حضرت مجید امجد:
جنگ صدر کے خالص علمی گھرانے سے تعلق رکھتے تھے ان کے بدا علی میاں نوراحمد نقشبندی کھوکھر چنیوٹ سے جنگ آ کر آباد ہوئے اور مستقل دینی مدرسہ کی بنیار ڈالی۔ اس مدرسہ نے پون صدی تک تعلیمی خدمات انجام دیں۔ حضرت مجید امجد کہ میں پیدا ہوئے نہ میں بھی اسے کی ڈگری حاصل کی اور محکمہ دیہات سدھار میں پیسٹی افسر مقرر ہوئے۔ اس دور میں دیہی معاشرہ کی اصلاح کے لئے ڈرامے لکھے۔ شاعری کی ابتدا اسلامیہ ہائی سکول کی بزمیر ادب سے ہوئی
جہاں اپنے ماموں میاں منظور علی خوف کے ہمراہ مشاعروں میں شریک ہوتے رہے ہی میں ہفت روزہ عروج ، جھنگ کے ایڈیٹر ہے کہ میں ڈسٹرکٹ بورڈ کے شعر انجینرنگ میں ملامت کی کار میں ممکن خوراک میں بطور انسپکٹر شامل ہوئے اور اہ میں ساہیوال .١٩٥٤ تعینات تھے کہ ریٹائر ہوئے۔ جدید اردو غزل میں فلسفہ اور فون کے امام مانے جاتے ہیں ۔ مشب رفتہ کے نام سے مجموعہ کلام 1 ء میں شائع ہوا تھا کم گور خوش اخلاق طبعیت کے مالک تھے لا ئی کہ میں وفات پائی جھنگ کے تبرستان میں موصوف کا مزار موجود ہے ان کی شاعری پر بہت سے دانشور تحقیق کرر ہے ہیں اور حکومت ان کا باتھی کلام اپنی نگرانی میں شائع کرنے کا ارادہ رکھتی ہے ۔
تقى الدين انجم :
ا بدایوں (انڈیا) سے قیام پاکستان کے بعد نقل مکانی کر کے جنگ میں آیا ہوئے اردو ادب کا وسیع مطالعہ ہے نہایت اچھے شاعر اور بہترین مقرر ہیں ۔ موصوف کی انفرادیت ان کی شرافت ہے جس کی وجہ سے ہر حلقہ میں ان کا احترام ہے۔ ان کی بعض غریبیں بہت مقبول ہیں۔ اس وقت گورمنٹ کا لج جنگ میں پنسیل ہیں
عبد العزیز خالد:
تحصیل نکرد در ضلع جالندھر کے ایک گاؤں سے علم کہ
میں ہجرت کر کے جنگ میں ہجرت کر کے جنگ صدر میں خاندان سمیت آباد ہوئے۔ دوران تعلیم ہی اسلام کا دقیق نظری سے مطالعہ کیا اور فکر را در ایک ہمیشہ کے لئے اسی وادی میں کم ہوا۔ آپ اردو، عربی، فارسی اور انگریزی زبانوں پر عبور رکھتے ہیں۔ اس وقت تک ان کی ۱۸ تصانیف شائع ہو چکی ہیں۔ ان کا شاعرانہ مقام اس ملک میں منفرد ہے۔ نعت میں خاص شغف رکھتے ہیں۔ سیارہ ڈائجسٹ لاہور اور ماہنامہ انکار کراچی نے ان کی شخصیت فن اور شاعری پر خاص نمبر شائع کئے۔
سید جعفر طاہر :
قصبہ احمد پورسیال کے سید گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں تاکہ ہر میں پیدا ہوئے انتہائی تعلیم کے بعد فوج میں ملازمت اختیار کی کیپٹن کے عہدہ سے ریٹائر ہونے کے بعد ان دنوں ریڈیو پاکستان راولپنڈی سے رابستہ ہیں۔ عصر حاضر کے قادر الکلام شاعر ہیں۔ خاص طور پر کنٹشوز میں ان کی شہرت ہے غزال تعظم گیت بھی خوب لکھتے ہیں۔ ان کا مجموعہ کلام ہفت کشور” کے نام سے شائع ہو چکا ہے جس پر ان کو انعام ملا۔ ان دونوں جنگ شہر میں آباد ہیں۔
پروفیسر سید عبدالباقی:
اصل وطن گیا صوبہ بہار تھا ان کے والد سید احمد ند و لی جو
ان کی ایک انار و یا امیر آباد کی لیے گئےتھے سید عبد الباقی تمام پاکستان کے بعد منگ صدر میں آباد ہوگئے پاکستان کے علی صفوں میں آپ کی قابلیت مسلمہ ہے سائنسی شعبہ میں متعدد رضانی کتب کے مصنف المؤلف ہیں مشتہ ي مشهور ڈرامہ نما شیر کے ڈراموں کو اردو قالب میں ڈھانے کا مشکل کام شروع کئے ہو ئے ہیں۔
