد بریں دے ہور ملک جاں خوش تھی تے رل گاندے ہن
سن سہرے بہوں مسرور تھیندے رب یار محمد عربی دے
گیا موسیٰ پاک کلیم اللہ جو گھن تے نال صحابیں کوں
کوہ طور اتے ونج ڈٹھے ہن انوار محمد عربی دے
نذرحسین ارشاد جھنڈیر ۔ فردوسی پاکستان:
بابا نذرحسین ارشاد جھنڈ پر سرائیکی کے مشہور شاعر اور ذاکر تھے ۔ آپ 1914ء کو جھنڈ پر آباد کوٹ ادو میں پیدا ہوئے۔ معمولی تعلیم حاصل کی ۔ بچپن سے شاعری کا شوق تھا۔ سرائیکی مرثیہ نگاری میں آپ کو اونچا مقام حاصل ہے۔ سرائیکی کافیاں بھی لکھیں ۔ نذرحسین ارشاد نے بہت ساری دعائیں ، خطبات اور اقوال کو سرائیکی اشعار کی صورت میں لکھا۔ سرائیکی مرثیہ نگاری کو بام عروج پر پہنچانے کی وجہ سے انھیں فردوی پاکستان کہا جاتا ہے [12]۔
نمونہ کلام
انا اعطینک الکوثر نے ول یسین وی میں ہاں
یسین و چالے خاصہ لفظ مبین وی میں ہاں
ہاں جل اللہ دا معنی میں ۔ تے جبل متین وی میں ہاں
جیدی وحدت قسم اٹھائی۔ اور یتون تے تین وی میں ہاں
مرید حسین را ز جتوئی ۔ مفکر وسیب:
سرائیکی کے شاعر، مصنف اور قوم پرست رہنمار از جتوئی جن کا اصل نام مرید حسین خان ہے۔ مرید حسین راز جتوئی 1917ء کو ضلع مظفر گڑھ کے قصبہ جتوئی میں پیدا ہوئے ۔ ابتدائی تعلیم جتوئی سے حاصل کی نجی اداروں میں ملازمت کرتے رہے ۔ والد کی وفات کے بعد اپنے بڑے بھائی کے پاس ریاست بہاولپور کے شہر خانپور منتقل ہوئے اور ساری زندگی و ہیں گزار دی [13]۔
مرید حسین راز جتوئی کو مفکر وسیب کہتے ہیں۔ آپ سرائیکی زبان کے مشہور شاعر اور نثر نگار ہیں ۔ آپ کی کئی تحریریں شائع ہوئیں ۔ آج کل ان کے بیٹے مجاہد جتوئی بھی سرائیکی دانشور لکھاری ہیں اور کئی کتابوں کے مصنف ہیں۔ نمونہ کلام
نہ میں شاعر نہ ادیب ۔ درد قومی تھئے نصیب
ایہو درد لکھیندا راہنداں ۔ ستے لوک جگیندا را ہنداں
عاشق حسین عاشق کھنڈویہ:
1921ء کو مولوی نبی بخش کے گھر بستی کھنڈویہ ( محمود کوٹ) میں پیدا ہوئے ۔ ابتدائی تعلیم والد سے حاصل کی ۔ والد سے عربی ، فارسی اور قرآن پاک کی تعلیم حاصل کی ۔ 7 سال کی عمر میں گلستان اور بوستان زبانی یاد تھی ۔ دو جماعت پرائمری تعلیم بھی حاصل کی غربت کی وجہ سے آگے تعلیم حاصل نہ کر سکے ۔ پیشہ کاشت کاری تھا ۔ کچھ عرصہ بطور طبیب بھی کام کیا [14]۔ ساٹھ کی دہائی میں مظفر گڑھ کینال بننے سے ان کی زمین سیم و تھور کا شکار ہوگئی اور انھیں تنگ دستی کا سامنا کرنا پڑا۔ آپ سرائیکی زبان کے عظیم شاعر اور نثر نگار تھے۔ غربت کے باوجود مہمان نواز تھے ۔
صاف ستھرا لباس پہنتے تھے اور سر پر پگڑی باندھتے تھے ان کے ہاں ہمیشہ ادبی محفلیں منعقد ہو تیں تھیں جن میں علاقہ کے بڑے لوگ اور ادبی شخصیات شریک ہوتی تھیں۔ دین محمد پتانی ، عاشق خان کشکوری ، مہر عطا محد کلاسرا ، رائے غلام حسین پر ہاڑ ہنٹی نور محمد بھٹہ اور غلام حسین چانڈیہ ان کی محفلوں میں رونق افروز ہوتے تھے۔ بہت کم عمری میں شاعری شروع کی۔ فارسی میں بھی نظمیں لکھیں۔ ادبی لحاظ سے نذرحسین ارشاد جھنڈ پر اور صوفی بزرگ سید چراغ علی شاہ آزاد سے قریبی تعلق رہا۔ انھیں فی البدیہ شعر کہنے پر ملکہ حاصل تھا۔ شاعری میں ان کی کتاب بے پرواہ نال گال مہاڑ 1996ء میں شائع ہوئی [15] نمونہ کلام
