اخبارات و جرائد زرعلوم کی ترسیل کا موثر ذریعہ ہیں کیونکہ یہ ادارے ابلاغ کو آسان کر کے ادبیوں کیلئے ایک مرکز اور چھتنار برگد ثابت ہوتے ہیں۔ ادب کے فروغ اور زبان کے استحکام کیلئے ادبی جرائد اکسیر کا درجہ رکھتے ہیں ماضی میں اردو ادب کے فروغ کیلئے درجنوں جرائد کے نام لیے جاسکتے ہیں۔ جن میں ”ساتی مخزن نقوش نیا ادب شاعر فنون سویرا سرائیکی ادب کے حوالے سے "ماہنامہ سرائیکی ادب” ماہنامہ اختر سوجھلا وغیرہ اہم تر جرائد تھے لمحہ موجود میں وسوں ویڑھے بیڑی۔ گائمن سچار، پیلھوں ، سرائیکی وسیب، تذکار فرید اور دیگر بہت سے جرائد ادب کے فروغ کیلئے کوشاں ہیں ذیل میں کوٹ ادو کے اخبارات جو کہ ادب کے فروغ میں معاون ثابت ہوئے ۔ اور جرائد کی تفصیل دی جاتی ہے۔
سفینه خبر :
یہ کوٹ ادو کا پہلا ہفت روزہ اخبار ہے جس کے چیف ایڈیٹر معروف صحافی سلیم ریاض ہیں اس پرچے میں کوٹ ادو کے شاعروں کیلئے پورا صفحہ مختص ہوا کرتا تھا مگراب یہ اخبار تسلسل سے نہیں چھپ رہا۔
آواز کوٹ ادو:
یہ بھی ہفت روزہ اخبار ہے جسکے چیف ایڈیٹر زیرک صحافی محمد طاہر روحانی ہیں اس اخبار کے شعبہ ادب کے انچارج عمران میر رہے ہیں۔ اس اخبار نے بھی اوبی
رپورٹس:
شاعروں کی خبریں اور علمی سرگرمیاں کو مکمل کوریج دی مگر اب یہ بھی بند ہو گیا۔
زنجیر کوٹ ادو:
اس معنی خیز اخبار کے چیف ایڈیٹ ملک عباس تھے اس اخبار نے ادب کی ترسیل میں اہم رول ادا کیا نگر چیف ایڈیٹر کی مصروفیت کی بناء پر اب یہ پرچہ بھی
بند ہو گیا ہے۔
ماہنامہ "انتخاب” :
انتخاب کی کوٹ ادو کا پہلا ادبی مجلہ ہے جس کو منور نگر مرحوم اور شفیق انور شاز ترتیب دیتے تھے۔ مگر اس کے صرف چند شمارے ہی چھپ سکے۔
ماہنامہ ارتباط :
یہ کوٹ ادو شہر کا پہلا ادبی اخبار ہے جس کے چیف ایڈیٹر محمد عمران میر ہیں مگر یہ بھی چند سال ہی شائع ہو سکا۔
ماہنامہ الطارق :
احمد خان طارق ادبی سنگت کے زیر اہتمام یہ ادبی پرچہ چند ماہ چھپا مگر شاکر مہروی کی وفات کیساتھ ہی یہ پرچہ بھی وفات پا گیا۔
سہ ماہی پیلھوں:
یہ کوٹ ادو شہر کا پہلا سرائیکی مجلہ ہے جو کہ تواتر سے چھپ رہا ہے اس کے مدیر اعلیٰ عمران میر رہے جبکہ آج کل اس کے مدیر اعلی معروف نقاد اور افسانہ نگار ڈاکٹر انوار احمد ہیں۔ یہ پرچہ زبانوں کے لسانی اشتراک کی ایک کڑی ہے تبھی اس میں اردو، سرائیکی، پنجابی اور انگریزی لکھتیں شامل کی جاتی ہیں۔
یہ مضمون پروفیسر اعمران میر کی کتاب ” پس غبار "سے لیا گیا ہے