نخفض تمیمی ایڈووکیٹ:
ان کا نام مولا بی تقصی فر ق با تیم چنیوٹ کے رہنے والے
تھے راہ میں پیدا ہوئے بار میں مزاحیہ شاعری شروع
کی موسیقی سے بھی شغف تھا۔ طبلہ کی باقاعدہ تربیت حاصل کی وکالت کا استحان پاس کرنے کے بعد شائر میں روز نامہ زمیندار کے نائب مدیرہ نے بارہ میں چنیوٹ سے اپنا ماہنامہ چناب ، جاری کیا، پیروڈی کے ماہر تھے اور ہر بڑے شاعر کی غزل نظم کی پیروڈی کر لیتے تھے ان کی شاعری کا مجموعہ 19 میں شائع ہوا تھا۔ لاء کالج میں استا داورہائیکورٹ کے ایڈووکیٹ نہ میں وفات پائی۔
ڈاکٹر عبد السلام:
دنیا کے مشہور انیس اور ریاضی دان اور ایم بی اے ان کے عالمی انعام یافتہ جھنگ شہر کے رہنے والے ہیں ۔ ان کے والد
میر حسین قادیانی جماعت میں شامل ہو گئے تھے۔ لہذا موصوف بھی اسی جماعت سے وابستہ ہیں۔ طویل عرصہ حکومت پاکستان کے مشیر سائنس رہے۔
اودے لعل شفق :
جهنگ صدر کے رہنے والے تھے اور بہت اچھے شاعر تھے ان کی نظمیں درسی کتب میں شامل ہیں ان کی انفرادی خوبی ان کا نعتیہ کلام تھا جو شفق رنگ کے نام سے شائع ہوا۔
سید ارشاد علی:
سید جور مین شاہ شورکوٹ کے فرزند ہیں نیز نگ کی اعلی تقسیم حاصل کی اور ان کی خدمات اقوام متحدہ نے لے لیں اس وقت موصوف ہندوستان تنزانیہ اور پاکستان میں اقوام متحدہ کے فنڈ سے قائم ہونے والے اداروں کے فنی مشیر ہیں اور نیو یارک میں مقیم ہیں ۔
پنڈت پی این کول:
قصبہ پر کوٹ سدھانہ کے رہنے واے تھے۔ ہندوستانی
فوج میں ملازم ہوئے یہ میں جو پاک بھارت جنگ ہوئی اس میں ہندوستانی فوج کے الیسٹرن کمان کے انچارج تھے، ریٹائرمنٹ کے بعد ان کی خدمات اقوام متحدہ نے اپنی امن فوج کے لئے حاصل کیں موصوف علمی ذوق بھی رکھتے تھے ان کی کتاب ” ان کہی کہانی ، بہت مشہور ہے ۔
لالہ جمنا داس:
جھنگ شہر کے رہنے والے تھے ۱۹۳۵ء میں روزنامہ تیج دہلی کے ایڈیٹر مقرر ہوئے۔ پھر دہلی میں سکونت اختیار کر لی ہندوستانی پارلیمنٹ کے نمبر چنے گئے۔ آل انڈیا نیوز پیپرز فیڈریشن کے سیکرٹری رہے ۔ کچھ عرصہ جابی سی کے نیوز سیکشن کے انچارج بنے آج کل اقوام متحدہ کے شعر تصنیف تالیف سے وابستہ ہیں۔ ہندوستانی حکومت نے خواتین کی بازیابی کیلئے جو کیٹی مقر کی تھی اس کے چیٹر میں تھے اور قیام پاکستان کے بعد دو مرتبہ جنگ اسی سلسلہ میں آئے ۔
محمود شام:
طارق محمود اصل نام ان – ن کے والد صوفی شیر محمد صاحب مشہور حکیم کے ہیں اور ریاست پٹیالہ کی کانگریس کے صدر تھے، تمام قومی و بھی کھڑکیوں میں حصہ لیتے رہے۔ قیام پاکستان کے بعد جنگ شہر میں آباد ہورہے ۔ محمود شام نے تعلیم اس شہر میں ملک بھر مفت روزہ قندیل لاہور کے ایک بر متر ہوئے بعد میں روز نامہ جنگ کراچی اور ہفت روزہ اخبار جہاں کراچی کے ایڈیٹر رہے آج کل اپنا مہفت روزہ میاز جاری کر لیا ہے۔ ان کی شاعری کے دو کیر ھے اور ایک سفرنامہ کتابی صورت میں چپ چکے ہیں۔
چرخ چنیوٹی:
اصل نام شنکر راس تخلص چرچ تھا چنیوٹ کے پاس تھے غزل اور نظم دونوں پر عبور تھا-قیام پاکستان کے دہلی چلے گئےاور
