مظفر گڑھ کا ادب

مظفرگڑھ : علم وادب

خیرمحمد بُدھ

علم وادب شعر و شاعری اور صحافت کے حوالہ سے بھی ضلع کو بہت اہمیت حاصل رہی ہے۔ علامہ عبدالعزیز پر ہار جیسی شخصیت کا تعلق کوٹ ادو سے تھا جو علم وفضل اور فکر و دانش کے اعتبار سے بہت بڑے سکالر تھے اور ان کی کتابیں آج بھی یونیورسٹی میں پڑھائی جارہی ہیں۔ مہر عبدالحق ممتاز ماہر تعلیم اور محقق تھے جن کی علم و ادب کے لیے خدمات با قابل فراموش ہیں۔ پروفیسر سجاد حیدر نے اپنی کتاب میں ضلع کے صاحبان علم و ادب کا تین ادوار میں تعارف کرایا ہے۔ پہلے دور میں 59 دوسرے دور میں 41 جب کہ تیسرے دور میں 41 لکھاری حضرات کا تعارف اور نمونہ کلام درج کیا ہے۔ ضلع میں بہت ہی نامور اور مشہور ادیب اور شاعر پیدا ہوئے ۔ نواب مظفر خان والی ملتان جنہوں نے مظفر گڑھ کے قلعہ کا سنگ بنیاد رکھا 1818-1757 میں وہ بھی شاعر تھے۔ بعد ازاں مولوی جندوڈا اور سردار کوڑے خان 98-1890 بھی میدان علم و ادب کے بہت بڑے شاہ سوار گزرے ہیں۔ سردار کوڑے خان کو سرائیکی علاقے کا سرسید کہنا غلط نہ ہوگا وہ نہ صرف خود علم و ادب کا دلدادہ اور شاعر تھا بلکہ انجمن حمایت اسلام علی گڑھ اور انجمن نصرت اسلام کو عطیات بھی دیتا تھا۔ اس پہلے دور میں عمر علی چھجڑہ بندہ اسحاق 1960-1895 اور فقیر اللہ بخش کشفی 1976-1902 کے نام بھی قابل ذکر ہیں۔ کشفی صاحب کا تعلق تحصیل کوٹ ادو سے تھا وہ محکمہ تعلیم میں ملازم تھے اور انہوں نے 1944ء میں ملازمت سے استعفیٰ دے دیا۔ مظفر گڑھ میں اردو شاعری کے حوالے سے پروفیسر جعفر بلوچ نے لیہ اور مظفر گڑھ کے شعراء کے تذکرہ آیات ادب میں مظفر گڑھ کے ذیل کے شعراء کا ذکر کیا ہے۔ سید سرمد ترندی’ عطاء اللہ ناوک، نواب جلال میرزا خانی کشفی ملتانی، خلیق ملتانی حکیم چراغ علی آزاد نوابزادہ نصر اللہ خان ناصر پروانه بجنوری، غفور ستاری بیاض سونی پتی شهید ابن علی ریاض انور اختر جعفری فات واسطی رضا ٹوانہ میاں شیر محمد وفا نبی بخش اظہر حکیم سید عبدالمجید راحی، میاں اللہ دتہ عاجز غلام حسین نفر مولانا اللہ بخش لائق، فقیر نور جعفری مظفر علی فاتح میاں مظفر مہدی ہاشمی، بیدل بصیروی، شبیر نادر غلام مهدی شوق ذاکر رحمانی عادل فریدی محمد افضل بدر بدیم بصیر وی نو از صدیقی، شاغل خان گڑھی، نقیب جعفری گفتار خیالی وزیر تابش مہر محمد عاجز ذاکر عثمانی افتخار حسین ساجد جعفری، سلیم اختر نسیم جعفری، سعید احمد سعید جلال فاروقی، تسنیم انبالوی حافظ کشکوری، شبیر جاوید بخاری سهیل جعفری، قاسم راز ۔ شاعری کے میدان میں نواب مظفر خان ،سردار کوڑے خان جتوئی ٹکن رام بھکت لکشمی داس تقیسم علی پوری ، آغا نواز خان گوپانگ ،مولوی غلام محمد ایڈوکیٹ ، عبدالحمید خان دستی ، ڈاکٹر نیاز الدین، فقیر اللہ بخش کشفی ، خدا بخش عبرت نوازش علی یتیم جتوئی مہجور بخاری ندیم اقبال انور سعید انور سلطان ناصر محمد حسین مظلوم مختار انجم مظہر گرمانی ، مظہر قلندرانی حق نواز خرم، کریم بخش جو ہر مولوی کا عف حسین فقیر نور جعفری جانباز جتوئی کے نام بہت مشہور ہیں۔ جانباز جتوئی سرائیکی کے بہت بڑے شاعر تھے ۔ جانبار جتوئی کے شاگردوں میں سرور کر بلائی، مجبور تونسوی، مشتاق شمر شاکر تونسوی اور دیگر شاعر شامل ہیں۔ انہیں سرائیکی کے جوش کا خطاب دیا گیا ہے۔ انہوں نے تمام موضوعات بالخصوص محبت اہل بیت پر بہت اشعار کہے ہیں۔ دیگر شعراء میں ریاض انور ریاض اختر حسین اختر جعفری گفتار خیالی رضا ٹوانہ اقبال نادم یوسف ارکان سلیم چکانی نذر حسین جھنڈیر تو قیر عباس ڈونہ اصغر گرمانی، مشتاق سبقت انجم مراد آبادی قابل ذکر ہیں۔ مشتاق سبقت بہت بلند پایہ شاعر ہیں اور عوامی حلقوں میں مقبول ہیں۔ رضا ٹوانہ محکمہ سپورٹس میں ایک آفیسر ہونے کے علاوہ بڑے انقلابی شاعر بھی ہیں ان کی چھ کتابیں چھپ چکی ہیں جن میں سورج سے بغاوت اور چادر زینب بہت مقبول ہوئی ہیں۔ نمونہ کلام کے طور پر ان کا ایک شعر یہ ہے:

ہم نے دیکھا ہے چراغوں کو حفاظت کے لیے
بجھتے بجھتے بھی بلاؤں سے الجھ پڑتے ہیں

نذر حسین جھنڈ پر ایک صوفی اور قلند ر منش شاعر تھے۔ انہوں نے حمد ونعت، قصیدہ مریہ قطعہ ڈوہڑے واقعات کربلا پر اشعار لکھے ہیں۔ ان کا غیر مطبوعہ کلام سرائیکی اور فارسی میں موجود ہے انہیں فردوسی ملت اور دبیر پاکستان کا لقب بھی دیا گیا۔ ضلع کے بارے میں
ان کا یہ شعر بہت مشہور ہے:

سکیں ہوں اس ضلع کا جسے پست تر سمجھتے ہیں لوگ اکثر
جو ان اونچی گھنی کھجوروں کا پُرفضا دیش گڑھ مظفر

ضلع میں قیام پاکستان کے بعد علم و ادب کی یاد گار محفلیں منعقد ہوئیں ۔ مظفر گڑھ اکادمی بنائی گئی اور 24 جنوری 1959ء کو اس اکیڈمی کے زیر اہتمام ایک بہت بڑا مشاعرہ منعقد ہوا جس کی صدارت چوہدری محمد الیاس نے کی جو اس وقت ایڈمنسٹریٹو سول جج تھے۔ مشاعرہ میں ملک کے نامور شعراء شریک ہوئے۔ اس اکیڈمی کا پہلا اجلاس 16 فروری 1959 ء کو میونسپل ہال مظفر گڑھ میں منعقد ہوا جس میں 48 اراکین نے شرکت کی۔ ملک غلام احمد لنگڑیال ایڈووکیٹ نائب صدر جب کہ کشفی صاحب سیکرٹری مقرر ہوئے ۔ اراکین مجلس عاملہ میں سرکاری آفیسران کے علاوہ خان امجد حمید خان اور دانشمند خان ایڈووکیٹ بھی شامل تھے۔ 6 مارچ کو کل پاکستان مشاعرہ ہوا جس پر چودہ سو پچاس روپے خرچ آئے ۔ مختلف اوقات میں اکیڈمی نے جو تقریبات منعقد کیں ان میں بڑے شاعر آتے رہے۔ ان میں جگر مراد آبادی جوش، جگن ناتھ آزاد مہندر سنگھ بیدی، فیض احمد فیض احمد ندیم قاسمی احسان دانش، ساغر صدیقی، حبیب جالب، قتیل شفائی ناصر کاظمی، عبدالمجید سالک شوکت تھانوی، ساحر لدھانوی، تلوک چند محروم، رئیس امروہی ڈاکٹر عبداللہ شامل ہیں ۔ کشفی مرحوم کا غزل کہنے کا مخصوص انداز تھا۔ ان کے اشعار بہت مقبول ہیں ان کے یہ دو شعر آج بھی بہت مقبول ہیں:
رند بخش گئے قیامت میں
شیخ کہتا رہا حساب حساب
آنے لگی تھی ان کی جبیں پر ذرا شکن
اظہار عشق کر کے مکرنا پڑا مجھے

