کوٹ ادو کا ادب

کوٹ ادو: بیٹ تے پیلے دا شاعر فیض فریدی

پروفیسر اعمران میر

بیٹ” اور "بیلا سرائیکی ثقافت کے "سنجا پو” مظاہر ہیں جن کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں کیونکہ بیٹ” غربت مفلسی اور توہمات کی آماجگاہ کے باوجود فطری رنگوں سے مزین دھرتی کا نام ہے اور میلا“ بھی اپنے تہذیبی اور فکری پس منظر کے حوالے سے خاصہ اہم ہے سرائیکی شوانے کرام نے بیٹ اور پہلے کو استعاراتی حوالے سے اپنی شاعری میں نہ صرف استعمال کیا ہے بلکہ بیٹ“ پہلے کی مسلسل تکرار سے کچھ شعراء تو محض ‘بوڑی یا بیلوی ہو کر رہ گئے ہیں انہیں اس تکرار سلسل سے نکل کر عالمی تحریکات سے ہم قدم ہو کر چنا ہوگا ۔ اور فکری پوست سے نکل کر اپنے مقامی استعاراتی نظام کو از سرنومشکل کرنا ہوگا۔ اور اپنے فکر وفن کو ہر سطح پر اجالنے کیئے نئی تحریکات سے آشنائی، لسانی تشکیلات کا مطالعہ عالمی تحریکات کے مضمرات و ثمرات کی پہچان کیساتھ ساتھ زبانی کے گوار اور علمی لہجے میں بھی حد فاصل مقرر کرنا ہوگی اور اپنے آپ کو علمی ،سماجی اور تہذیبی شعور میں رچنا لیتا ہوگا کیونکہ اسی صورت میں ہی تاریخی مغالطوں سے پاک خوبصورت فن پارے تخلیق کیئے جاسکتے ہیں خیر یہ تو یہ بیل تذکرہ بات طول اختیار کرگئی ورنہ مجھے فیض فریدی کی شاعری یہ کچھ حروف لکھنے تھے۔ فیض فریدی کا شعری مجموعہ ہیٹ تے بیلا جھوک پبلشر ملتان کی طرف سے 1997ء میں طبع ہوا جو کہ کافی غزل، گیت ، ڈوہڑے اور قطعات پر محیط ہے ضیض فریدی کا یہ شعری مجموعہ اپنے فکری پس منظر کے حوالے سے بہت اہم ہے کیونکہ اس جموعے کے مطالعے سے شاعر موصوف کا اپنی ثقافت اور دسوں کے بے پناہ پیار بھی نظر آتا ہے اور سب سے بڑھ کر یہ احساس پیدا ہوتا ہے کہ تہذیب نوی کی روند د ینے والی چیزی نت نئی ایجادات اور آنکھیں خیرہ کر دینے والی رنگا رنگ اشیاء صرف ہا شا عریہ بہت تھوڑا اثر پڑا ہے فیض فریدی حدت کے نام پر ہونے والے تہذیبی باز کو جب لمحہ لمحہ بڑھتا دیکھتے ہیں تو انہیں اپنے بیٹے کی موجودگی ا احساس متحرک پہ اکساتا ہے اور وہ بیٹ کے بھائوں لئی کی رانوں اور بھنگ کو احساس کمتری کا شکار ہوئے بغیر زندگی کا اثاثہ سمجھتے ہیں اس حوالے سے و ڈوہڑہ ملاحظہ کریں۔ تیڈے نظریں بے شک بھنگ اے بھوئیں ، پر ساکوں یار بسانے لائیاں لانے کا نہاں کا نے رونق بیلے دی ہن جھوک دی زینت بھانے اور پرانے بیا مال دے نال ہے شان ساڈی توں جانے یا نہ جانے سالوں بھانے سالوں قسم خدادی بیٹ دے ڈسدن وٹے فیض سرانے طول وہانے بیرونی حملہ آوروں کی مسلسل آمد ورفت اور جنگی جنون کی وجہ سے سندھ کا عظیم خطہ دارالحرب بتارہا اور یہاں کے مقامی آدمی کو جو کہ اس محلے کا اصل وارث تھا جب آریاؤں اور دراؤوں کے عہد میں نہ صرف بے دردی سے کچلنے کی مساعی کا آغاز ہوا بلکہ اس کی شناخت بھی کمی کمین کتانے اور راخس ایسے ” کو جھے الفاظ کی تہوں میں چھپادی گئی تو وہ مقامی آدمی کٹانا ٹھہرا احیلاف ٹھہرا اور مہانا ٹھہرا آج کے علمی ماحول میں بھی نام نہاد تہذیب کے علمبر دار اور رہبران ملت بھی اس آدمی کو (Own) کرنا پر آمادہ نہیں ہیں بلکہ اس کے وجود ہی سے انکاری ہیں تو ایسے میں اس امر کی از حد ضرورت ہے کہ لوگوں میں یہ شعور عام کیا جائے کہ آدمی پیشے سے نہیں پہچانا جاتا بلکہ اس کا شخص اس کی قوم، زبان، ثقافت مذہبی عما تداور فرافیائی ما را سے ابھرتا ہے فیض فریدی کے اشعار میں پیڑیاں چھیلنے والے مہانوں ” اور "میرا سے تعلق رکھنے والے عامی طبقوں کی عمدہ منظرشی کی گئی ہے جس سے لیس کے ہیں
شعور کا سراغ لگایا جاسکتا ہے۔

