
اردو ادب زندگی کی تمام تر رعنائیوں کو اول روز سے اپنے ساتھ لے کر رواں ہے۔ نت نئے دور کے تقاضوں میں اس کی جہات میں تبدیلی کا عنصر دیکھنے کو ملا ہے۔ عصری تقاضوں کو قبول کرتا ہوا اردو ادب دنیائے ادب میں اپنا مقام بنا چکا ہے۔ ایک دور تھا جب عرب اپنے ادبی مقام کی وجہ سے منفرد اہمیت کے حامل تھے۔ اسی مقام کو بعد میں انگریزی ادب نے حاصل کرنے کی سعی کی اور کسی حد تک دنیائے ادب پر راج کیا۔ دور حاضر میں اردو ادب کی ترویج و ترقی یہ ظاہر کرتی ہے کہ اردو ادب آنے والے وقت دنیائے ادب کا سرخیل ٹھہرے گا۔ اردو ادب کو یہ مقام دلانے میں اردو شعرا کا کردار نمایاں ہے۔
اردو شاعری نے جہاں بڑے بڑے شہروں کو اپنی آماجگاہ بنایا وہیں مضافات نے بھی اردو ادب کو ترویج دینے میں اپنا واضح کردار ادا کیا ہے۔ ایک طرح سے فطرت کے قریب تر ہونے کی وجہ سے مضافات کے ادیبوں اور شعرا نے اردو ادب کو زیادہ خوبصورت پیرائے میں پیش کیا۔ ایک ایسا پیرائیہ جس کی رنگینی میں فطرت کے سارے رنگ اپنی جدت آمیزی کے ساتھ موجود ہیں۔
مضافاتی شہروں میں کوٹ ادو کو ایک خاص مقام حاصل ہے۔ جس آغوش میں پٹھانے خان جیسے عظیم گائیک پرورش پائی۔ اور جس کی گائیکی کی گونج نے پورے پاکستان کو ان کی وفات کے بعد بھی اپنے سحر میں مبتلا کیا ہوا ہے۔ کوٹ ادو کی سر زمین پر نامور شعرا نے جنم لیا۔ انہیں ناموں میں سے ایک نام پروفیسر عمران میر کا بھی ہے۔
علم کا یہ شیدائی اردو اور سرائیکی میں ایم اے کرنے کے بعد اپنی علمی تشنگی کو ساتھ لے کر ایم فل کی راہ پر گامزن ہوا اور اگلا ہدف پی ایچ ڈی کے لیے تیار ہے۔ کم عمری میں شعبہ تدریس سے منسلک ہوئے۔ پنجاب پبلک سروس کمیشن کے ذریعے بطور لیکچرار سرائیکی گورنمنٹ پوسٹ گریجوایٹ کالج مظفرگڑھ میں 2013 میں تعینات ہوئے۔ اور صدر شعبہ سرائیکی اپنی خدمات سر انجام دیں۔ اس وقت ڈیرہ غازی خان میں پوسٹ گریجویٹ کالج میں صدر شعبہ سرائیکی خدمات انجام دے رہے ہیں۔
ادبی طور پر اول دن سے انتہائی متحرک شخصیت ہیں۔ خواجہ فرید لٹریری فورم کوٹ ادو کے پلیٹ فارم سے پچھلے بیس سال سے ادبی محافل، مشاعرے، کتابوں کی رونمائی، دوستوں کے اعزاز میں ادبی محافل کا انعقاد کا ایک ایسا تسلسل ہے جس میں کبھی خلل واقع نہیں ہوا۔ یہ انہیں کا خاصہ کہ کوٹ ادو کی ادبی فضا کو پر رونق کیے ہوئے ہیں۔
مزاج میں لکھنوی تہذیب کی جھلک نے انہیں ہمیشہ نمایاں رکھا ہے۔ ان کے لہجہ، انداز گفتگو، طبیعت کا ٹھہراؤ، متانت ان کے مزاج کی پختگی کے غماز ہیں۔ ملنساری میں ان کا کوٹ ادو میں کوئی ثانی نہیں ہے۔ مہمان نوازی کرتے ہوئے واضح دکھائی دیتا ہے کہ سدو زئی پٹھان ہیں۔ ان کی بیٹھک ہمیشہ شاعروں اور ادیبوں کی میزبانی میں پیش پیش رہی ہے۔