میڈا ماہ رو ماہی سیب ذقن سلطان حسن داشاہا
تیڈی زلف دی زینت زیباتے کھڑا یوسف آکھے آہا
ودے مصری دست بریدہ آکھن ماہ کنعانی کیا با
تھے عاشق زحل ، مریخ ، عطا رونٹس ،قمر بھاویں ماہا
ایم بی اشرف ۔ ۔ مظفر گڑھ کا عظیم قصہ گو اور شاعر:
ایم بی اشرف سے تعارف ریڈیو پاکستان ملتان سے ہوا۔ اسی اور نوے کی دہائی میں ان کے قصے ریڈ یو متان سے نشر ہوتے تھے ۔ رات کے پروگرام جمہوری آواز میں ہفتے میں ایک دن ان کا قصہ نشر ہوتا تھا۔ قصے ، داستان اور ماضی کے سنہرے واقعات کے پسند نہیں ہیں۔ مگر ایم بی اشرف جس خوبصورتی سے میٹھی سرائیکی زبان اور دلکش انداز میں قصے بیان کرتے وہ اپنی مثال آپ تھے ۔ ایم بی اشرف قصہ گوئی کے فن کے بے تاج بادشاہ تھے ۔ قصے سے پہلے جو منڈھ (ابتدائیہ ) باندھتے تھے وہ کمال کا ہوتا تھا۔
انداز ایسے دل میں اترنے والا تھا کہ ایک بار ان کا قصہ سننے کے بعد وہ ہمیں زبانی یاد ہو جاتا تھا۔ دنیا کی میٹھی زبان سرائیکی اور ایم بی اشرف کا میٹھا بہن بھاتا اور روائتی خالص دیہاتی لہجہ ان کی داستان گوئی کو چار چاند لگا دیتا تھا۔ ہر مرتبہ ہر قصے سے پہلے ابتدائیہ مختلف اور بڑا دلچسپ ہوتا تھا ۔ جب ہوا کی لہروں پر ان کی خوبصورت آواز گونجتی تو پورے وسیب کو سحر زدہ کر دیتی تھی ۔ وہ قصے کے شروع میں یوں گویا ہوتے (وہ واہ واہ اے سے آغاز کرتے تھے۔ اور جب قصہ ختم کرتے تو لوگ واہ واہ کر اٹھتے ) ۔ اب نہ ایم بی اشرف رہے نہ وہ قصے سنانے کی پرانی روایت رہی نہ وہ سننے والے لوگ رہے۔
افسوس کے ریڈیو ملتان کے حکام کی بے حسی کہ اس عظیم ورثے کو محفوظ نہ کر سکے آج ریڈیو ملتان کے پاس ان کے قصوں کی ریکارڈ دستیاب نہیں ہے مگر ایم بی اشرف نے اپنی زندگی میں ان تمام قصوں ، داستانوں کو جمع کر کے کتاب کی صورت میں شائع کر دیا تھا اگر چہ قصوں کی کتاب نایاب ہے مگر کچھ دوستوں کے پاس محفوظ ہے ۔ اس کتاب کا نام بھی بہت خوبصورت ہے بادشاہ آپ اللہ یہ فخر اور اعزاز کی بات ہے کہ ایم بی اشرف کا تعلق مظفر گڑھ سے تھا۔ مجھے ان سے ملنے اور ان سے شاعری سننے کا اتفاق ہوا ۔ روز نامہ جلوس مظفر گڑھ کے دفتر میں اے بی مجاہد صاحب کے پاس اکثر تشریف لاتے تھے ۔ کمال کے قصہ گو اور شاعر تھے ۔ انہوں نے وسیب کے دکھ درد اور محرومی کو اپنی شاعری میں بیان کیا۔
ایم بی اشرف نے بادشاہ آپ اللہ کے علاوہ بھی مقامی قصوں اور داستانوں کی 5 کتابیں ترتیب دی تھیں۔ ان میں پہا کہ کہانی ٹوٹے زمین دا بادشاہ ، چھام چھام چھام، کویلی تی پی اے اور دوسہ جن شامل ہیں مگر یہ شائع نہیں ہوسکیں [16]۔
ایم بی اشرف قصبہ گجرات کے قریب ایک گاؤں میں پیدا ہوئے ۔ ابتدائی تعلیم وہیں سے حاصل کی ۔ بطور استاد مکہ تعلیم میں اپنے کیریز کا آغاز کیا۔ ساری زندگی اسی پیشے سے وابستہ رہے ساتھ ساتھ شاعری ، داستانی گوئی اور ادبی سرگرمیاں بھی جاری رہیں۔ سرکاری ملازمت سے ریٹائرمنٹ لے لی ۔ ریٹائرمنٹ کے بعد مظفر گڑھ شہر میں قیام پذیر ہے ۔ [17] نمونہ کلام
پاکستان دا حسن ہنڑھپ کے بیڑا ، سرخی پان
کچھی، بنی، روہی، رادا، سندھڑی، تھل، دامان
رہتل، سجل، کلچر تے تہذیب گزر گزران
ہر یک وس وسیب وطن دا ساڈی جند تے جان