الی انڈیاریڈیو کی اور سروس میں علامت اختیار کر لی۔ ان کا مجموعہ کلام میں دہلی سے شائع ہوا کہ میں سور گیاغش ہو گئے ۔
لالہ سدانزدرما:
جنگ کے قدیم ہفت روده جنگ سیال کے بر پیر تھے ایڈیٹر انسانے اور ڈرامے بھی لکھتے رہے۔ قیام پاکستان کے بعد
دہلی چلے گئے اور وہاں سے اسی نام کا اخبار جاری کیا اور جنگ کے بندروں اور سکھوں کی تنظیم قائم کی۔ آج کل بی بی سی کے ہندوستانی سیکشن میں کام کر رہے ہیں ۔
ساحرصدیقی مرحوم:
على تخلص ساحر تھا۔ امام ناصر الدین جاند ھر کے سجارہ نشین خاندان سے تھے۔ یزدانی جالندھری سے شاعری کا فن سیکھا طبیعت موزوں پائی سنتی جلد ہی ان کی شاعرانہ عظمت کی دھوم پہچے گئی ۱۹۴۶ء کے بعد جھنگ میں سکونت اختیار کی 1990 میں مشین سری کے مشاعرہ کے
وقت بیمار ہو کر وفات پائی نظم اور غزل دو نوں پر عبور تھا گرفت رسول ان کی من پسند صنف تھی۔ ان کے نعتیہ اور دیگر کلام کے مجموعے شائع ہو چکے ہیں ۔
کینگ آف ساندل بار :
مہرسمالیوں بھروانہ ساندل بار کے رئیس تھےاور ان کی پسندیدہ تھی مگران کی اصل خوبی یہ تھی کہ پنجابی کے قادرالکلام شاعرتھے ایک عرصہ تک ان کی شاعری کا تذکرہ رہا۔ اس خاندان میں اس وقت مہر جہانگیر بھروانہ ہیں ۔
پیر صاحب علی سحر:
چک کھر تحصیل جنگ سے گیلانی سادات سے علم رکھتے تھے اور شاعر مشرق علامہ اقبال مرحوم بے تکلف دوست تھے ان ہی کی وجہ سے علامہ اقبال ہ اور منہ میں دو مرتبہ جھنگ تشریف لائے موصوف کے پاس علامہ اقبال حسرت موہانی ، سولانا محمد علی جوہر، مولانا ابوالکلام آزاد ، مولانا عبد الباری فرنگی محل، مولانا حسین احمد مدنی ، قائد اعظم محمد علی جناح کے غیر مطبوعہ خطوط کا ذخیرہ تھا۔ موصوف کی ان اکابرین سے خط و کتابت تھی ۔ افسوس کہ ان کی وفات کے بعد محطوط کا علمی ذخیرہ ضائع ہو گیا۔
طاہر سر دهنوی:
قصبہ پر دھنہ ضلع میرٹھ سے اٹھ کر جھنگ شہر میں آباد ہوئے نظم اور غزل دونوں پر عبور تھا۔ مگر غزل بہت پیاری کہتے تھے کل پاکستان مشاعروں میں بلائے جاتے تھےمیں حرکت قلب بند ہونے سے وفات پا گئے مرحوم کا کلام ابھی تک کتابی صورت میں شائع نہیں ہوا ۔
آغا نو بهار علی خان:
لدھیانہ سے ہجرت کر کے جھنگ میں ان کا خاندان ۱۹۴۷ء میں آباد ہوا تھا۔ موصوف کو علم موسیقی سے بھی شغف تھا اور اس موضوع پر ان کی ایک کتاب بھی چھپ چکی تھی۔ شاعر تھے اور حضرت حیدر دہلوی سے شرف تلمذ حاصل تھا، بڑے وضعدار تھے1949میں وفات پائی۔
سیدہ عابدہ حسین:
کرنل سید عابدین مرحوم کی اکلوتی صاحبزادی اعلی تعلیم یافتہ انگریزی اور فرانیسی ادب کا گہرا مطالعہ رکھتی ہیں انتہائی ذہین اور زیرک ہیں پنجاب کی ثقافت اور ادب کے بارے میں ان کی تقریریں اور مضامین ملکی جرائد میں اہتمام سے شائع اور ریڈیو ٹیلی ویژن کے ذریعہ بھی نشر ہوتے ہیں نہایت اچھی مقرر ہیں اور آزادی نسواں کی علمبردار ہیں۔ ان کی حیثیت دوسری ہے۔ یعنی سیاسی اور ادبی شہرت رکھتی ہیں ۔
ڈاکٹر خواجہ محمد ذکریا :