ادب کی خدمت کو اول دن سے اپنا شعار سمجھتے ہیں اسی شعار کو سنبھالتے ہوئے ادبی مصروفیت کو خود پر طاری کیا ہوا ہے۔ ملتان سے شائع ہونے والے سہ ماہی ادبی رسالہ "پیلوں” اور لاہور سے شائع ہونے سہ ماہی رسالہ "اوراق ادب” میں معاون مدیر کی خدمات کے ساتھ ساتھ سہ ماہی رسالہ "بور” کے مدیر کے فرائض منصبی مکمل جانفشانی سے ادا کررہے ہیں۔ سرائیکی تنقید میں "کمت” ان کی شہرہ آفاق کتاب ہے۔ اردو تحقیق و تذکرہ پر مشتمل ان کی کتاب "پس غبار” تحقیق میں ایک خاص مقام کی حامل ہے۔
شاعری ان کا اوڑھنا بچھونا ہے۔ اننکی شاعری میں عصر حاضر کی تمام تر جہات اپنی تابانی کے ساتھ موجود ہیں ۔ شعر کہتے ہیں اور تواتر سے شعر کہنا ان کا خاصہ ہے۔ ان کی شاعری میں فکری پختگی کا رحجان زیادہ ہے۔ ان کے اشعار انہیں قاری کے سامنے ایک مفکر کے طور پر پیش کرتے ہیں جو فلسفہ کی گتھیاں اپنے اشعار کے ذریعے سلجھانا چاہتا ہے۔ موضوعات کا چناؤ ان کے ہاں ان کی ذہنی بلوغت کا عکاس ہے۔ ان کے شعر کہنے کا انداز اس بات کا ثبوت ہے کہ ان کے لیے شاعری دور حاضر کے شعرا کی طرح شغل نہیں بلکہ ایک مقصد ہے۔ اور وہ اپنے ہر شعر میں اسی مقصد کے حصول کی کوشش میں سرگرداں دکھائی دیتے ہیں۔ انہوں نے عہد حاضر کے رحجان کے مطابق یونیورسٹی کے کچے ذہنوں سے واہ واہ کہلوانے کےلیے شعر کہنے کی ضرورت محسوس نہیں کی بلکہ فکری تنوع کے ساتھ اپنی شاعری کو مقصدیت کی منزل کی طرف رواں دواں رکھا ہے۔
فکری وسعت سے بھرپور ان کی شاعری بالیدہ اذہان کو اپنی طرف متوجہ کرکے انہیں فکر کی راہوں کا مسافر بنا دیتی ہے۔ ایسی فکر کی راہیں جن کی منزل انسانی معراج کی طرف جاتی ہیں۔ ان کے کچھ اشعار ملاحظہ فرمائیں۔
دشت میں روشنی کے ہالے تھے ٠٠٠ دیر تک چاندنی رھی مجھ میں۔
بھلا اب کون سنے جا کے بات دریا کی ٠٠٠
سمندروں نے ہڑپ لی ہے ذات دریا کی
اجاڑ شام کی وحشت طویل کرنے کو ٠٠٠٠٠
کوئی تو ہے جو چراغوں کو قید کرتا ہے
فقط چراغ کی ہی موت ہونے والی نہیں ٠٠٠
ہوا درانتیاں لے آٸ پات کاٹنے کو
آگ پانی میں لگنے والی ہے ٠٠٠ کشتیاں ساحلوں پہ لے آؤ۔
محبتوں کی راہوں کے مسافر آخر کار عشق کی منزل کو پہنچتے ہیں اور یہی وہ منزل ہوتی ہے جسے پاکیزہ دل اپنی روحانی تسکین کی خاطر سر کرنے کی تگ و دو میں رہتے ہیں۔ ایک شاعر کا دل پاکیزگی کا منبع ہوتا ہے۔ پروفیسر عمران میر بھی محبت کی مسافرت میں عشق کی منازل کا مسافر بنتے ہوئے اپنی نفی کے پہلو پر اتر آتے ہیں۔ ایسی نفی جہاں بولنے کی گنجائش مسدود کرکے صرف احکامات کی تعمیل میں بڑائی محسوس کی جاتی ہے۔ جہاں بولنا مفقود ہوجاتا ہے اور دل اس بات پر آمادہ ہوجاتا ہے کہ صرف کسی کی شیرینی آواز کو سن کر روح کی تسکین کا سامان کیا جائے۔ یہی تقدس عشق کا خاصہ ہے۔ اسی تقدس کو سامنے رکھتے ہوئے پروفیسر عمران میر گویا ہوتے ہیں۔