واہ واہ اے، دل دریا اے، کاغذاں دی بیٹری اے، مکوڑ اطلاح ہے، لوک چڑھدے پین، ساڈی صلاح اے لت رکھن سیتی، اللہ کندھی لیسی، کویلی ستی پئی اے ، اللھ سراندی ڈتی پئی اے، دل دی شودی پلدی پئی اے، جو اجاں سراندی جھکی پئی اے۔ کویلی ٹرس میل تے کر کے لمبڑے ہتھ میاں نالوں شود رہا تھی نگاھی ادب کے ماریس لت میاں، ہاتھی دل وچ آکھیا اتھوں نہ لنگھ ساوت میاں ، آنکھ اوئے ہاتھی آ ہن تو نی بھگاں لتاڑیں نی ، اج جو ان ڈتی ہئی مت میاں ، شالی شاہ اتھاہوں بچو تیڈا آن ونڈیاں بھت میاں ۔
مشتاق سبقت ۔۔۔ کھیڈ قلندر دی:
مشتاق سبقت 1962ء میں مظفر آباد میں پیدا ہوئے ان کا آبائی گاؤں مظفر گڑھ میں ہے ۔ چاند یہ بلوچ خاندان سے تعلق رکھنے والے مشتاق سبقت بچپن ہی سے شاعری میں دلچسپی رکھتے تھے۔ مشتاق سبقت کا خاندان کئی صدیاں پہلے تحصیل تونسہ سے ہجرت کر کے یہاں آباد ہوا، ابتدائی تعلیم اپنے آبائی گاؤں کھجی والا سے حاصل کی ۔ مڈل اور میٹرک ہائی سکول محمود کوٹ سے کیا۔ 1983ء میں محکمہ تعلیم میں بطور مدرس شامل ہوئے ۔ 2013 ء میں قبل از وقت ریٹائرمنٹ لے لی۔ 1978ء میں شاعری شروع کی۔ شاعری میں ملک عاشق کھنڈویہ سے اصلاح لی۔ ان کا تخلص جانباز جتوئی نے سبقت رکھا۔ اپنے انداز اور اسلوب کے حوالے سے منفرد ممتاز حیثیت کے حامل ہیں۔ 1994ء میں پہلا شعری مجموعہ کھیڈ قلندردی شائع ہوا ۔ آتما ہا نٹری ( روداد ) ان کا نیا مجموعہ زیر اشاعت ہے [19]۔ نمونہ کلام
پیا دیندے اتنا سوچ تا سہی
جیڑے بیٹ دے حال ہن کیا بنڑی
ایڈوں بے او چھن گزران ہسے
اور و قہر دے کال ہن کیا بنڑی
یک گال دی سبقت داری ڈے
اوئیں ڈھیر سوال ، ن کیا بنڑی
منگسین روٹی کہیں درتوں
ساڈے پنجرے بال ءِ ن کیا بنڑی
اصغر گورمانی ۔۔۔ منفرد اسلوب کا شاعر:
اصغر گورمانی ضلع مظفر گڑھ کے قصبہ کر مداد قریشی میں 1976ء میں خدا بخش گورمانی کے ہاں پیدا ہوئے۔ گورمانی قبیلے کے افراد ہمیشہ سیاست میں سرگرام رہے ہیں۔ مگر اصغر سرائیکی کا صاحب اسلوب شاعر ہے۔ ابتدائی تعلیم اپنے گاؤں کے سکول سے حاصل کی ۔ گورنمنٹ کالج مظفر گڑھ سے گریجوایشن کی اور بہاؤالدین زکریا یو نیورٹی ملتان سے سرائیکی زبان اور ادب میں ماسٹر کیا۔ آباؤ اجداد زمیندارہ کرتے تھے ۔ کوٹ چھٹہ کا شہر ان کے جد چھٹہ خان گورمانی کے نام پر آباد ہوا۔ اس قبیلے کے کچھ لوگ سیت پور تحصیل علی پور جا کر آباد ہوئے [20]۔ پھر وہاں سے . موجودہ بستی گلاب گورمانی میں آئے ۔ اصغر شاعر ہوا تو عزیز شاہد، جہانگیر مخلص ، شاکر مہروی، عباس صادر اور ریاض عصمت کی سنگت نصیب ہوئی۔ آج اصغر گورمانی کے نام کے بغیر سرائیکی شاعروں کی کوئی فہرست مکمل نہیں ہوتی۔ 2012ء میں اس کا پہلا شعری مجموعہ ‘سیپ’ کے نام سے شائع ہوا۔ جو ہاتھوں ہاتھ لیا گیا۔ سرائیکی کا با کمال شاعر ہے انکی شاعری بے باک، بچی اور سیدھی دل میں اترنے والی ہے۔ ان کے ہاں تخیل کمال ہے اور شاعری میں ایک بہاؤ ہے۔
قبر دی کالی رات ہے اصغر سیف اللہ خان سیفل ۔۔۔ دیوان سیفل کے خالق:
محمد عبد اللہ عرف سیف اللہ خان مخلص سیفل 15 اکتوبر 1955ء کو امیر بخش خان پانگ بلوچ کے گھر سیت پور میں پیدا ہوئے ۔ دو سال مدرسہ دار الحمد کی علی پور میں سیدمحمد یارشاہ نجفی کے ہاں عربی فارسی کی تعلیم حاصل کی ۔ اسکے علاوہ دو دفعہ ایران بھی کچھ عرصہ زیارت اور تعلیم کے سلسلے میں گئے ۔ سرائیکی شاعری کا آغاز 1968ء میں کیا۔ 1976ء میں سید غلام اکبر شاہ معروف آزادشاہ مرحوم کی شاگردی کا شرف حاصل ہوا۔ 1970ء میں والد کا سایہ سر سے اٹھ گیا سیت پورے خانگڑھ ڈومہ شفٹ ہو گئے سب سے پہلے تعلیم کو خیر باد کہنا پڑ 21 ۔ وہ خود کہتے ہیں ریڈ یوٹیپ کا زمانہ تھا وہ کام بھی سیکھا۔
کریانہ کی دوکان کھولی اور اب کا شتکاری کر رہا ہوں ۔ میرے وسیب کے گلوکار میرا کلام شوق سے گاتے رہے پہلے پہلے اقبال بھان بعد میں استاد حسین بخش ڈھاڈھی پھر زیادہ کلام سجاد حسین ساقی نے گایا ویسے تو سرائیکی کے جتنے گلوکار ہیں ہر کسی نے کچھ نہ کچھ گایا ہے۔” اب تک کئی کتا بچے اور کتا بیں چھپ چکی ہیں ۔ اب سارا کلام جھوک پبلشرز نے دیوان سیفل کی صورت میں شائع کیا ہے۔ دیوان سیفل ، پاکستان کی تاریخ میں اب تک 864 صفحات پر مشتمل سرائیکی شاعری کی پہلی اتنی بڑی کتاب ہے۔
نمونہ کلام
جتھ حوراں جھاڑو آڈیون جبریل جتھاں دربان ہو سے
جیندی خدمت وچ بو ذر ، قنبر ، مقداد ۔ عروہ سلمان ہوئے
اوں گھر دی عظمت کیا ہوی جتھ حسن حسین ذیشان ہو سے
جیندا نوکر پاک علی سڈوادے ۔ کیا سردار دی شان ہو سے
مظفر گڑھ کا شاعر ۔۔۔ شاکر مہروی:
شاکر مہروی کا اصل نام محمد رمضان ہے، آپ 1966ء میں حاجی غلام حسین ارائیں کے گھر مظفر گڑھ کے نواحی قصبہ کھوہ آرائیں والا ” سنانواں کوٹ ادو) میں پیدا ہوئے ۔ رمضان شریف میں پیدا ہونے کی مناسبت سے نام محمد رمضان رکھا گیا۔ 13 سال کی عمر میں شاعری شروع کی اس لئے تعلیم میٹرک سے زیادہ حاصل نہ کر سکے۔ 1979ء میں عظیم سرائیکی شاعر احمد خان طارق کی شاگردی اختیار کی ، حضرت پیر مہر علی شاہ کی مناسبت سے مہروی کہلائے ۔ احمد خان طارق سرائیکی ادبی ثقافتی سنگت کی بنیاد رکھی اور ان کی سر پرستی میں ان کے شاگر د عبد الرزاق زاہد نے سرائیکی رسالہ الطارق شائع کیا جو ان کے اُستاد طارق سے والہانہ وابستگی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ بہت سے اعزازات ایوارڈز اور سندات حاصل کیں۔ شاکر مہروی نے بحیثیت شاعر ساری زندگی اپنی دھرتی ، اپنی مٹی ، اپنی ماں بولی اور اپنے وسیب کے لیے کام کیا۔ شاکر مہروی نے تمام اصناف ادب میں طبع آزمائی کی ہے۔ وجہ شہرت گیت نگاری اور ڈوہڑے ہیں۔ ڈوہڑوں کی جو چھوٹے کتابچے منظر عام پر آئے ان کی تعداد تقریبا 30 کے قریب ہے۔ شاکر مہروی کے دو شعری مجموعے ” میں یاد آساں اور بس توں’ شائع ہوئے ۔ 26 فروری 2010ء کو سرائیکی کے عظیم شاعر شاکر مہروی اللہ کو پیارے ہوئے ۔ گاؤں آرائیں والا در بار پیر نبی شاہ سنانواں میں دفن ہوئے [22]۔
نمونہ کلام
توں یا درکھیں سکھ سفرمیں وچ گئی شے پئی گھٹ میں یاد آساں
کہیں ثابت شے کوں کہیں ویلے لگا کہیں . جاہ ہٹ میں یاد آساں
یا شام کوں ولدے پکھیاں دا ڈٹھو کہیں جاہ جُٹ میں یاد آساں
تیڈے ہتھ دا شاکر شیشہ ہاں جڈاں ویساں تُرٹ میں یاد آساں