ان کا خاندان امرتسر سے ہجرت کر کے جھنگ میں آیا ہوا ان کے والد خواجہ غلام نبی سلم تجارتی بورڈ کے سرگرم رکن تھے۔ محمد ذکریا کے بڑے بھائی خواجہ محمد کبریا نے ریاضی میں ڈاکٹریٹ کیا۔ خواجہ محمد ذکریا اردو کے ممتاز نقاد مانے جاتے ہیں۔ فن تنقید پر ان کی دو کتابیں چھپ چکی ہیں منشی پریم چند کے افسانوں پر ان کا تنقیدی جائیزہ علمی دنیا میں مقبول ہے۔
ڈاکٹر محمد ظفر منور :
دونوں حقیقی بھائی جنگ صدر کے قدیمی باسی ہیں۔ ڈاکٹر محمد ظفر نے کشمیر کے فارسی شعراء کے موضوع پر پی ایچ ڈی کیا غنی کا شمیری کی شاعری پر مسبوط کتاب لکھی ۔ اس کے علاوہ متعدد کتابوں کے مؤلف و مرتب ہیں اور یہ کتابیں پنجاب یونیورسٹی نے شائع کی ہیں۔ محمد منور خان شاعر ہیں۔ ان کی انقلابی نظموں کا مجموعہ "صدائے انقلاب کے نام سے میں شائع ہوا تھا۔
پروفیسر میاں محمد رفیق:
اسلام آباد یونورسٹی میں شعبہ تحقیق علاقائی تاریخ ادب کے پروفیسر ہیں۔ ان
کی متعدد کتابیں شائع ہو چکی ہیں جو علی دنیا میں مقبول ہیں۔ جھنگ کے مشہور حکیم میاں محمد افضل ہرل مرقوم کے بڑے صاحبزادے ہیں۔
پروفیسرصاحبزادہ الطاف علی:
خانوادہ حضرت سلطان ہائمو سے تعلق رکھتے ہیں اور بلوچستان کے ایک کالج میں پروفسیر ہیں موصوف نے سلطان العارفین کے پنجابی ابیات کا اردو میں ترجمہ اور تشریح کتابی صورت میں شائع کیا ہے جو ایک علمی کارنامہ ہے موصوف کے بڑے بھائی | غازی کشمیر صا حبزادہ غلام دستگیر کی شخصیت بھی علمی حلقوں میں متعارف ہے ۔
پروفیسر احمدنواز:
علاقہ بھوانہ کے رہنے والے ہیں۔ ادب و صحافت سے علمی دلچسپی رکھتے ہیں۔ موصوف کا ایک ناول چمن زار وفا ، کتابی صورت میں شائع ہو چکا ہے۔
پروفیسر خالد مسعود :
جنگ شہر کے حکیم صوفی شیرمحمد کے بڑے صاحبزادے اور مشہور صحافی محمود شام کے بڑے بھائی کچھ عرصہ اسلامیہ ہائی سکول جھنگ میں استادر ہے۔ بعد میں اسلام آباد یونیورسٹی میں پروفیسر لگے ۔ ان کی متعدد کتابیں چھپ چکی ہیں۔
پروفیسر سمیع اللہ قریشی:
گورنمنٹ کالج جھنگ میں شعبہ اسلامیات کے پروفیسر ہیں تاریخ علاقائی ثقافت پنجابی زبان اور ادب عالیہ کا وسیع مطالعہ رکھتے ہیں۔ ملک کے خالص علمی و ادبی جرا ئد میں ان کے فاضلانہ اور تحقیقی مضامین تواتر سے شائع ہوتے رہتے ہیں آپ نے پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے پنجابی کا امتحان اعزاز کے ساتھ پاس کر کے یونیورسٹی میں نیاریکارڈ قائم کیا۔ ریڈیو اور ٹیلی ویژن کے علمی پروگراموں میں شریک ہوتے ہیں۔
ظفر ترمزی:
سید محمد ظفر مذی سادات ساؤدھور سےتعلق رکھتے ہیں اور جھنگ میں آباد ہیں موصوف قدیم شاعری میں منفرد مقام اور شہرت رکھتے ہیں خاص طورپر علم عروض پران کو عبور حاصل ہے۔ انہوں نے مرزا غالب کے دیوان کا جواب لکھا۔ غالب کی تمام شیعری زمین پر غزلیں کہیں انھوں نے علم ومرین پرکتاب تسبیل العروض – علم اعداد کے اعتبار سے مرتب کی، فارسی عربی کے عالم ہیں اور وضعدار بزرگ ہیں ۔
نذیر ناجی علی اکبر عابس:
ان کا خاندان ریاست فرید کوٹ سے ہجرت کر کے جنگ شہر میں آباد ہوا ۔ نذیر احمد ناجی نے تحریک ختم نبوت میں حصہ لیا اور قید کا ئی۔ صحافتی زندگی کا آغاز 1900ء میں کیا کچھ عرصہ فلم انڈسٹری میں بھی رہے۔ ریڈیو پاکستان سے وابستہ ہیں۔ ان کے چھوٹے بھائی علی اکبر عباس جدید دور کے ادیب شاعر اور نقاد ہیں اور ٹیلی ورژیرن میں پروگرام انخراج ہیں
محمد حیات خان سیال:
جھنگ ہی کے رہنے والے ہیں اور گورنمنٹ کالج میں پروفسیر ہیں ادب عالیہ کا خوب مطالعہ ہے، مرزا غالب پر ان کی تالیف نے ادبی حلقوں میں مقام حاصل کیا۔ اس کے علاوہ متعدد الصبابی کتب بھی تالیف کیں ایک ایرانی ناول پر چہرہ کا اردو میں ترجمہ بھی کیا ادبی محفلوں میں ان کی شخصیت منفرد ہے۔
پروفیسر جی ایم ملک:
گورنمنٹ کالج جھنگ میں لیکچرار ہیں اور متعد د فالی کتابوں کے مؤلف بھی وسیع مطالعہ ہے ہر موضوع پر لکھتے ہیں ان کے اکثر مقالے ادبی جرائد میں شائع ہور تھے اور خراج تحسین حاصل کیا ۔
سید مظفر علی ظفر:
حویلی بہادر شاہ کے سادات گیلالی سے تعلق رکھتے ہیں زندگی کا بیشتر وقت فوج کی ملازمت میں گزرا۔ ان دنوں ایک سکول ہیں استاد ہیں۔ نہایت اچھے شاعر تصور ہوتے ہیں نظم، غزل دونوں پر عبور ہے۔ ہندی میں گیت بھی لکھتے ہیں اور تلسی داس کے نام سے ان کا مجموعہ کلام ، ظفر موج کے نام سے یاری ہے امارت کند جدید سیاسی جعرافیہ جھنگ میں شائع ہوا تھا ۔
حکیم عین الحق حیرت:
ان کے اجداد کابل سے اگر جھنگ صدر میں آباد ہر سے تھے ۔ اس خاندان میں عالم فاضل بزرگ گذر سے ہیں۔ ان کے والد ضیاء الحق حکیم اور شہر کے سیاسی قاہد تھے۔ حیرت مرحوم کے علوم مخفی شد سے پر عبور تھا اچھے شاعر تھے۔ ان کا مجموعہ کلام سروش حیرت کے نام سے جیپ چکا ہے۔
بیدل پانی پیتی:
غزل کے جدبید کر کے جمالیاتی شاعر ہیں اور خوب کہتے ہیں۔ ساجہ صدیقی مرحوم سے بلند تھا نوجوانی کے عالم میں شاعری کا ذوق جنون کی حد تک تھا۔ کل پاکستان مشاعروں کے مقبول شاعر ہیں
احمد تنویر:
ان کا خاندان پانی بہت سے جھنگ آباد ہوا ماند رسا پایا تھا ۔ کلیم بنی سے فیض حاصل کیا جدید شاعری میں جوتجریرات کئے جارہے ہیں موصوف کا بھی اس میں وافر حصہ ہے، غزل نظم گیت مینیون انصاف میں شعر کہتے ہیں۔ ان کا مجموعہ کلام کہتے کہتے گھروندوں کا سورج ، نام سے شائع ہوا تھا۔
مرزا معین تابیش:
کر نال سے ہجرت کر کے ان کا خاندان جنگ میں آباد ہوا نوجوان شعر میں ان کا مرتبہ بہت دینا ہے۔ غزل کے شاعر ہیں ان کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ ہمیشہ ادبی محفلیں سجانے میں مصروف رہتے ہیں۔ ادبی دنیا میں نئے چہروں کی دریافت ان کا خاصہ ہے۔
کبیر انور جعفری:
قصبہ احمد پور سیال کے قدیم شاعر ہیں نظم منزل اردو پنجابی فارسی میں خواب کہتے ہیں-ان کی پانچ کتابیں ارمغان اپران،دوہار باہو لب وغیرہ شائع ہوچکی ہیں ۔ اشعار ہی کتابیں زیر ترتیب ہیں۔ ان دونوں حضرت مولائی کے یہ کلام کا اردو منظوم ترجمہ کرنے میں مصروف ہیں۔ مختلف جرائد میں تواتر سے ان کا کلام چھپتا ہے ۔ ان کے صاحبزاد سے ظفر احمد پوری سبھی شاعر ہیں
ساجد اللہ تفہیمی:
جھنگ صدرکےمولاناعظمت االلہ تفہیمی کے صاحبزادے ہیں۔ پنجابی کی صوفیانہ شاعری پر پی ایچ ڈی کیا۔ اس وقت کراچی یونیورسٹی میں پروفیسر ہیں اور متعدد کتابوں کے مولف و مترجم ہیں ۔