کل بیٹ راہیٹ میں کیا آکھا، ایہو ہک منتظر نی ماون را
جڈاں سندھ دی سیٹڑھ تے ٹر جلدے ہن بیڑیاں میں مہانے

محبوب سے مکالمے، اس کی خوبصورتی کے تذکرے اور اس کے شیتمان کا ناک لفت فیض فریدی خوبصورت انداز سے کھینچتے ہیں۔

جتھاں ڈیکھوں جہاں جھکرا اور تیڈا گھر سمجھدے ہیں
ڈیندے دستک ہیں پلکیں نال نازک دور سمجھدے ہیں
تیڈی ہن زلف ریتم دا جیگر کوئی وال ترٹ پورے
اساں چم چم کے چھیندے ہیں مقدس پر سمجھدے ہیں

ہجر کا بھانبڑ جب سینے میں آگ لگا تا ہے تو آدمی اس تپش سے نہ صرف ہلاتا ہے بلکہ اس کے تریاق کی تدبیریں بھی سوچتا ہے اور جب محبت کی کہانی ادھوری رہ جائے تو عاشق نامراد کو کب چین پڑتا ہے وہ بھی ہر صورت اپنی محبت کو امر کرنے کیلئے اور وصل کے حصول کی خاطر ہر قسم کے کشٹ اٹھانے پر آمادہ ہو جاتا ہے لیٹن فریدی کی غزلیں فکر وفن کے حوالے سے اہم ہیں ان کی غزلوں کے موضوعات عوامی اور عمومی ہیں جس میں عشق و محبت کی کہانیوں کے ساتھ ساتھ بیٹ پہلے کے عاشقوں کے وطائر ملاحظہ کیئے جا سکتے ہیں نمونہ کلام درج ذیل ہے

تیڈی ساڈی محبت دا اجاں قصہ ادھورا ہے
صرف قصہ محبت دا ستاون روز آندے ہیں ۔

تیڑے ناں واپھلدار چولا سوا کے ولا آپ پانواں میڈا ہاں کی تھیدا جیڑے نانویں دا ہے تہوں سمجھ چھوڑے میں کیویں ہنڈاواں میڈ اہانی تھیندانی جے مدت دا لکھا تھا کوئی گدا گرا جن چیت مارے میڈے گھر بھنوالی پیڑے سردا صدقہ ہے خیرات منگے میں خالی ولانواں میڈا ہاں کی تھیندا

 

یہ مضمون پروفیسر اعمران میر کی کتاب ” پس غبار "سے لیا گیا ہے

یہ بھی پڑھیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button

For copy this text contact us :thalochinews@gmail.com