بقول ظہور دھریجہ شاکر مہروی اپنی بات کے پکے تھے، جھوک دفتر بیٹھے تھے ہمارے دوست حیات اللہ خان نیازی نے شاکر مہروی سے کہا ہمیں آپ اپنے تخلص شاکر پر نظر ثانی کریں تا کہ آپ کا کلام شاکر شجاع آباد کے کھاتے میں نہ جائے ۔ شاکر مہروی جذباتی ہو گئے، کہنے لگے میں پہلے سے شاکر ہوں ، شاکر شجاع آبادی بعد میں آیا ہے، اسے اپنا تخص تبدیل کرنا چاہئے ، شاکر مہروی نے کہا معذوری کی ہمدردی جب شاعری سے نکل جائے گی تو تب فیصلہ لوگ کریں گے کہ کون بڑا شاعر ہے، وہ یہ بھی کہنے لگے کہ میرا استاد کامل ہے، شاکر شجاع آبادی خود کہتا ہے میرا کوئی استاد نہیں۔ ان کے بیٹے عمران مہروی بھی شاعر ہیں۔ عمران مہروی کا ڈوہرہ
میڈے ڈاڈے طارق ڈوہڑے وچ ہر آن سرائیکستان منگئے
ڈے ڈھیر اشارے سردی دے مکران سرائیکستان منگئے
میڈے بابے شاکر مہروی ڈے عنوان سرائیکستان منگئے
اج آ کے تر جبھی پشت دے وچ عمران سرائیکستان منگئے
مہجور بخاری ۔۔۔ نکی جیہی گالہوں رسد میں ڈھولا تیڈی کمال اے:
عطاء اللہ عیسی خیلوی کے مشہور گیت ” کی جیہی گالہوں رسد یں ڈھولا تیڈی کمال اے کے خالق مہجور بخاری کا تعلق شہر سلطان سے تھا۔ اللہ وسایا شاہ مہجور بخاری 15 جون 1939ء کو شہر سلطان میں سید غلام رسول شاہ بخاری کے گھر پیدا ہوئے ۔ مڈل تک تعلیم حاصل کر سکے ۔ گھر میں غربت تھی ۔ شاعری کا شوق بچپن سے تھا جانباز جتوئی کے شاگرد تھے ۔ اس لئے ان کو ثانی جانباز کا خطاب بھی دیا گیا ۔ 1992ء میں مشہور گیت نکی جیبی گالہوں رسدیں ڈھولا تیڈی کمال اے لکھنے پر عطاء اللہ عیسی خیلوی نے شہر سلطان آکر 10 ہزار روپے کا چیک پیش کیا ۔ وطن کی محبت میں اشعار کہے ۔ ان کی مشہور نظموں میں پارد او اسی تنہائی ، کشمیر اور سراپا جیسی شاہکار نظمیں شامل ہیں ۔سینکڑوں گیت غزلیں نظمیں اور ڈوہڑے لکھے مگر ان کا کلام کتابی صورت میں شائع نہ ہو سکا ۔ ان کے کئی گیت وسیب میں بہت مقبول ہوئے ۔ عمراں دراز ہو دی دھرتی دامان جنا بھی ان کا مشہور گیت ہے [23] ۔ 4 فروری 2005ء کو شہر سلطان
میں اپنے گھر میں آگ لگنے سے اللہ کو پیارے ہوئے ۔
نمونہ کلام
کوئی دنج آکھے میڈے بھورل کوں تیڈے در یک حال ظہیر کھڑے
بس متھا ٹیک در سال اتیں ،سروں روندا رت دے نیر کھڑے
جذبات توں اپنڑے تن را چولا، کیتی لیر کتیر کھڑے
آڈیکھ ایہو مہجور ہوئی ،متاں سمجھیں باہر فقیر کھڑے
منشی محمود کوئی ۔ ۔ ۔ گلستان منشی کے خالق:
منشی محمود کوئی کا اصل نام ملک اللہ وسایا چوہان تھا۔ 1893ء کے لگ بھگ پیدا ہوئے اور 1954ء میں فوت ہوئے ۔ جذبات نشی ( نظم و نثر ) گلدسته منشی ( نظم و نثر ) گلستان نشی (دوہڑے ) گلدستہ مناقب، محبت کا پھول (غذاقیہ دوہڑے اور گلدستہ نعت ( مولود ) آپ کی تصانیف ہیں۔ منشی محمود کوٹی کا انتقال 1954ء میں ہوا بسلسلہ ملازمت منٹگمری ، چیچہ وطنی اور ملتان میں مقیم رہے ۔ شاعری میں کاظم کر بلائی کے شاگرد تھے۔ سرائیکی اور اردو کے شاعر تھے [24]۔
سائیں نذیر حسین نذیر۔۔۔ بھٹو شہید سے انعام پانے والے شاعر:
سائیں نذیر حسین نذیر 15 اکتوبر 1931ء میں موضع مصفی حسن علی کوٹ ادو میں گورمانی خاندان میں پیدا ہوئے، والد نے سردار کوڑا خان نام تجویز کیا قلمی نام نذیرحسین نذیر خود انہوں نے اختیار کیا۔ مڈل کا امتحان سنانواں سکول سے پاس کیا، ہیڈ ماسٹر غلام حیدر خان کی شفقتوں کے طفیل گلستان بوستان کے علاوہ دیگر اہم فاری کتب زیر مطالعہ ر ہیں ، زمانہ طالبعلمی میں ہی شعر و شاعری کے ہنر سے آشنائی ہوئی ، 1952 ء سے 1979 ء تک کو وہ اپنے عروج کا زمانہ گردانتے تھے ، جب انہیں ملک بھر کی ادبی تقریبات میں مدعو کیا جاتا تھا، ان ایام میں انہیں حفیظ جالندھری، جوش ملیح آبادی، فیض احمد فیض ، احسان دانش، احمد ندیم قاسمی، مجید امجد صوفی تبسم، ساغر صدیقی، احمد فراز، افتخار عارف جمیل الدین عالی، خرم بہاولپوری، کشفی ملتانی ، خیال امروہی نیم لیہ ، شکیب جلالی اور جانباز جتوئی جیسے مشاہیر کے ساتھ مشاعرے پڑھنے کے مواقع میسر آئے ، 1977ء میں جب وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو ایک بھی دورہ پر کھر غربی کوٹ ادو میں تشریف لائے تو نذیرحسین نذیر نے ان کے سامنے ملکی استحکام اور یک جہتی کی افادیت پر مبنی ایک نظم پیش کی تو انہوں نے نذیر حسین نذیر کی حوصلہ افزائی فرماتے ہوئے تین ہزار روپیہ نقد انعام سے نوازا اور اپنے ساتھ بٹھا کر طعام میں بھی شریک کیا [25]
نمونہ کلام
تو اپنی کم نگاہی کا نہ دے الزام فطرت کو
و ہیں تک دیکھ سکتا ہے نظر جس کی جہاں تک ہے
عبادت کی اصل مفہوم کو تو پا نہیں سکتا
ترے سجدوں کا مقصد فقط حور و جناں تک ہے
استاد محمد حسین سحر ۔۔۔ سرائیکی صوبے کے وکیل [26]:
سرائیکی شعرا کے استاد معروف سرائیکی شاعر محمد حسین سحر کا تعلق بھٹہ پور سے ہے آپ 27 مارچ 1947ء کو بھٹہ پور میں پیدا ہوئے ۔ گورنمنٹ ہائی سکول سے میٹرک کا امتحان پاس کیا ۔ شعر و شاعری کا شوق جوانی میں ہوا۔ پہلے مظلوم مخلص کرتے تھے مگر ان کے پیر ومرشد نصیر الدین نصیر گولڑوی کے بیٹے غلام شمس الدین گولڑوی نے تخلص تبدیل کر کے سحر رکھ دیا ۔ 1974 ء سے مشاعروں میں شاعری سنا کر داد وصول کر رہے ہیں ۔ شاعری میں مشتاق شمر اور مخدوم غفور ستاری ان کے استاد ہیں لیہ بھکر اور تھل کے علاقوں میں آپ بہت مقبول ہیں ہر مشاعرے میں بلائے جاتے ہیں ۔ سرائیکی صوبہ کے قیام کے حوالے سے آپ کی شاعری نے عوامی شعور پیدا کرنے میں بہت اہم کردارادا کیا ہے۔
نمونہ کلام
اٹھو جاگو وقت ہے یارو۔ اینٹری دھرتی آپ سدھارو
سحر ایوان سرائیکی ہووے يتخت لہور کوں ٹھو کر مارو
ماہ دھرتی تے رہون والو ۔ ماہ دھرتی دے بارے سو چو
شہر،دیہات پے وسدے تساں۔ہک نی،رل مل سارے سوچو
روہی تھل دامان نے آدھن ۔ ساڈی اکھ دے تارے سوچو
سندھ پناہ دے بیٹ دے بیٹی۔ کشتی بان پیارے سوچو
دھاڑیں مار کے ماء دھرتی کی آدھی ہے منصوبہ گھنٹو
سحر دیبی کٹھے تھیود ،انج سرائیکی صوبہ گھنو
فقیر عبدالرحمن اختر – سرائیکی انقلابی شاعر:
سرائیکی کے انقلابی عوامی اور باغی شاعر فقیر عبدالرحمن اختر کا تعلق مظفر گڑھ کے قصبہ گجرات سے ہے۔ عبد الرحمن اختر عوام کا پسندیدہ شاعر ہے۔ مشاعرہ لوٹ لینے کا فن ان کو خوب آتا ہے۔ ان کی شاعری لوگوں کے دلوں پر چوٹ کرتی ہے۔ ان کے کلام میں بے ساختہ جذبات اور تخیلات کا سمندر ٹھاٹھیں مارتا ہے۔ آپ سرائیکی مزاحمتی شاعری کے نمائندہ شاعر ہے۔ فقیر عبدالرحمن اختر 1964ء میں مہا اللہ دتہ کے گھر قصبہ گجرات میں پیدا ہوئے۔ مڈل تک تعلیم حاصل کی ۔ 1984ء میں شاعری کا آغاز کیا۔ معروف شاعر ملک عاشق حسین کھنڈویہ سے اصلاح لیتے رہے۔ ان کی شاعری سرائیکی وسیب کی پسماندگی اور سماجی بغاوت کا نوحہ ہے ۔ ان کی شاعری مجاز ، انقلاب، مزاحمت ، بغاوت اور معرفت کے موضوعات کی حامل ہے ۔ شاعری میں اب تک ان کی چار کتابیں میڈا دل آہدے بحر سوچیں (اردو ) ، جگارے سنا پو اور حلالی لون نہیں بھلدے شائع ہو چکی ہیں۔ فقیر عبدالرحمن اختر نے قصبہ گجرات میں سبھا ادبی کونسل کی بنیاد رکھی، معرفت کے میدان میں سلسلہ اویسیہ سے وابستہ ہیں ۔ مذہبی شاعری عقیدت کے جذبا ت سے سرشار ہے۔
نمونہ کلام
ازل تو گھن ابد توڑیں اسے اختر یک حقیقت ہے
حلالی لون نہیں بھلدے ، حرامی کھیر بھل دیندن۔
جدن کچاں مستیاں ہن تڈن ایمان پکے ہن
نہ ہن کچاں مستیاں ہن نہ ہن ایمان پکے ہن
اویس قرنی دا جو مقام ء کہیں دا اینجا مقام کینی
نبی دا ہر کوئی غلام ڈسدے اولیں وانگوں غلام کینی
علی کوں قاصد بنا نبی نے کہیں دو بھیجا پیام کینی
جہان سارے انعام پاتے کہیں دا اینجھا انعام کینی
نذر حسین ساجد ۔۔۔۔ خان گڑھ:
معروف شاعر نذرحسین ساجد ملک اللہ وسایا جوئیہ کے ہاں 1954ء میں کمال پور گاؤں میں پیدا ہوئے ابتدائی تعلیم گاہوں کے سکول سے حاصل کی ۔ 1970ء میں میٹرک کا امتحان پاس کر کے پی ٹی سی کر کے محکمہ تعلیم میں بطور مدرس ملازمت کا آغاز کیا۔ شاعری کا شوق تھا شاعری میں معروف اردو شاعر غلام مہدی شوق سے اصلاح لیتے میں مقیم ہیں [28] ۔ انکی نثر بھی کمال ہے۔ نمونہ کلام رہے۔ اب تک دو شعری مجموعے رادیل اور جن پرندوں کے پر نہیں ہو تے شائع ہو چکے ہیں ۔ ان دنوں خان گڑھ میں مقیم ہیں۔
وه کبھی در بدر نہیں ہو تے
جن پرندوں کے پر نہیں ہوتے
اپنا قامت چھپاؤ لوگوں سے
لوگ اہل نظر نہیں ہو تے
کیسے گردن جھکائیں ساجدوہ
جن کے کاندھوں پہ سرنہیں ہوتے
معروف شاعر ساحر رنگ پوری۔۔۔ باغی تخت لاہور دے [29]:
معروف نوجوان سرائیکی شاعر ساحر رنگ پوری کا اصل نام عبدالمالک سلطان ہے مگر قلمی نام ساحر رنگ پوری سے ادبی حلقوں میں جانے پہچانے جاتے ہیں۔ آپ کیم جنوری 1985ء کو مظفر گڑھ کے تاریخی قصبے رنگ پور کے نواحی گاؤں چاہ سیالو میں پیدا ہوئے ۔ ابتدائی تعلیم رنگ پور سے حاصل کی۔ ایف ایس سی گورنمنٹ پوسٹ گریجوایٹ کالج مظفر گڑھ اور گریجوایشن سائنس کالج ملتان سے کی ۔ ایم ایس سی اور ایم فل کی تعلیم یونیورسٹی آف انجنیئر نگ اینڈ ٹیکنالوجی لاہور سے حاصل کی ۔ 2014ء میں یونیورسٹی آف اوکاڑا اسے بطور لیکچر روابستہ ہوئے ۔ جبکہ کامسیٹس یونیورسٹی سے ریاضی کے مضمون میں پی ایچ ڈی کر رہے ہیں ۔ اب تک ان کے دو مجموعے شائع ہو کر ادبی حلقوں میں پذیرائی حاصل کر چکے ہیں ان کا پہلا شعری مجموعہ باغی تخت لاہور دے 2010ء میں شائع ہوا۔ جبکہ دوسرا شعری مجموعه چوگ 2012ء میں شائع ہوا۔
نمونہ کلام
میکوں لگدا ہا جو میں افلاک تے ودا رہیاں
جتنا عرصہ امری تیڈی ڈھاک تے وداں رہیاں
مظہر حسین مظہر خان چانڈیہ۔ شاعر اور نغمہ نگار [30]:
سرائیکی زبان کے معروف شاعر اور نغمہ نگار مظہر خان چانڈیہ کا تعلق مظفر گڑھ شہر کی نواحی بستی تلکوٹ سے ہے۔ آپ 1955ء میں الحاج نذرحسین خان چانڈیہ۔ نڈیہ کے گھر پیدا ہوئے ۔ ابتدائی تعلیم گورنمنٹ ہائی سکول تلکوٹ سے حاصل کی۔ ان کا گھرانہ مقامی بلدیاتی سیاست میں فعال تھا۔ 1998ء کے بلدیاتی الیکشن میں ممبر ضلع کونسل ( یونین کونسل بھٹہ پور ) منتخب ہوئے ۔ بچپن سے شعر و شاعری کا ذوق تھا۔ شعر و شاعری میں ان کے اساتذہ میں منظور کنیرہ اور اسد بیل (یہ) شامل ہیں۔ نعت گوئی اور گیت نگاری ان کی پسندیدہ اصناف ہیں ۔ شاعری میں اب تک چار شعری مجموعے پیار عبادت ہے (2010ء) بک بخواں دے ( 2013ء ) نکھیڑا نہ ہوندا ( 2019 ء ) اور دل وچ وسدے (2020 ) شائع ہو چکے ہیں۔ پانچواں شعری مجموعہ اشاعت کے مراحل میں ہے۔ ان کے لکھے نے مشتاق چھینہ ، ریاض ساقی ہجا دساتی ، زاہدہ تھلی والی اور سر در قلندرانی جیسے گلو کاروں نے گائے ہیں ۔ ان کے مشہور گیتوں میں ڈھولا ملتانی بڑا پیارا لگدے، آئی نی یاردی کال کاھو کی مونچھی آں، اور تیڈے کیتے ڈھولا اساں مونجھے ودے آں جیسے مشہور گیت شامل ہیں۔ ان کی لکھی نعتیں سلیم قادری، ابوذ رسوائی اور شوکت چاند یہ جیسے نعت خوانوں نے سنا کر خوب
تحسین حاصل کی ہے۔
نمونہ کلام
قلم جو کچھ لکھیندا ہیں ، امن دانام لکھیندا جل
جگر دا خون خرچہ کر تعظیماً سر جھکیندا جل
ہتھیں یا صاف کاغذکوں جڑاں منگتا ، منگے کوئی شے
تو حاتم بن سخاوت وچ تو لفظیں کوں وڈیندا جل
جے لکھ سکدیں حقیقت لکھ لکھن حق را ہدایت اے
تو سیدمیں دے قصیدے لکھ ، یزیدیں کوں نو سندا جل
احمد سعید گل خان ۔ شاعر – گیت نگار:
احمد سعید گل خان 1954ء میں بیٹ قیصر میں گل محمد خان بلوچ کے گھر پیدا ہوئے ۔ ابتدائی تعلیم شہر سلطان سے حاصل کی ۔ انٹر بہاولپور سے کیا۔ بہاؤالدین زکریا یونیورسٹی سے گریجوایشن کی ۔ میٹرک کے بعد پولیس میں بطور کا نشیبل بھرتی ہوئے ۔ 2004ء میں بطور انسپکٹر قبل از وقت ریٹائرمنٹ لی۔ جوانی سے شاعری کا شوق تھا مہجور بخاری سے دیر یہ تعلق تھا۔ شاعری میں مہجور بخاری ان کے پہلے استاد ہیں۔ بعد میں مظہر حسین خان مظہر چانڈیہ سے اصلاح لیتے رہے۔ ان کا پہلا شعری مجموعہ دول آپاروں (2019ء) میں شائع ہوا ۔ 2016ء میں بزم سحر گل کی بنیا د رکھی اور ہر تین مہینے بعداد بی پروگرام منعقد کرتے ہیں۔ اس میں شاکر شجا عبادی اور دیگر اہم شعرا شرکت کر چکے ہیں۔سرائیکی شاعری میں نئی صنف سنجا پو متعارف کروائی ہے۔ اور ادبی دنیا سے پذیرائی حاصل کی ہے۔
چناب کے کنارے پھولوں کی طرح پھوٹتی سعید گل کی شاعری اپنے دامن میں چناب کے سارے کے سارے رنگ رکھتی ہے۔ اس بیٹ اور بیلے کی محبت میں رچی ان کی شاعری میں چناب کے لینڈ اسکیپ، کلچر، سماج اور تہذیبی رویوں کی جھلک ہے۔ سعید گل خان کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ انہوں نے سرائیکی شاعری میں ایک نئی صنف سناپو کے نام سے متعارف کروائی ہے سعید گل خان سرائیکی شاعری میں ایک منفر داضافہ ہیں بلاشبہ انکی شاعری وسیب کے ادبی منظر میں مضبوط نقوش چھوڑے گی۔
نمونہ کلام
ہے زندگی سانول چار ڈینھاں ، آرل مل یا رگزاروں دل آپاروں
ایس پیار دی بڑی بیٹی کوں ، ہک واری دل چا تا روں دل آپاروں
جے پیار و چ اُچ جھک تھتی ہے تاں، ایکوڈو ہیں یارو ساروں دل آپاروں
گل اے پیار دی جتی بازی ہیں جگ تے تاں ناں ہاروں ول آ پاروں
نوٹ: مضمون محمد شہزاد کی کتاب "سر زمین مظفرگڑھ” سے لیا گیاہے