کوٹ ادو کا ادب

کوٹ ادو: سلیم عاقل بعقل سلیم رکھنے والا شاعر

پروفیسر اعمران میر

سلیم عاقل سناواں سے تعلق رکھنے والے رند مشرب شاعر ہیں سرائیکی اور اردو میں شعر کہتے اور اپنی طرز سے زندگی بسر کرتے ہیں مشق سخن کے اوائل میں خوش لباس تھے اور مشاعرہ لوٹنے کا ملکہ رکھتے تھے ان کا تحت اللفظ پڑھنے کا انداز دلش ور متاثر کن تھا مگر بعد ازاں ساغر صدیقی کے فلسفے پر عمل کرتے گئے مشاعروں سے دور ہوتے گئے اور اور پانشین ہوتے گئے آج کل سناواں شہر میں گوشہ نشین ہیں ان کی کتاب ”عہد وفا جاتا رہا، چھپ چکی ہے جس میں حمد، نعت ، قطعات، فردیات کے علاوہ خوبصورت غزلیں موجود ہیں۔ سلیم عاقل کی شاعری مدح یار کیساتھ ساتھ غم روزگار ایسے عصری موضوعات پر مشتمل ہے انسانی رویوں کا تموج اور معاشرتی نشیب وفراز کی پر چھائیاں سلیم کی شاعری کا خاصہ ہیں رواں لمحوں میں ایک سب سے بڑی و با عہد شکنی اور بے وفائی ہے انسان مطلب براری کیلئے تو خوشامد کرتا پھرتا ہے مگر جونہی مطلب پورا ہوتا ہے تو یہ جا اور وہ جا والی کہاوت پھنکارتی نظر آتی ہے حالانکہ وعدہ ایفا کرنا شانا دمیت اور تمدن عالیہ کی علامت ہے مگر لمحہ موجود کا آدمی جس طرح گرگٹ کی طرح رنگ بدلتا ہے بے لوث الفتوں کے گلابوں کو روند کر چار سو نفرتیں پھیلاتا ہے ان مسائل کا تذکرہ علیم بہت خوبصورتی سے کرتا ہے۔

انیں نایاب ہیں اور نفرتیں ہیں چارسو
بے وفائی عام ہے عہد وفا جاتا رہا

موجودہ عہد کے انسانی ذہن کے بنجر پن کو مندرجہ بالا شعر میں خوبصورتی قسیم کیا گیا ہے۔ سلیم کی شاعری میں عاشقانہ مضامین بھی خاص تہذیب میں ڈھلے نظر آتے ہیں وہ جو بہ کی سادگی ، بائین اور پاکیزگی پر مر مٹتے ہیں نہ کہ آنکھیں خیرہ کرنے والے معلومی من پر۔ جب محبوب کو ہر عصمت سے تہی ہو اور اوصاف عالیہ سے مزین نہ سید سلیم دل گرفتہ ہو کر ایسے اشعار تخلیق کرتا ہے۔ ”

بانکین ، پاکیزگی شرم وحیا جاتا رہا
ناز نہیں اب وہ تراحسن ادا جاتا رہا
تو کتاب حسن کی مشہور اک تحریر تھی
اب نہیں شہرت تری چرچا ترا جاتا رہا .

جب ہانجو رتیں کا کات پہ اپنی یورش کرتی ہیں تو چمن زار زبان نہ صرف منجر ہو جاتے ہیں بلکہ انسان کے مجموعی و طائر بھی ملیا میٹ ہو جاتے ہیں موجودہ ساعتیں نہ صرف کرب انگیز اور وحشیت آمیز ہیں بلکہ انسانیت کو نگلنے والے عفریت کے مماثل ہیں ہر طرف دم توڑتے پندار مفلسی اور ناداری کے انبار اور گرانی کے طومار کی انہ انسان سے گم کردہ راہ ہوکر رہ گیا ہے آج پرولتاری طبقے سے تعلق رکھنے والے لوگ اشیائے ضرورت تک رسائی کیلئے خون بھی بچھیں تو کرانی کا ہاتھی رام ہوتا نظر نہیں آتا مفلسی، مہنگائی، ناداری اور ادبار نے انسان کو ضمیر فروش اور ایمان فروش نا دیا ہے۔ جبکہ بورژوا طبقہ دونوں ہاتھوں سے قومی تجوریاں صاف کر رہا ہے (Gardian of State) کٹھ پتلی ہوکر رہ جائیں اور عوام کو مرنے کیلئے سامراجی درندوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیں تو پھر میں نیلام ہوتی ہو مجبور بہنوں کے لگن کہتے ہیں مشہور ماؤں کی اداؤں کے سودے ہوتے ہیں اور گیا ہے۔ فضیلت کی دھجیاں تار تار ہوتی ہیں۔ سلیم عائل نے خوبصورتی سے ایسے کڑوے موضوعات کو قلمبند کیاہے

پہلے مجہور بہنا کے کنگن بکے
ماں نے بیٹے کی خاطر روا بیچ دی
ایک مفلس کی مجبوریاں دیکھ کر
آج عاقل نے اپنی قبا بیچ دی

 

یہ مضمون پروفیسر اعمران میر کی کتاب ” پس غبار "سے لیا گیا ہے

یہ بھی پڑھیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button

For copy this text contact us :thalochinews@gmail.com