کوٹ ادو کا ادب

استاد محی الدین شرر : کوٹ ادو کا عادل فقیر

پروفیسر اعمران میر

دنیائے ادب میں افلاطون پہلا آدمی ہے جس نے شاعری میں ایک سرار قوت ، زندگی کی موثر پیش کش اور بھر پور اثر انگیزی کو تسلیم کیا ہے اس کے ید شاعری کے متعلق افکار و نظریات کے کئی دبستان معرض وجود میں آئے ملٹن اعری ری کو روح القدس کے مقدس حیات بخش خون Precious life blood) of a master spi سے تشبیہ دیتا ہے تو ادھر ورڈزورتھ کی شاعری کے ارے میں مقبول عام رائے یعنی شدید جذبات کا بے ساختہ اظہار بھی اس سے مستفاد ہے۔
افلاطون کے افکار و نظریات سے یہ نتیجہ اخذ ہوتا ہے کہ اکثر محض فلسفہ ہی اپنے عقلی اور منطقی انداز میں صداقت کا راستہ نہیں دکھا تا جتنا وجدان سے تعلق رکھنے الی تجربے کی تشکیلی صورتیں (ادبی تخلیقات) اپنی عقلی توجیہات کے ذریعے دکھا سکتی . ہیں جبکہ ان میں تعصب نہ برتا گیا ہو، تمام تر مبحث اور مکالمات جو شاعری سے متعلق ہیں۔ ان میں ایک قدر تو مشترک ہے کہ شاعری متاثر کن شے ضرور ہے یعنی شاعری کی اہمیت کو بھی دبے لفظوں میں تو کبھی اعلانیہ تسلیم ضرور کیا گیا یہ بات طے ہے کہ ازمان اگر نجس اور متحرک ہو تو وہ اپنی وصفی اصولوں پر عمل کرتا کرا تا مختلف سمتوں کے اسفار کرے بھی تو مطمئن نہیں ہوتا بلکہ مسلسل تحرک کو ہی زندگی سے تعبیر کرتا ہے ادب عالیہ میں بہت سے نام ایسے ہیں جنہوں نے (ProActive) سطح پر زندگی پر کی کبھی انسان جعفر زٹلی کے بہر روپ میں ارضی اقدار کو بچانے اور عوامی شعور بیدار کرنے کی مساعی کرتا ہے۔ تو بھی بھگت کبیر کے پیکر میں ابیات تخلیق کر کے ارضی عرفان کی باتیں کرتا ہے دراصل یہ سارے روپ اور یہ سارے پہروپ انسان کی وبھائی کیفیتوں کا پتہ دیتے ہیں کہ

کائنات ابھی ناتمام ہے شاید
کہ آرہی ہے دما دم صداے کن فیکون

جب انسان اپنی داخلی دنیا میں غلطاں رہنے لگے تو دھیرے دھیرے اس کی خارجی دنیا بے رنگ ہونا شروع ہو جاتی ہے اور بالآخر تیاگ کا مرحلہ در پیش آجاتا ہے مگر وہ لوگ جو خارجی عوامل کے بھی ناظر ہوتے ہیں اور داخلی کیفیات کے رمز آشنا بھی ہوتے ہیں تو وہ لوگ بلا کے گیانی، خطیب اور حساسیت سے مملو ہوتے ہیں جب ان کے علم وعلم کا پیمانہ چھلکتا ہے تو کچھاؤں کو مستغیر کرنے والے موتی قریہ بہ قریہ اور کوچہ بہ کوچہ پھیل جاتے ہیں۔ ملتان کے تعظیم علمی سپوت نا ہر تعلیم اور شاعر ڈاکٹر عرش صدیقی جنہوں نے زندہ تر جذبوں کی عظیم نظم ”اسے کہنا دسمبر آ گیا ہے تخلیق کی غزلیں اور نظمیں بھی تخلیق کیں ناقدانہ بصیرتوں کا لوہا بھی منوایا مگر جب گیان کی تہوں میں اترے تو عادل فقیر کا لبادہ اوڑھ لیا اور اثر انگیز دوہوں کی تخلیق میں منہمک ہو گئے ۔ بالکل ویسے جس طرح ڈاکٹر مہر عبدالحق تھی لال کا روپ دھارے تخلیقی دنیا سے وابستہ رہے اگر استاد محی الدین شرر کے شاعرانہ رنگوں اور فکری دھار ناؤں کے تموج کو دیکھیں تو بلاشبہ شر یہ بھی عادل فقیر ہونے کا گمان گزرتا ہے محی الدین ۔ شرر صاحب اسم با سمی شخصیت ہیں ان کی حساسیت اور دہکتے جذبوں کی تپش شعروں ۔ میں نہی در آئی ہے مثلاً یہ شعر