اصغر شاہیا:
جھنگ کے نوجوان شعراء میں بمبار قسم کے شاعر میں شوکت لفظی ان کی نظم کا نمایاں جزو ہے غزل بھی کہتے ہیں مگر جدید نظم میں ان کا نوجوان شعراء میں کوئی جواب نہیں مستقبل کے قد آور اور ذہین شاعر ہوں گے
قدیر احمد قيس:
ان کا خاندان ریاست نابھہ سے ہجرت کر کے جھنگ میں آباد ہوا ۔ زمانہ طالب علمی سے شعر کہنے کا ذوق تھا۔ غزل اور نظم بخوبی کہتے ہیں ۔ مگر نعت رسول میں انکی حیثیت منفرد ہے ان کا نعتیہ کلام در تک مشہور ہے۔
شاد عباس گیلانی :
پیر کوٹ سدھانہ کے گیلانی سادات سے تعلق رکھتے ہیں-
آج کل شورکوٹ میں رپائش پزیر ہیں- غرل مرثہ اور قصیدہ خوب کہتے ہیں صاف ستھرے ذوق کے مالک میں علم جفری انکی متعد دکتا بیں شائع ہو چکی ہیں۔
احمد غفران:
جھنگ صدر کے باسی ہیں۔ ساحر صدیقی مرحوم سے شرف تلمذ حاصل ہوا بچہ گو شاعر ہیں۔ انکی شاعری فنی اعتبار سے بے داغ تصویر کی جاتی ہے۔ تاریخ کہنے کا خاص ملکہ حاصل ہے دیکھنے میں شاعر معلوم نہیں ہوتے۔
شارب انصاری:
ایم ایسے ہیں اور جھنگ شہری آباد میں پنجابی زبان کے قد آور شاعروں میں شمار ہوتے ہیں۔ پنجابی کی جدید شاعری میں جو نئے تجربات کئے جارہے ہیں ان میں ان کی ذہنی قوتوں کا خاصا دخل ہے۔ ان کی شاعری میں تخیل اور جدت کا احساس ہوتا ہے۔ پنجابی کے معاملے میں نازک جذبات رکھتے ہیں۔ ان کا مجموعہ کلام شائع ہونے والا ہے
عبد الغفور اظہر :
ادبی میدان میں انکی شخصیت امرت دھارا کی حیثیت رکھتی ہے یعنی نجابی، اردو فارسی تینوں زبانوں میں شعر کہتے ہیں۔ نظیم غزل ، گیت اور قطعات درباعیات میں مشق سخن کر رہے ہیں۔ پنجابی اور اردو میں ت ایسی کاملہ بھی رکھنے میں شاہ میں شاعر مشرق علامہ اقبال کے ارمغان حجازہ کا منظوم پنجابی ترجمہ کیا یہ کتاب چھپ چکی ہے اور بھی مختلف موضوعات پر موصوف کی تالیفات اشاعت کی منتظر ہیں ۔
غلام محمد رنگین:
موفع برخوردارتحصیل چنیوٹ کے ہنجر قبیلہ سے تعلق رکھتے ہیں خیال مراد آبادی سے اکتساب کیا۔ شاعری میں غزل ، نظم ، ربائی، قطعه گیت وغیرہ اصناف پر عبور حاصل ہے۔ پنجابی زبان میں بھی شعر کہتے ہیں۔ ۱۹۳۶ء میں ہفت روزہ عروج کے ایڈیٹر مقرر ہوئے تھے اب تک یہ اخبار انہی کی ادارت میں چھپ رہا ہے ” غنچہ مزنگین اور فسانہ ملت، نام سے دو جھوٹے ان کے کتابی صورت میں چھپ چکے ہیں ۔
حنیف باوا:
جھنگ شہر کی انصاری برادری سے تعلق رکھتے ہیں پنجابی زبان میں یہاں کے واحد نشر نویس ہیں۔ ان کے افسانے پنجابی جرائد میں تواتر سے شائع ہوتے ہیں ۔ کم گو اور ملنسار اور اپنی دھن کے پکتے ہیں ۔
خیر الدین انصاری :
جھنگ بدری میں ملازم ہیں ان کامطالعہ بہت وسیع ہے۔ ہر موضوع پر لکھتے ہیں۔ خاص طور پر افسانے میں ان کا منفرد مقام ہے اردو اور پجابی دونوں زبانوں میں خامہ فرسائی پر عبور ہے۔
مظہر اختر:
محمد ظہر اختر اپنے خاندان سمیت جھنگ آباد ہوئے شاعری کا زوق موجود تھا۔ ساحر صدیقی مرحوم سے فیض حاصل کیا بینزیم حالی کے سیکرٹری ہیں۔ اس وقت محکمہ امداد باہمی میں سب انسپکٹر کے طور پر ملازم ہیں