ظریف احسن بھی جدید دور کے بہت اچھے شاعر ہیں ان کی پیدائش مظفر گڑھ میں ہوئی تھی اب وہ کراچی میں رہائش پزیر ہے لیکن مظفر گڑھ سے ان کی وابستگی کا یہ عالم ہے کہ ضلع کی علمی و ادبی سرگرمیوں سے ناصرف واقف رہتے ہیں بلکہ وہ ضلع کے تمام اہل قلم حضرات سے متعلق معلومات اکھٹی کر رہے ہیں اور اس وقت تک حرف زار مظفر گڑھ کی تین جلدیں مرتب کر چکے ہیں ۔ اتنے بڑے علمی وادبی ورثے کو کتابی شکل دینا انکا بہت بڑا کارنامہ ہے۔
مختلف ادوار میں سرائیکی اکیڈمی اور 1968ء میں بزم فرید بھی معرض وجود میں آئی۔ اس کے علاوہ ضلعی صدر مقام اور تحصیلوں میں بھی کئی تنظیمیں بنائی گئیں جو کچھ عرصہ سر گرم عمل رہنے کے بعد عملی طور پر ختم ہو گئیں۔ ضلع میں سب سے پہلے ہفت روزہ بشارت کا آغاز ہوا جو 30 اپریل 1951 ء کو مظفر گڑھ سے شائع ہونا شروع ہوا۔ اس کی قیمت دو آنے تھی اور یہ 30 دسمبر 1976 ء تک شائع ہوتا رہا تاہم اس دوران کبھی اس کی اشاعت کچھ عرصے کے لیے معطل بھی ہوتی رہی۔ ہفتہ وار کارواں 1958 ء سے 1973ء ہفتہ وار المنصور اور نجات پندرہ روزہ الحیات 1961ء سے 1973 ء جب کہ ماہنامہ ندائے طب بھی مئی 1970 ء سے 1973 ء تک شائع ہوتے رہے۔ ضلع میں ماضی میں دو روزنامے تشکیل نو اور لاشار پوسٹ بھی نکلتے رہے ہیں جو کچھ عرصہ کی اشاعت کے بعد اب بند ہو گئے ہیں۔ دیگر اخبارات و ہفت روزہ جات میں نجات، جلوس، صدائے مخدوم بخاری ٹائمنز، مظفر گڑھ ٹائم، علی پور ایکسپریس اشمار اعلی پور میڈیا کورٹ اخبار مظفر گڑھ ندائے پنجند بیان حق، فخر کا رواں صوت ضمیر پاندھی، پر شیخ، سویل شاہوانی، دستی، تشکیل نو صدائے مظفر گڑھ حرف زمان سفینہ خبر چھل، ریجنل ٹائمنز دل جلے کا کر صدائے مظلوم وغیرہ شامل ہیں۔ اس طرح 2005ء میں ضلع سے شائع ہونے والے ہفت روزہ اور مقامی رسائل کی تعداد 35 کے قریب ہے جن میں چند ایک با قاعدگی کے ساتھ شائع ہوتے ہیں جبکہ ان میں سے بیشتر بے قاعدہ ہیں اور بند ہیں۔ ان مقامی ہفت روزہ اخبارات میں مضامین، سنجیدہ کالم اور علم وادب بہت کم ہے جب کہ مقامی خبریں اور وہ بھی آفیسران اور اہلکار ان سے متعلق مرچ مصالحہ لگا کر شائع ہوتی ضلع گورنمنٹ نے بھی علم وادب کے فروغ کے لیے سال 2002ء میں ایک ضلعی ادبی کمیٹی قائم کی جس کے چیئر مین اس وقت کے ڈسٹرکٹ کو آرڈی نیشن آفیسر ڈاکٹر اعظم سلیم صاحب تھے جب کہ ممبران میں ادیب، شاعر اور ماہرین تعلیم شامل تھے۔ کمیٹی نے دو سال تک ضلع گورنمنٹ کی جانب سے فراہم کردہ بجٹ کے مطابق ادیبوں، شاعروں اور کالم نویسوں کی حوصلہ افزائی اور مالی امداد کے لیے تحرک کیا تا ہم فنڈ نہ ملنے اور کچھ مقامی شعراء کی گروہ بندی اور درخواست بازی کے پیش نظر یہ سلسلہ دو سال جاری رہنے کے بعد بند ہو گیا ۔ کمیٹی کے ممبران اس طرح تھے :
