شاعری اور زندگی کے منطقے تھوڑے سے سفر کے بعد یک جاہو جاتے ہیں۔ کیونکہ شاعری زندگی اور زندگی سے متعلقات کا اظہار ہوا کرتی ہے اور زندگی بذات خود شاعری میں تقسیم ہو کر اپنی ارفیعت کی جانب سفر اختیار کرتی لہذا اشاعری اور زندگی ایک چیز کے دو نام ہیں۔۔ موجودہ عہد میں زندگی کو جس طرح کے کرب اور دکھوں کا سامنا ہے ماضی میں بھی اس کی مثال نہیں ملتی ۔ آج علم و عرفان کی صدی میں ہوس زر کی حشر سامانیاں اور حرب و جدل کی فتنہ سازیاں انسان کو دوسرے انسان سے آمادہ نفرت کرنے پر تلی ہوئی ہے۔ اور انسان یقین کی دولت سے ہاتھ دھو کر تشکیک کے سفر پر چل پڑا ہے جس کا لازمی نتیجہ شرانگیزی اور قتل و غارت کی صورت میں دیکھنے کول رہا ہے۔ آج کا انسان وسو سے وا ہے اور عجب طرح کے روگ کا شکار ہو چکا ہے۔ آج کے دیہی اور تھلوی علاقے کے فرد جوگ اور بھوگ کے گرداب میں دھنس کر اشک ریزیاں کرتا نظر آتا ہے۔ مگر اس ” جوگ زدہ انسان کو نجات کا راستہ نہیں مل پا رہا ہے۔ راول نے تھر بیٹ’ اور نقل کے باسیوں کے آلام کو بغیر کسی ملمع کاری کے من وعن مشخص کیا ہے۔ مثلاً :
کہیں مندرے گل وچ مالھا ہے
اسان جوگی راہندے جوگ اچ ہیں
اے روگ ہن اپنے روگ اچ ہیں۔
اے بھوک ان اپنے بھوک اچ ہیں
جے خوشیاں ہن تان خوش ہیں ہے
جے سوگ اے سمین دے سوگ آج ہیں
سالوں روگ نہ راول رودن توں اینٹ میں تیل روند سے کہیں روگ اچ میں خدائے سخن میر تقی میر نے کہا تھا۔
گر یہ کچھ بے سبب نہیں آتا
راول کا تحریر کردہ مصرعہ اینویں میں روندے کہیں روگ اچ ہیں، خوبصورت تخلیقی بنت کاری کا مظہر ہے کیونکہ انسان ہمت تحمل برداشت اور صبر و ایثار کا مقدور بھر مظاہرہ کرتا ہے مگر جب غموں کے میل تند، رو کے آگے مضمحل قومی جواب دے جاتے ہیں۔ تو تب کہیں جا کر ستارے سر مشرگاں جھلملاتے ہیں۔ یعنی گریہ اور آوہ وفغاں محض پراپیگینڈہ نہیں ہوا کرتی اس عمل کی تہہ میں لاچارگی اور احتیاج د کسمپرسی کے عفریت چھپے ہوئے ہوتے ہیں جن کے کارن انسان اشک ریزی کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ آج کی عصری سفاکیت اور سانتی اور مہاجنی نظام نے اخلاقی اقدار کو شدید زک پہنچایا ہے۔ انسان جو کہ اجتماع میں آبادی میں اور گھر کی چاردیواری میں تحفظ محسوس کرتا تھا۔ آج وہ گھر گھروندوں اور ” لکھنے ” سالھیں” میں بھی مغائرت کا شکار ہو گیا ہے۔ جو کہ انتہائی دکھ آمیز اور کراہت انگیز بات ہے۔ فاروق را دل نے انسان پر تنگ ہوتی کا کامت اور تنگ پڑتے آفاق کا سلیقے سے اظہار کیا ہے۔ فاروق راول کی شاعری آج کے مسائل کو سیدھے سبھاؤ بیان کرتی ہے۔ راول کی شاعری کا بیا نہ اپنے لوگوں کے کرب و آلام سے نمو پاتا ہے۔ راول نے بیٹ کئے بوڑی اور تھل کے تھلو چی اور روہی رادے کے رویوں کا ذکر کر کے ہاں دھرتی کا اشاک ” پڑ” ہونے کا ثبوت دیا ہے۔ راول کی شاعری کے استعارے تری ریت ہجر دے چک” اور "سوگ ” ھوگ” کے "دیل” اس کی ذہنی استعداد کا پتہ دیتے ہیں۔ اساں روگ اچ ہیں آج کے انسان کا پرتاثیر نوحہ ہے جس کی نے سننے والے کو خود احتسابی پر اکساتی اور ایوانوں میں بیٹھے پر دھانوں کے رو بر وسوال چھیڑتی ہے۔ راول کی شاعری کا یہ وصف قابل توصیف ہے۔
تتڑی ریت نہ ڈھیر کھپا
نہ رستہ ڈک میں موجبھی ہاں ۔
میں ہجر دے چک وچ پھس جو گئی ہن روز دے چک چک مونچھیں دے
دھرتی نندراے سجاگ گولوں
رُل گئے مال دا راگ گولوں
نمونہ کلام :
کوئی عاشق عشق دی سولی تے چڑھ بانگ سنڑ اوئے چس آوے
جنگ میل سہا تکبیر پڑھے اسمان ہلاوئے چ آوے
کوئی رول بنڑے تھل ریتڑ تے ودا پیر جلاوئےچس آوے
شاہ شمس داراول روپ ہووئے مجھے بھوئیں تے آوئے چس آوئے
یہ مضمون پروفیسر اعمران میر کی کتاب ” پس غبار "سے لیا گیا ہے