رہائی شاعری اپنے گداز اور مخصوص مذہبی پس منظر کے حوالے سے خاصی اہم رہی ہے مرئیہ ” کیساتھ مسلمانوں کا لگا ؤند ہی عقائد کی وجہ سے احترام کی حد تک رہا ہے دشت نینوا کے پیاسوں اور شہدائے کربلا پر سب سے پہلا مرتبہ امام زین العابدین کا ملتا ہے چونکہ وہ کربلا میں غم و آلام کے کوہ گراں کو جھیل چکے تھے اور اپنے پیاروں کو اپنی آنکھوں کے امنے کتا دیکھ چکے تھے اس لیے انکے مریے میں وفور جذبات کیساتھ ساتھ گدازین کے عوامل بھی اپنی معراج پہ نظر آتے ہیں . عہد بنوامیہ میں اگر چہ رثائی شاعری کو قد عنوں کا سامنا کرنا پڑ انگر اس کے باوجود شعرائے عرب نے متاثر کن مراثی تحریر کیسے ابوالاسود دوئلی مسلمان بن تبہ فرزدق، ابود ہبل اور دوعلیل وغیرہ کے مرزئی محاکات اور شعری گداز کے عمدہ اہر پارے ہیں۔ ایرانی ادب کے حوالے سے پہل مرثیہ محتشم کا کی کا ہے جسمیں شہادت حضرت حسینؓ کی پر تاثیر انداز میں منظر کشی ملتی ہے برصغیر پاک وہند میں یہ فن شاعری خوب پروان چڑھی یہاں کے شعراء نے شاہ شہیداں کی جرات ، وعظمت کو نہ صرف شاعرانہ سلیقے سے مشخص کیا بلکہ برصغیر کے دومراکز لکھنو اور منان میں تو مراثی کی تخلیق کیساتھ سوز خوانی کا بھی آغاز ہوا یہ بات بھی مستم ہے کہ لکھنو میں سوز خوانی کی ابتدائی ملتانیوں نے کی اس عہد میں میاں مسکین ایک معتبر اور مستند مرتبہ گو کے طور پرجانے جاتے ھے اسے بہ کے مشتاق او خلق ارزا رفیع سوائے مرے شعر میں میاں مسکین کو اس طرح یاد کیا ہے۔ ۔
اسقاط حمل ہو تو کہیں مرثیہ ایسا
پھر کوئی نہ پوچھے میاں مسکین کہاں نہیں
.
مرثیہ کی ریت روایت میں مولوی فیروز، سعید حمید علی شاہ سکندر خان غلام مائل بہاولپوری ذاکر، سید ثابت علی شاہ ملتانی مال خان مگس فیضی مشہدی اور ذاکر و صابر وغیرہ کے نام خاصے اہم ہیں اور چودہویں صدی ہجری میں تو دبیر پنجاب مولوی غلام کیا کہ مرثیہ اپنے لوچ ، گداز ، منظر نگاری ، رجز اور جنگ کے ہیبت ناک نقشوں کی وجہ سے امر ہو کر رہ گیا مووجدہ عہد میں بھی شاعروں کی کثیر تعداد سلام و مراثی لکھ رہی ہے جن میں عزیز شاہد ، بشیر خوار، اختر تاتاری، ریاض عصمت ، مصطفیٰ خادم اور مہجور بخاری وغیرہ کے نام لیے جاسکتے ہیں۔ ان شعراء کے علاوہ وسیب کے تمام شعراء سلام و مراثی کو اپنے شعری مجموعوں میں تیرگاہ شامل کرتے کرتے ہیں ۔ ساجد بخاری بھی سلام دمرائی تخلیق رکھنے والے شاعر ہیں ان کا تعلق تحصیل کوٹ ادو کے نواحی قصبے آڑا اکبر شاہ سے ہے وہ طویل عرصے سے زہر مشق سخن میں جتے ہوئے ہیں یہ اسی جان کی اور طویل ریاضت کا ثمرہ ہے کہ وہ موجودہ عہد میں مشاعری بازی کی فضا کی موجودگی کے باوصف اپنے فن پر دھیان دھرے ہوئے ہیں۔ اور سلام ومراثی کو حرز جاں بنائے ہوئے ہیں ۔ ساجد بخاری کے قصائد ، سلام اور مراثی شوکت لفظی کیساتھ ساتھ شوکت منوی کے بھی حامل ہیں انہیں اپنا مدعا بیان کرنے کا ہنر آتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اپنے تاثرات اور محسوسات کو شاعرانہ شعور کے ساتھ برتے چلے جاتے ہیں۔
