کوٹ ادو کا ادب

کوٹ ادو: مختار مخلص : ”سرائیکی شاعری کا لغاتی شاعر”

پروفیسر اعمران میر

زبان کو احساسات اور جذبات کے ابلاغ کا وسیلہ مانا جاتا ہے اور بچاطور پر یہ بات مبنی بر صداقت ہے لیکن ادب کیا ہے اور آج کل کے عہد میں اس کی انا دیت کیا ہے اور کیا سماج کو ادب کی ضرورت بھی ہے یا نہیں اس طرح کے سوالات انسانی ذہن میں اٹھتے اور جواب کا تقاضا کرتے رہتے ہیں۔ شاعری اور ادب بھی بذات خود مقصد نہیں ہیں۔ بلکہ مقصد کے ابلاغ کا ذریعہ ہیں جب ہم اسطرح کہتے ہیں تو بڑی حد تک درست کہتے ہیں۔ جو شعراء ادب کو مقصد مان لیتے ہیں تو ان کی شاعری دلیل سوزی کی پٹڑی پر چیل دوڑتی ہے اور منزل محض سراب بن کر رہ جاتی ہے شاعری میں منزل یا وضع کردہ منزل کا کوئی جواز نہیں ہے ہاں البتہ منزل کی جستجو اور تحرک شاعری کا جواز بنتے ہیں سرائیکی شاعری اپنے اسالیب اور متنوع موضوعات اور فکر و بنت کاری کے حوالے سے کم اہم نہیں رہی ۔ یہ شاعری تاریخ، نفسیات، ثقافت، عمرانیات اور مابعد از طبیعات ایسے دبستانوں سے بامقصد مکالمہ کرتی نظر آتی ہے سرائیکی وسوں کے تشخص کی از سرنو بحالی بھی اس کا اہم فکری رویہ ہے مختار خلص کی شاعری محض تخت لاہور کو موردالزام ٹھہرانے تک محدود نہیں ہے! درانہ ہی سرائیکی ماہنوں کی روایتی جی جمال تک محدود ہے بلکہ مختار مخلص کی شاعری سرائیکی ماہنوں کے شعور کو جلا دینے والی اور جبر کے سائے تلے پینے والی جی جمال کو روند دینے والی شاعری ہے مختار مخلص اپنی وسوں کے ماہنوں کو تحریکی اور قومیتی شعور دے کر اس کی اخلاقیات کو از سر نو مرتب کرنے کے خواہاں ہیں کیونکہ متعصب جاگیردار بھلے دنیا کے کسی کونے میں ہوں ان کا اجلال اسی صورت درت میں قائم رہ سکتا ہے۔ کہ عوام کو دبا کر رکھا جائے ان کے احساسات اور افکار و نظریات کو کچل کر انہیں محض کٹھ پتلی بنا دیا جائے جب عوام کا انفرادی تشخص ہی ملیا میٹ ہو جائے گا۔ تو معاشرے کی شناخت بھی مسخ ہو کر رہ جائے گی۔ مختار مخلص کی شاعری طبقاتی نشیب و فراز کو بھی صراحت سے بیان کرتی ہے اور اس کی شاعری میں استحصالی قوتوں کوللکارنے کیساتھ ساتھ افرادی جذبوں کی اٹھان اور فردی رویے کے مظاہر بھی عکس ریز نظر آتے ہیں۔
مثلاً یہ شعر:

توں ہر دکھ ، اڈے کیوں ڈیندیں
وت روز دے ہڑے کیوں ڈیندیں
ڈھبہ پیریں مخلص ملدیں ہیں
ہتھ کرکے پھڈے کیوں ڈیندیں

زر احساس کی مفقو ہوتی صورتحال کسی بڑے طوفان کا پیش خیمہ ہوا کرتی ہے۔ جب ملکی اگوان و سیبی اور مضافاتی علاقوں میں بسنے والے لوگوں کو خس و خاشاک سمجھنا شروع کر دیں اور ان کی تہذیبی پہچان کو مٹا کر ریت کے ذرات میں بدلنے کی کاوشوں پر اتر آئیں تو فردی رویے بھی یکسر تبدیل ہو جاتے ہیں۔ اور افراد کے ذہنوں میں وسوسوں اور اندیشوں کیساتھ انتقام کا جذبہ خود کلامی کے روپ میں عود کر آتا ہے۔ مختار تخلص عوامی امنگوں کی ترجمانی بھی کرتے ہیں اور ملکی اقتدار پر قابض لوگوں کی دردن بینی کو بھی بے نقاب کرتے ہیں مثلاً

ساکوں ڈنگر ڈھور دا پتہ کوئی پتہ نی
کہیں دی ڈاکو چور دا پتہ کوئی پتہ نی
بکھ تے ڈکھ دا شور ہے ساڈے کن پڑیندن
گودے کوں ایں شور را پتہ کوئی پتہ نی

مختار مخلص کے شاعرانہ رنگ اپنی راحل سے شہر بار ہوئے ہیں یہی وجہ ہے کہ ان کی شاعری سرائیکی قدامتی خصائص سے بھی مزین ہے اور لوکائی کے اجتماعی رویوں کی بھی نقیب ہے ۔ موت کلام درج ذیل ہے

مرے پترتان مخلص تھی پوندے
پت سر پودے پت بندی نہیں ۔

تیڈی موت وی مخلص عید ہوسی
این زندگی کوں رمضان بنا

بھوئیں شہر دی کینڈی منجھی ہیے
یک شخص سنتا مر گئے
حالات تے وقت مخالف ہین
بہوں دیر کھلپتا مر گئے
ایویں کھلدیں ہسدیں بیٹھی جاہ
ہک آئین ابتا مر گئے
چوؤ طرفوں مخلص سن ونڑ ہے کوئی بھک دی شنا مر گئے

 

یہ مضمون پروفیسر اعمران میر کی کتاب ” پس غبار "سے لیا گیا ہے

یہ بھی پڑھیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button

For copy this text contact us :thalochinews@gmail.com