پروفیسر احمد مدنی کا تعلق ایک علمی اور تہذیبی گھرانے سے ہے آپ علوم رامہ پر کماحقہ دسترس رکھتے ہیں۔ احمد مدنی نے تعلیمی سرگرمی کا آغاز ادارہ مرکز ایمان کروڑ لعل عیسن سے کیا انہوں نے وہیں سے فقط قرآن کیا اور مختلف جامعات علمی شعاعوں کو جذب کرتے ہوئے جامعہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ لاہور سے سے از فراغت حاصل کی اور عصری تعلیم کی تکمیل بہاولپور یونیورسٹی سے کی۔ انہوں نے امعہ اسلامیہ سے ایم اے اسلامیات ایم اے حدیث وسیرت اور ایم اے عربی کی کریاں حاصل کیں ۔ پروفیسر احمد مدنی خوبصورت جذبوں کے حامل صاحب عرفان نوجوان ہیں ر جوانی میں ہی پیرانہ طرز تکلم کو اپنائے ہوئے ہیں اس قدر وسیع مطالعہ اور اسلامی لی انکار پر بلیغ نگاہ رکھنے کے باوصف ایک سادہ اور مرنجاں مرنج ہستی کے روپ کا ادارہ ہوئے ہیں وہ اپنی علمی ریاضت کو سامع پر کم کم ظاہر ہونے دیتے ہیں اور اپنے کا اجلال کو خوش مزاجی اور بردباری کی خوشگوار ریت سے ڈھانپ لیتے ہیں امیراحمدمدنی کی شاعری سچے جذبوں کی شاعری ہے جس میں ارضی تغیرات پورے اپے سمیت موجود ہیں دنیا کی رسموں اور دنیا داروں کے چلن پر اس طرح لب کشائی کرتے ہیں۔
پھول پھول چہروں سے تاب چھین لیتی ہے
بے زری ہو تو یہ دنیا خواب چھین لیتی ہے "
خواب زندگی کی علامت ہوا کرتے ہیں جب دنیا راست بازوں کو اور شیری خواب دیکھنے والوں سے ان کے خوابوں کا احانہ محض بے زری کی وجہ سے چھین لے ۔ تو سماج ہیت کذائی کیا ہوگی ایسے سوالات اٹھا کر پر وفیسر احمد نی اپنی بصیرت کا گایی اظہار کرتے ہیں کیا ! پروفیسر احمد مدنی اگر چہ نو جوان ہیں مگر ان کی شاعری میں دھرتی پر پھرنے والے سنگ بلک لوگوں کی تصویر میں گلشن کو تاراج کرنے والے مجنوں کی کارستانیاں اور سہمے ہوئے پھولوں کے نوحے اور ماتم کرتی تتلیوں کے بین اور اس طرح تمام مظاہر بدرجہ اتم موجود ہیں۔۔ احمد مدنی کی شاعری سادگی اور خوبصورتی کا عمدہ موقع ہے جس میں لمحہ موجود کے دکھ اور مگن دل کی درمانی کی منظر کشی سلیقے سے کی گئی ہے۔ نمونہ
شب خواب میں دیکھا تجھے مایوس ذرا سا
تعبیر بتاتی ہے کہ کچھ ہو کے رہے گا
” ادھورے خواب کا ماتم
لمحہ لمحہ کاری ہے
صحن دل میں جاری ہے
سنگ بلکف دھرتی پر
عصر کی بے چہرگی
خوبصورت تتلی کو
ساعتوں یہ بھاری ہے
ہر گھڑی کرنا پڑا
خواب خون ہو چکے ے
ادھورے خواب کا ماتم
یہ مضمون پروفیسر اعمران میر کی کتاب ” پس غبار "سے لیا گیا ہے