سلام
بدن نے مھدی چی دا زور ہے
زخم دچالے زخم نظر
وطن بیگانه مسافری
☆☆☆
قصیدہ حضرت امام حسین
حسین ہے حسین ہے او ہوتاں بس حسین ہے
جو فاطمہ علیہا اللہ دا لال تے نبی دا نور عین ہے
حسین سے حسین ہے
جو مادی نوری گودوچہ ڈٹھا ہے ترے شعبان کوں
جنئیں آندیں ماگنوں سنڑیا ہے لوری وچہ قرآن کوں
نہ آسی کوئی دہر دیوچہ ایندے جھیاں نہ کوئی آئے
نہ ما بتول ہے کہیں دی نہ کہیں حسین جائے
جو بادشاہ ہے نینوا را چاہت دا دین ہے
حسین ہے حسین ہے
اے نفس واہدہ ہے جیکوں رب کنوں اعزاز ہے
جو پشت مصطفی آتے نماز دا وی ناز ہے
امر تھیا نبی اتے کہ طول ڈے نماز کوں
لہا نوڑاں نہیں آئیں تھیں عبادتیں دے نازکوں
انہاں کوں میں ڈکھانوڑے اے سجدیاں دی زین ہے
حسین ہے حسین ہے
اے حکمراں ہے خلد ادا خدا نے جو ڈسا ڈتے
متاں گمان کوئی کرے اے مرتبہ خدا ڈتے
ولا ہے نال ایندے جیندی جیندی بیڑا پار ہے
تے باب خلد تے اونی اونی دی انتظار ہے
جو آل ہے نبی دی جو علی دے دل دا چین ہے
حسین ہے حسین ہے
☆☆☆
سلام
السلام اے لائق صلوات ونصر السلام
آیت تطہیر دا کے پنجواں پارا السلام
خون عنبری بوترابی دوش احمد دا سوار
فاطمہ زہرا دے ویڑھے دا دلارا السلام
بخش چھوڑی تیں قیامت نئیں جلا ہے دین کوں
ہر نفر فولاد بن گئے بے سہارا السلام
عالم ارواح و چالے نہیں خدا کو جیبی کیتی
چن کھدے نیں زید ازل توں بار بارا السلام
ڈے ردا کوں ڈے ڈتا ہے روا دے سر اُتے
شام دے بازار وچہ جو تیں خدارا السلام
حکم کوں کربے کتابا عالم اسلام وچہ
کر ڈتے تئیں حق و باطل را ختار السلام
☆☆☆
مرثیہ شہزادعلی اکبر
دنیا جہان سارے توں مٹھا ظمر پیر
چین وسکوں جہاں وا نور نظر پر
بخشش بطور نعمت قلب و دیگر پسر
ویڑھے وا سوبھ وسوں رونق گھر پر
خوشیاں ایں نال ہر دم وسدیاں تے شاد ہن
ویڑھے وسوں نظر دن دستیاں آباد ہن
☆☆☆
نوحہ
ہائے ہائے لگ گئے تیرا صفر دے گل کوں کیویں
ہے اور داگئے چیر اصغر دے گل کوں کیویں
خوب سجا معصوم کون جیں میدان دو بھیجے
انا دی آیت کوں رحمان دو بھیجے
رنگ گئے مارا کھیر اصغر دے گل کوں کیویں
بول نہ سکدا ہا جو منہ توں بالکل بولی
تیر دا پانی ہے بلوایا امت کھولی
پیش چا کہیتے پیر اصغر دے گل کوں کیویں
تیڈے پانی منگن را اصغر تاں مل پوندا
وسری ہوندی پاول شہر مدینہ ہوندا
تیم آکھے ہمشیر اصغر دے گل کوں کیویں
ماری جھولی حاضر ہی آ جھولی پانواں
ول ول امری آکھے تیکوں کھیر پلانواں
رور رٹ دے نیر اصغر دے گل کوں کیویں
☆☆☆
شفیق انور شاز
یہ زرد پتے سبھی کو آگاہ کررہے ہیں
اہوں موسم شہر کی سانسوں میں رک گیا ہے
آج ج دیں دیں گے وہی کل کو یہ لوٹائیں گے
شاز یہ سوچ کے بچوں کو کھلونے دینا
( شقیق انور شاز )
☆☆☆
یہ مضمون پروفیسر اعمران میر کی کتاب ” پس غبار "سے لیا گیا ہے