میاں یہ عشق کی تقدیس کے منافی ہے ٠٠٠
حضور حسن سبھی گفتگو اضافی ہے
انسانی عقل اول دن سے بغاوت کی طرف مائل رہی ہے۔ سماجی منافرت کے خلاف بغاوت، سماجی نا انصافی کے خلاف بغاوت، فرسودہ نظام کے خلاف بغاوت، استحصالی طبقہ کے خلاف بغاوت، اور وقت کے خداؤں اور یزیدوں کے خلاف بغاوت۔۔۔۔۔ اس بغاوت کے عنصر کا کسی شاعر کے ہاں ہونا کوئی اچنبھے کی بات نہیں۔ معاشرے کا مفکر ہونے کے ناطے ایک شاعر ہی پوری قوم کی راہنمائی کا فریضہ سر انجام دے رہا ہوتا ہے۔ اور اگر شاعر ہی وقت کے خداؤں اور یزیدوں کے خلاف بغاوت کا علم بلند نہیں کرے گا تو باقی لوگ بھی بے حسی سے تمام تر مظالم کو اپنا مقدر سمجھ کر خاموشی کی چادر اوڑھ لیں گے۔۔۔ عمران میر کی شاعری میں ایسے رحجانات کی بہتات ہے کچھ اشعار دیکھیں۔
مجھ کو آتا ہے یزیدوں سے بغاوت کرنا ٠٠
میں ترے ہاتھ پہ بیعت تو نہیں کر سکتا
میں روند ڈالوں گا اپنے لہجے سے جھوٹے منصب٠٠
میں اب عدالت میں انکساری نہیں کروں گا
محبت کے پرتو انسانی ذات کا مظہر نہ ہوں تو اسے انسان نہیں کہا جا سکے گا۔ یہی مظاہر در حقیقت اس کے انسان ہونے کی دلیل ہیں۔ کسی بھی شاعر کی شاعری میں محبت کی آموزش نہ ملے ایسا ممکن نہیں ہے۔ شعرا کا مذہب ہی محبت ہے۔ اسی ایمان کے تحت ان کی زندگی لطیف احساسات کو اپنے اندر سمو لیتی ہے۔ اور یہی لطیف احساسات ہی اسے زندگی کے معانی سمجھنے میں معاونت کرتے ہیں۔ پروفیسر عمران میر اپنی شاعری میں مخصوص انداز بیاں کے ذریعے اس جذبے کو اجاگر کرنے کی سعی کرتے ہیں۔ شعر دیکھیں۔
مانگ کس شخص نے سنواری ہے ٠٠ آئینے پر بھی سکتہ طاری ہے
دشت وحشت جنون رسوای ٠٠٠
سب کے سب کاروبارِ صحرا ہیں
کوٹ ادو کی دھرتی کا یہ روشن ستارا اردو کے ساتھ اپنی ماں بولی سرائیکی کا حق ادا کرنے کی کوشش میں بھی ہمہ وقت مصروف ہے۔ ان کی سرائیکی شاعری بھی وقت کے تمام تر رحجانات کو اپنے اندر سمو کر سرائیکی ادب کو قوس قزح کے رنگوں سے آشنا کرنے کی سعی میں ہے۔ عصری جہات کا یہ شاعر اردو اور سرائیکی ادب کے صحراؤں کو اپنی فکری صلاحیتوں کی آبشاروں کے ساتھ سیراب کر رہا ہے۔ انہیں عصری فکری جہات نے انہیں عہد حاضر کے شعرا میں منفرد مقام و مرتبہ عطا ہے۔ اور انہیں عصری جہات کا مفکر بنا دیا ہے۔