ڈسٹرکٹ کو آرڈی نیشن آفیسر چیئر مین اور ممبران میں پروفیسر شیدا حسین، مظہر قلندرانی سید ایوب شاہ اعجاز رسول بھٹہ اعزاز خان مگسی کرنل (ر) اسد عالم پروفیسر سجاد حیدر صدر ڈسٹرکٹ بارای ڈی او تعلیم، ای ڈی اولٹریسی، محترمہ ام کلثوم سیال عطاء الرحمن خان سیف اللہ سیفل، محترمہ ثروت بخاری تنویر شاہد محمد زئی کمیٹی کے سیکرٹری خیر محمد بدھ تھے۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ ضلع میں بہت ٹیلنٹ موجود ہے۔ اردو سرائیکی زبان میں قدیم و جدید شعراء نے اپنی حیثیت کو تسلیم کرایا ہے۔ ان شعراء وادیوں کی سینکڑوں تصانیف اور مجموعہ کلام شائع ہو چکے ہیں جو شعر و ادب کی تاریخ میں سند کا درجہ رکھتی ہیں۔ اگر چہ مظفر گڑھ میں ریڈیو سٹیشن یا ٹی وی سنٹر تو نہیں ہے تاہم کیبل نیٹ ورک پورے ضلع میں قائم ہو چکا ہے اور پھرا کے مطابق اس وقت چھبیس کیبل سنٹر کام کر رہے ہیں جو مظفر گڑھ علی پور چوک سرور شہید جتوئی خان گڑھ کوٹ ادو سنانواں شہر سلطان دائرہ دین پناہ بصیرہ شاہ جمال، جھگی والا سیت پور خیر پور سادات مراد آباد سلطان پور روہیلا نوالی میں قائم ہیں۔ مظفر گڑھ شہر میں علی بابا چینل جسے اب چناب ٹی وی کا نام دیا گیا ہے مقامی سطح پر مختلف تقریبات کی کوریج کر رہا ہے اور نصر اللہ لغاری اس کے منتظم ہیں۔ یہ شہر کی علمی وادبی سرگرمیوں کو اپنے پروگراموں میں کوریج دے رہا ہے۔ ضلع کے ممتاز ماہرین تعلیم میں عزیز الرحمان چشتی، فقیر نور جعفری غلام نبی زنگیزہ ڈاکٹر مہر عبدالحق، شیخ عطاء الرحمان، محمد ایوب سرانی پروفیسر خورشید خان پروفیسر فر است مند خان شیروانی کے نام بہت اہم ہیں اسی طرح محکمہ سی اینڈ ڈبلیو کے ایس ڈی او جناب عبدالحکیم نے قرآن پاک کی تفسیر مختلف زبانوں اردو عربی انگریزی میں تحریر کر کے بین الاقوامی سطح پر بہت شہرت کمائی ہے وہ ملکی اور بین الاقوامی سطح پر لیکچر بھی دیتے رہتے ہیں۔ صحافت میں عبدالکریم خان کا نام بہت ہی محترم ہے۔ آج بھی ایوان صحافت کے بانی کے طور پر انہیں یاد کیا جاتا ہے۔ ضلع سے کوئی اخبار نہ نکلتا ہے۔ ملتان سے نکلنے والے تمام قومی اخبارات ہی یہاں آتے ہیں۔ ضلعی صدر مقام مظفر گڑھ شہر سے روزانہ روز نامہ جنگ کی پانچ سوڈیلی نوائے وقت کی دو سو میں ڈیلی خبریں کی چھ سو پچاس ڈیلی پاکستان کی ہیں ڈیلی ایکسپریس کی ایک سو پچاس اور انگریزی روزنامہ ڈان کی پچاس کا پیاں آتی ہیں۔ جبکہ اخبار جہاں کی سو اور نیوز کی چھ کا پیاں تقسیم ہوتی ہیں۔ زیادہ تر اخبارات سرکاری دفاتر ، لائبریریوں اور تعی ور تعلیمی اداروں میں پڑھے جاتے ہیں۔ ضلع کی صحافی حضرات میں بھی کافی عرصہ سے گروپ بند چلی آرہی ہے ۔ 2012 میں دونوں دھڑوں نے علیحدہ علیحدہ اپنی رجسٹریشن کرائی ۔ مظفر گڑھ پریس کلب کے نام سے قائم ہونے والے پریس کلب کا دفتر ضلع کونسل کے قریب ہے۔ اے بی مجاہد صدر اور چوہدری خالد جنرل سیکریٹری ہیں جبکہ ڈسٹرکٹ پریس کلب کے صدر نعیم احمد خان اور جنرل سیکریٹری فاروق شیخ ہیں۔ اس کلب کے لئے چوہدری عامر کرامت نے جو خان گڑھ سے صوبائی اسمبلی کے امیدوار ہیں پندرہ مرلے زمین عطیہ کی ہے۔ جبکہ جمشید احمد خان دستی ممبر قومی اسمبلی نے ایک کروڑ روپے کی گرانٹ وفاقی حکومت سے دلائی ہے۔ اس کی تعمیر شروع ہو چکی ہے۔

 

نوٹ: یہ مضمون خیرمحمد بُدھ کی کتاب (تاریخ مظفرگڑھا) سے لیا گیا ہے۔

 

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button

For copy this text contact us :thalochinews@gmail.com