نیاز کو کب مرحوم، بیاض سونی پتی کے چھوٹے بھائی تھے آپ نے عملی زندگی کا آغاز بلدیہ کوٹ ادو میں بطور کلرک کی حیثیت سے کیا اور انسپکٹر چونگیات کے عہدے سے ریٹائر منٹ کی شعر و شاعری سے شغف بچپن ہی سے تھا اور یہی شغف اور شوق جب جنون میں بدلا تو آپ سرا پا شاعر ٹھہرے مسلسل ریاضت اور حضرت بیاض کی صحبت نے نیاز کو شعری محاسن اور شعری رموز و علائم سے مستنیر کیا۔ نیاز کوکب نے قطعات ، حمد ونعت نظمیں اور غزلیں پورے اعتماد سے کہیں عام واقعات کو اپنے مشاہدے اور بصیرت سے تخلیقیت میں بدلنا نیا ز کو کب کا وصف امتیاز ہے ان کا کلام سلامت فکری اور عام بول چال جیسی لفظیات کا مرقع ہے نیاز کوکب اپنی آرزووں اور امنگوں کو جب حرفوں میں ڈھالتے ہیں تو ان کا شعری قرینہ دعوت نظارہ دیتا ہے نیاز کو کب جب غزل کہتے ہیں تو گداز اور سوز کے ساتھ خوبصورت بندشوں کا اہتمام کرتے ہیں جب موضوعاتی نظمیں لکھتے ہیں تو عنوان زیر بحث کی مبادیات اور منہاجیات کو گہرے تدبر سے قلمبند کرتے ہیں جب قطعات لکھتے ہیں تو قطعات کے شعری اور عروضی آہنگ کو بھی مدنظر رکھتے ہیں جب طنز و مزاح لکھتے ہیں تو اشراف اور اجلاف کی تفاوت کو پیش نظر رکھتے ہیں اور جب نعت لکھنے کا اہتمام کرتے ہیں تو تہذیب و ادب اور حب جمال مصطفی اور ان کی اکملیت کو کھولا خاطر رکھتے ہیں۔ مثلاً
وہ کیک پیتا ہے دن رات مدینے میں
و انوار کی ہوتی ہے برسات مدینے میں
طیبہ میں اگر جاؤں پھر جاکے نہ میں آؤں
کعبہ میں بسر دن ہو اور رات مدینے میں
نیاز کو کب کی لکھی ہوئیں نعتیں ان کی باطنی ترب اور دینے پہنچنے کی آرزوں کو خوبصورتی سے بیان کرتی ہیں نیاز کو کب جب مدینے کو چشم تصور میں دیکھتے تو ان کا روم روم جھوم اٹھتا اور وہ ملتجیانہ نگاہوں سے سوئے فلک دیکھتے
اور یہی ارداس کرتے ۔
تڑپتا دل ہے طیبہ دیکھنے کو
شاہ والا کا روضہ دیکھنے کو
تمنا ہے میں آنکھیں وقف کر دوں
محمد کا دیکھنے کا
کلام نیاز سے یہ بات بھی واضح ہوتی ہے کہ انسان کی رہائی صرف اور صرف اسوہ رسول پر عمل پیرا ہونے میں ہے اگر ہادی عالم کی مودت اور ان کی سیرت کونشان منزل ٹھہرالیا جائے تو اسی صورت ہی انسان کو تقرب خداوندی حاصل ہوسکتا ہے نیاز کوکب کی نعتیں فلسفہ اسلام اور کیف و جذب کی لے کو بھی آشکار کرتی ہیں۔
کتنی خوش بخت یقینا وہ چٹائی ہوگی
نیند جس پر ترے محبوب کو آئی ہوگی
ہم گنہگار سیاه کار خطا کار سہی
کملی والے کے وسیلے سے رہائی ہوگی
نیاز کوکب کی غزلیں آئی ریاضت اور تغزل کو خوبصورتی سے بیان کرتی ہیں ۔ مثلا یہ شعر
میری نگاہ بری، میں برا، خیال برے
اداس چہرہ گریبان چاک، حال برے
جس مزاج کی موجودگی انسانی آلام کی تعلی کو کم کرنے کیلئے از حد ناگزیر ہوا کرتی ہے کیونکہ جب آدمی عہد در عہد اور قرن در قرن لاحاصلی، پڑدگی ، خوف ، اور مایوسی کا شکار چلا آ رہا ہو تو اس کی مزاجی کیفیات کو خوشی اور سرخوشی میں بدلنا از حد ضروری ہو جاتا ہے۔ نیاز کوکب نے اپنی حس ظریف کو بروئے کار لا کر مزاحیہ کلام بھی تخلیق کیا اور اس میں بھی تہذیب اور سلیقہ شعاری کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا۔ مثلاً
ان سے جب اپنی نگاہیں لڑ لڑا کر رہ گئیں
بجلیاں سی اپنے دل پر کڑ کڑا کر رہ گئیں
نخل امید تمنا بے ثمر اپنا رہا
پتیاں آئیں مگر سب جھڑ جھڑا کر رہ گئی
وصل سے انکار سنکر یہ تھا امیدوں کا حال
بلبلیں گویا قض میں پھڑ پھڑا کرو گئیں
نیاز کوکب مرحوم لطیف جذبوں کے خوبصورت شاعر تھے ان کا کلام ان کی شخصی سچائی کا امانتدار ہے نیاز کو بند خضری سے جس درجہ والہانہ لگاؤ تھا اس کی نظر فی زمانہ مفقود ہے مدینہ دیکھنے کی تڑپ اور مدینے میں سانس لینے کی آرزوان کی رگ رگ میں کمائی ہوئی تھی یہی وجہ ہے کہ آپ ایک محفل نعت میں نعت پڑھنے کے دوران فوت ہوئے۔
یہ مضمون پروفیسر اعمران میر کی کتاب ” پس غبار "سے لیا گیا ہے