جھنگ:علما اور علمی خاندان
جھنگ کے بعض قصبے حقیقت میں علم و ادب کے خزانے ہیں۔ ان کی کوکھ سے ایسی ہستیاں اُبھریں جن سے علم کے سرچشمے جاری ہوئے۔ ذیل میں ان گھرانوں کا مختصر تعارف دیےجا رہا ہے۔
عبد العلیم – عبد الحلیم صاحبان:
چنیوٹ کے یہ دونوں حقیقی بھائی یوں سمجھیے کہ سارے شہر کے استاد تھے۔ عبد العلیم ولی اللہ تھے ان کا بنیادی امور میں کوئی دھیان نہ تھا۔ البتہ عبد الحلیم شریعت محمدی کے مختلف علوم لوگوں کو سبق پڑھاتے رہے۔ اس وقت چنیوٹ میں جس قدر اہل علم موجود ہیں وہ یاتو ان کی اولاد سے ہیں یا ان کے فیض یافتہ لوگوں کی اولاد ہیں۔ خاکساروں کے سالار ڈاکٹر محمداسماعیل ڈاکٹر عبدالرشید ان ہی کی اولاد ہیں۔ ہی پی فیکٹری لاہور کے مالکان بھی اسی خانوادہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ مولانا نور احمد نقشبندی جنہوں نے1857کی جنگ آزادی کی فتوئ جاری کیا تھا اسی خاندان سے تھے ۔
میاں علی محمد گل گو:
ان کا خاندان قصبہ واصو سے تین سو برس قبل جھنگ صدر آکر آباد ہوگیا تھا اس خاندان میں بہت سے عالم فاضل
گزرے ہیں میاں علی محمد محرم شہر کے خطیب اور امام تھے اور لا انا سنت کے اور مسلک اہل سنت موصوف نے خلافت باغ نوک اور رسومات محرم وغیرہ کے موضوعات پر سولہ کتا بیں اور رسالے تصنیف کیے ہیں اور ایک عرصہ انجن محرم کے صدر رہے ۔ اسی خاندان میں مولوی محمد اشرف مولوی حفیظ اللہ مولوی محمد شریف اپنے دورکے مشہور ہوئے مگر آج کل اس خاندان میں علم کا کوئی امین اور وارث نہیں ۔
حافظ غلام عمر اعوان:
راقم الحروف بلال زبیری کےدادا تھے ( محمد ہفت روزہ المیز جھنگ کے ایڈ ٹیرر ہے کم گو تھے مگر قرآن مجید کے ترجمہ تفسیر پر عبور تھا۔ تحریک خلافت کی قلمی معاونت کرتے رہے متعدد رسائل کے مصنف تھے اور پنجابی کے شاعر بھی مگر ان کی تمام تصانیف خالص مذہبی موضوعات پر مشتمل ہیں 1936 میں وفات پائی۔ مرحوم دینی کتب کا خاساذخیرہ چھوڑ گئے جن میں سے بعض نادر نسخے ہیں۔ انکے لڑکے میاں اللہ جوایا کے دو لڑکے سلیم احمد اور اللہ بخش ہیں
مولانا محمد نافع:
حضرت میاں محمدی کی اولاد سے ہیں ان کے بڑے بھائی مولا نا محمدذاکر ملک کی نامور شخصیت اور جامع محمدی شریف کے ناظم ہیں مولانامحمد نافع عالم فاضل اور دو کتابوں مؤلف ہیں۔ موصوف کی دونوں کتابیں علمی حلقوں میں مقبول ہیں۔ نہایت کم گو اور علم پرور رہے۔
مولانا غلام حسین جوئیہ:
چنیوٹ کے جوئیہ خاندان سے تھے۔ 1898ء میں ہفت روزہ المنیر جاری کیا، جو اس ضلع کاپہلا جریدہ تھا اچھے مقرر اور مبلغ تھے یہ اخبار مختلف ہا تھوں سے گزرتا ہو ا 1946 میں بند ہو گیا تھا۔ موصوف نے نواب سعد اللہ خان پر کتاب تالیف کی مگر چھپ نہ سکی ۔
پیر محمد افضل گیلانی:
درگاه حضرت عبد القادر جیلانی ثانی پیر کوٹ سدھانہ تحصیل جھنگ کے سجادہ نشین تھے کیونکہ موصوف کا
خاندان سندھ کے پیری گاڑو کا مرشد خانہ ہے اور پیر پگاڑو ہر سال اپنے مرشد کر تحائف اور عطیات دیا کرتے ہیں موجودہ پر سکندر علی پگاڑا کے والد محترمپیر صبغت اللہ مرحوم کو جب انگریزی حکومت نے گرفتار کر لیا اوران کے پیرو کاروں پر تشدد اختیار کیا تو پیر محمد افضل نے ہی قانونی پیروی کی اور دہلی میں بیٹھ کر سر صبغت اللہ کی رہائی کی تحریک چلائی ۔ پیر محمد افضل بہت بڑے عالم اور فقیہ تھے موصوف ہی تنظیم اہل سنت پاکستان کے پانی تھے اور اس کے پہلے صدر منتخب ہوئے تھے۔ موصوف کی شخصیت برصغیر میں نیک شہرت کی حامل تھی ۔
مولوی فضل الہی:
میاں محمدی کے خانوادہ سے تھے اچھے طبیب کے علاوہ اچھے شاعر بھی تھے۔ شیخ سعدی شیرازی کی گلستان اور عربی فقہ کی مشہور کتاب کنسترکا پنجابی میں منظوم ترجمعہ کیا دونوں کتابیں ہیں 1943 میں وفات پائی۔
مولوی ضمیر الحسن نجفی:
قیام پاکستان سے قبل تحصیل شورکوٹ کے قصبہ احمد پور سیال میں عمر میں 1937 میں آباد ہو گئے تھے شیعہ مسلک رکھتے ہیں اور اپنے فرقہ میں ملک گیر شہرت کے حامل ہیں موصوف نے وہابی شعیوں کے مسلک کی تردید میں ایک کتاب معالم السنتہ لکھی جو شیعہ فرقہ میں مقبول ہے۔ نہایت ہی اچھے مقرر اور مبلغ ہیں ۔
مولوی درویش محمد:
قصبہ گڑھ مہاراجہ میں تنظیم اہل سنت کے مشہور مبلغ مقرر اور عالم ہیں موصوف صوبہ گیر شہرت کے حامل ہیں بعنی شیعہ عقائد کی تردید میں رسالے بھی تصنیف کئے ان کے مضامین مذہبی ماہناموں میں چھپتے رہے۔ ان دنوں بنیائی سے محروم اور شدید علیل ہیں۔
مولانا عاشق حسین نقوی:
قصبہ بھنبہ کلاں لاہور کے رہنے والے تھے۔ بھنبہ مگر پندرہ برس نجف اشرف میں تعلیم حاصل کرنے کے بعد عربی کالج جامعتہ الغزیز احمد پور سیال میں بطور پرنسپل متعین ہوئے ان کی علمی شہرت ویسیع ہے۔ کالج کے وائس پرنسپل شیخ کاظم علی بھی علمی شہرت رکھتے ہیں۔
مولوی محمدحسنین:
قصبہ کوٹ بہادر تحصیل شورکوٹ کے رہنے والے ہیں نجف اشرف سے اعلی تعلیم حاصل کر کے جامعتہ العربیہ میں خدمات انجام دے رہے ہیں۔ موصوف ان کتابوں کے مصنف ہیں۔ نماز آل محمد ، جواہر الاسرار ، نجف اشرف)مسافرہ شام ، چونکہ شاعر بھی ہیں اپنے کلام کا مجموعہ مرتب کر رہے ہیں۔
نعت خوان:
محافل میلاد اور مذہبی وسیاسی جلسوں میں حمد باری تعالیٰ ، نعت رسول مقبول اور قومی نظمیں پڑھنے کا عام رواج ہو چکا ہے اور اب یہ ہماری روایت کا حصہ ہے جنگ کے قدیم لوگوں میں یہ رواج تھا کہ رمضان المبارک میں سحری کے لئے لوگوں کو بیدار کرنے کے لئے نعت خوانوں اور مولد و خوانوں کی ٹولیاں گلی گلی بلند آواز سے نعتیں اور نظمیں پڑھیتں یہ رواج اب کم ہوتا جارہا ہے۔ قریبی دور میں جھنگ کے حاجی امام بخش حاجی محمد جیون بھٹی، میاں اللہ دتہعدان مرحوم خاصی شہرت رکھتے تھے اس دور میں صوفی محمد بخش چشتی ، صوفی احمد بخش چشتی ماسٹر حبیب احمد منظورا کبر حیدری ، قاری محمد شفیق، صوفی رجیم بخش صدیقی قدبیر احمد ہیں، حشمت علی سیال، بشیر احمد جمالی – عطاء اللہ، استاد بیزر، اقبال جداری سونی ال و ته عبدالعید محمد صدیق محمد رفیق حافظ محمد اکرم، دلدار احمد، محمد ناصر، محمد سعید جھنگ صدر مشہور ہیں اور مجالس میلاد مذہبی اورسیاسی جلسوں میں ان کی شمولیت ضروری سمجھی جاتی ہے۔
شیعہ ذاکرین ومبلغین:
ضلع جھنگ میں اثناعشری عقیدہ کے مسلمانوں کی تیس فیصد آبادی ہے۔ ان میں بعض علماء مبلغ اور مقرر ملکی وصوبائی سطح کی شہرت کے حامل ہیں مرحومین میں سید حسن شاہ ، سید فضل شاہ ہوری والله خادم حسین جهلمی، مولوی شیر شاه ولی داد شورکوٹ ، سید عاشق خان طالب حسین ایم ایل اے رحبانہ سیال شامل ہیں ان کے علاوہ اس دور میں سید نذرحسین بخاری ساقی ، عطا حسین حیدری شورکوٹ ، سید نسیم عباس احمد پور سیال، مولوی سیف علی مولوی اختر حسین جھنگ شہر، مقبول حسین ڈھکو شاہ جیونہ غلام عباس شاہ بوڑی والا – سید ریاض حسین شاه هرچه ، انوار حسین، ملازم حسین ، غلام علی خادم حسین بھٹی، محمد حسین ظفر کر بلائی، مولانا ظہیر الدین حیدر، مولانا غلام عباس نجفی – مولوی اللہ یار جھنگ صدر، مولوی خادم حسین نذر حسین ۸ انرار می ، غلام عباس خان نیروزی – غلام عباسی شاہ رچین، مداح حسین، شیر محمد تیم کوئی باقر محمد افضل جینی راکٹ ، میر عباس قریشی حویلی، دوست محمد ناصر کیلانہ، محمد بخش رشید پور، جہانی شاه آن سیبانه اعلام عباس دیندار، منظور حسین مسلمی امحمد خان نشاری، صفدر حسین چشتی، غلام حسن، ساگ، فیض محمد کیپوری، مهدی حسین تنویر زمرد حسین قریشی اتشریف مین تریشی سید غلام مرتضیٰ سید میں احمد سید محسن علی اسید رضا علی آج گل۔
نوٹ:یہ مضمون بلال زبیری کی کتاب ( تاریخ جھنگ ) سے لیا گیا ہے۔