حکمت ادیب:
پانی پت کے قریشی خاندان سے تعلق رکھتے ہیں جنگ صدر میں آباد میں اور ادبی محفلوں کی جان تصویر ہوتے ہیں بہت کم کھتے ہیں۔ شریعی اظہار خیال کرتے ہیں۔
نذیر عرشی:
سونی بہت سے ہجرت کر کے پاکستان میں آباد ہوئے ۔ کچھ عرصہ محکمہ اوقات میں رہے۔ ان دنوں جنگ نیوز کے ایڈیڑ میں افسانے اور ڈرامے خوب لکھتے ہیں۔ ان کے افسانوں کی کتا ہیں اتنیا، کتیا، مقیا وغیر مشہور ہیں ۔
صفدر سلیم:
سیاست میں صفدر علی خان اور ادبی مجالس میں صفدر سلیم کے نام سے مسہور ہیں۔ احمد پور سیال کے رئیسں خاندان سے تعلق رکھتے ہیں۔ کالج کے درمیان سیاست اور شاعری کے میدان میں قدم رکھا۔ جدید ارگری شاعرانہ کلام می منفرد میں حضر مجید امجد مرحوم کی منتوں سے فیض اٹھایا۔ اچھے مقرر ادر ان تھک سیاسی درکر ہیں۔
پنڈت کانشی رام پردتھی :
احمد پور سیال کے رہنے والے تھے۔ قیام پاکستان کے بعد ہندوستان چلے گئے ہندی کے شاعر تھے۔ ہندی الفاظ اور محاوروں پر ایک کتاب در ویدانت کے نام سے لکھی جو شائع ہو چکی ہے۔ ان کے ساتھیوں میں کھیم چند پر یتیم اور چیون دااس چرن بھی اپنے دور کے مشہور شاعر تھے۔
سکندر خان حامی مرحوم:
راستہ آستانہ کے بلوچ خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔ نہایت بسلجھے ہوئے ادیب منفرد شاعر تھے ہفت روزہ تران میں زورن کے خطوط کے نام پر معاشرتی اصلاحی مضامین لکھتے رہے۔ ان کی بعض نظمیں بہت مشہور ہیں فوج میں کرنل کے عہدہ سے ریٹا کرہ ہو ئے ۔
فیض گوہرجعفری:
گڑھ مہاراجہ کے رہنے رائے ہیں۔ نور لدھیانوی سے اکتساب کیا ان کے کلام کا مجوعہ شائع تھا صاف ستھرا ادبی ذوق رکھتے ہیں۔
ریاض رام:
ان کا خاندان پانی بہت سے نقل مکانی کے بعد جنگ شہر میں آباد ہوا ۔ نہایت اچھے شاعر ہیں ۔ غزل میں منفر د مثبیت ہے ان دنوں خاندانی منصوبہ بندی لاہور میں پیلیٹی افسر ہیں ۔
سید منظور حسین نقوی:
ضلع امرتسر میں ان کا خاندان جنگ میں آباد ہوا۔ بہت اچھے شاعر ہیں، غزل پسندیدہ مو ضو ع ہیے،مگر ان کی اصل خوبی بدلہ ہے پر محفل میں محترم ہیں، ان دنوں گورنمنٹ ہائی سکول ریل بازار کے ہیڈ ماسٹر ہیں .
رحمن فراز فیض شور کوٹی:
دونوں حقیقتی سبھائی قصبہ تیرک سیال کے رہنے والے ہیں اور اچھے شاعر ہیں درحمن فراز ریڈیو پاکستان ملتان سے وابستہ ہیں ان کے ریڈ یا کی بو گرام عوام میں مقبول ہیں
ایثار راعی:
جھنگ سور کے رہنے والے ہیں جنگ کی ادارت سے سحافت شروع کی مختلف اخبارات سے وابستہ رہے۔ شاعری کا صاف ستھرا ذوق رکھتے ہیں۔ ملک کے ادبی صحافتی حلقوں میں مقبول ہیں۔ ان دنوں ملتان میں روز نامہ مشرق کے ایڈیٹر انچارج ہیں
غلام مرتضے ترک :
تحمیل جنگ کے رہنے والے اور وسیع مطالعہ رکھتے ہیں۔ منقدر نصابی کتابوں کے مؤلف ہیں ان دنوں گرنے کالج جنگ میں سوشیالوجی کے لیکچرار ہیں ۔
مولاناگوہر صدیقی:
نام خورشید احمد پیالہ سے تقسیم ملک کے بعد خاندان سمیت جنگ صرر میں آباد ہوئے۔ اپنی اور آپ کے تخت زندگی بنائی ۔ مدرسہ برکات الاسلام سے علمی زندگی کی ابتدا کی، پھر غزالی انٹک ملک کی بنیاد ڈالی۔ ان دنوں مذکورہ کا بل حکومت کی تحویل میں ہے اور موصوف اس کے پرنسپل ہیں۔ سکھے ہوئے مقرر اور سنجیدہ ترین ادیب ہیں۔
رنگ علی شاہ :
بخاری سادات سے تھے۔ موضع باغ میں رہائش تھی پنجابی کے بہترین شاعر تھے موصوف نے ہیر رانجھا کے قصہ کو پنجابی میں نظم کیا۔ ان کی یہ کتاب قلمی موجود ہے-
پنڈت کشمیری لعل ترکھہ:
جھنگ شہر کے رہنے والے تھے۔ پنجابی زبان میں شاعری کا تخلص بھگوان تھا۔ مہارانی در دیدی کی ساڑھی کا واقعہ ہند و تاریخ کا نمایاں باب ہے موصوف نے اس واقعہ کو پنجابی زبان میں نظم کیا۔ ان کی کتاب ہ میں شائع ہوئی تھی ہ میں مرگباش ہوئے ۔
مولانا عبد الرشيد حنيف:
جھنگ کے رہنے والے اور مسلک اہلحدیث کے پر جوش مبلغ ہونے کے علاوہ کم و بیش ۲۸ کتا بوں کے مؤلف و مرتب ہیں۔ ان میں کچھ عربی کتب کے تراجم بھی ہیں۔ واقعہ کر بلا پر انکی ایک کتاب حکومت نے ضبط کرلی ہے۔ یزیدین معاویہ کے موضوع پر ان کے مقالے شائع ہو چکے ہیں جن میں یزید کی خلافت کو برحق لکھا گیا۔ ان کتابوں میں نقوش صحابہ ، معجزات رسول ، تنویر معاشرہ وغیرہ بہت مشہور ہیں ۔
محمد فیروز فارقی:
جھنگ صدر کے ایک دینی گھرانہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان دنوں غزالی کالج میں لیکچرار ہیں۔ ان کے مضامین ملک کے علمی جرائد میں شائع ہوتے رہتے ہیں۔ انکی وفات النبی و توحید کا نکتہ ماسکہ شرح حدیث مغفور امی کتابیں شائع ہوچکی ہیں یزیدبن معاویہ کو خلیفہ برحق اور پاکباز قرار دیتے ہیں ۔ اور اس موضوع پر بحث و مذاکرہ ان کا دلچسپ مشغلہ ہے”
طاہر القادری ایڈووکیٹ:
جھنگ صدر کے حکیم فرید الدین مرحوم کے صاحبزادے ہیں تاریخ اور اسلامیات کا وسیع مطالعہ رکھتے ہیں۔ بہترین اور پر جوش مقر ہیں ۔ سیرت النبی پر ان کے مضامین چھپ چکے ہیں ۔میں ان کے افسانے التزام سے چھپتے ہیں اور پسند کئے جاتے ہیں۔ انگریزی لفظ اور ارازوں کی شناخت کے لئے ایک کتاب تالیف کی ۔ ایک ناول کے بھی مصنف ہیں-
حافظ جمال محمد مرحوم:
مرموت تصبہ سنبھالکہ تحصیل پانی پت کے علی لیا گھرانہ سے تھے درویش اور صوفی منش شاعر تھے ۱۹۲۶ء میں جنگ صدر آباد ہوئے ۔ طویل عرصہ ادبی مجالس کا انصرام کرتے رہے قدیم شاعری میں ان کا انداز منفرد منھا عربی فارسی، اردها در مہندی زبانوں میں شعر کے ۱۳۴۳ھ میں وفات پائی۔
چوہدری خلیل الرحمن:
آپ تحصیل پانی بہت کے زمیندار گھرانہ سے تعلق رکھتے ہیں تاہم پاکستان کے بعد جنگ صدر میں آباد ہوئے کچھ عرصہ میونسپل کمشنر ر ہے شاعری کا مان سنمرا ذوق رکھتے ہیں۔ قدیم شاعرانہ مزاج کے حامل ہیں اور جنگ کی ادبی مجالس کی رونق بھی۔
پروفیسر حافظ احمد یار:
موضع حبیب جھنگ کے نول قبیلہ سے تعلق رکھتے ہیں متعد رنصابی کتب کے مؤلف ہیں اس وقت شعبہ علوم اسلامیہ پنجاب یونیورسٹی سے وابستہ ہیں اور بہت اچھے مقرر ہیں دل کے چھوٹے بھائی بشارت خان اچھے منفرہ ہیں۔
غلام یاسین حیرت:
حویلی بہادر شاہ کے تریشی النسل ہیں محکم تعلیم سے وابستہ رہنے کے بعد ریٹائر ہوئے ہیں قوی نظمیں اور نعتیہ شاعری میں ان کی شہرت تھی۔ پرویز شاہ خاور ان کے لڑکے ہیں۔
۔