، رموز عشق میں ماہر نہ ہوتا
شوریدہ سرمیں یوں ظاہر نہ ہوتا
بڑا حساس دل پایا ہے میں نے
مری جاں کاش میں شاعرانہ ہوتا

. بے خودی اور سرشاری کے عناصر ان کے اشعار میں گھلے ملے نظر آتے ہیں ان زندہ ضمیر اور بے باک نظر کا حامل ہو تو اس کا اسپ خیال خلاؤں سے پرے بھی رسائی حاصل کر لیتا ہے کلام شرر میں سوز و ساز، امنگ اور تڑپ کے سے عمر الفاظ اپنی جاذبیت سمیت موجود ہیں۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ شر صاحب کی کوشش کی راہ کے مواضعات سے تشبیہ دے کر انسان کو ارفعیت سے جوڑتے دی دیتے ہیں۔

دل سے گذر گئے کبھی جاں سے گزر گئے
ہم بے خودی میں دونوں جہاں سے گذر گئے

شرر صاحب کا تعلق راجپوت گھرانے سے ہے ان کی بے باک گفتگو اور طرز سے راجپوت خاندان کا شکوہ اور طنطنہ جھلکتا ہے مگر حساسیت اور عشق وارفتگی مدی نے ان کا طرز کلام ”اور“ کر دیا ہے شرر صاحب درویش منش اور فقیر طبع ان ہیں ارفع بازار کوٹ ادو میں ان کی دکان ادیبوں کی اچھی خاصی بیٹھک بن ہے آپ اعہد شباب سے رنگریزی
( دوپٹے رنگنے ) کا شغل اختیار کیئے ہوئے شر صاحب بچپن میں جتنے خوبرو اور دل آویز خطوط کے مالک تھے شاید کوٹ ادو شاعروں میں کسی کو ایسا چھریرا اور متناسب بدن اللہ تعالیٰ کی منزہ ہستی نے کیا ہوگر کل سے آج تک دو چار معاشقوں کے سواشر ر صاحب کا دامن عصیاں اک ہے بلکہ اب تو کیفیت یہ ہے کہ دامن نچوڑ دیں تو فرشتے وضو کریں ناریوں کے دوپٹے رنگتے رنگتے شرر صاحب خود تو رامین مزاج نہیں ہوئے البتہ ان کے کلام میں اٹھان، نزاکت اور معصوم رنگینی ملاحظہ کی جاسکتی ہے۔

کتنے گلوں سے رنگ اڑا کر شرر نے آج
اک مہ جہیں کے ریشمی آنچل میں بھر دیے

شر صاحب کی زندگی غم ہائے جاودانی کا مرقع رہی مگر اس کے باوصف آپ کی غزل محبت کی کسک اور رومان انگیزی کے معاملات سے مزین ہے۔

نہیں ہے چین اسے اور ا نہیں قرار مجھے
یہ کون دیتا ہے  آواز بار بار مجھے
دیا خلوص کو میرے دیوانگی کا خطاب
جو پایا اس بت کافر نے سوگوار مجھے

شر صاحب کے تخلیقی جو ہر غزل در غزل نظم در نظم اور وہ باور وہ بانچھرے ہوئے ہیں اعتماد کی فضا ان کے شعری لحن کا خاصہ ہے تیقن کے زر خالص نے ان کی شعروں کوادور منتقل کیا ہے تبھی وگل و برگ کی نمو خودی کا وقار نشہ ٹوٹ چکنے کے بعد کا مار اور مام کا تارایسی رفیع تراکیب ولفظیات آپ کے شعروں میں در آئے ہیں۔

بجھی بجھی سی نگاہوں میں پیار باقی ہے
نشہ تو ٹوٹ چکا ہے خمار باقی
عجب طرح سے گل و برگ کی نمو ہوگی
زمانہ لاکھ مٹائے مئے نہ عشق کبھی
خودی خودی میں خودی کا وقار باقی ہے
شرر نہ آئے مسیحامری عیادت کو

تن مریض میں دم غم کا تار با قی ہے
شر ر صاحب کی بانی شرر باری اور استادانہ خلاقیت ملاحظہ کریں۔

بہت تلاش کیلئے دل کے گوشے گوشے میں
تیر مژگاں نہیں معلوم کدھر بیٹھ گئے
تغزل کا رنگ دیکھیں
جیسے مئے کے ساتھ وابستہ ہے میخانے کا نام
آہی جاتا ہے تری محفل میں دیوانے کا نام
ساقیاپی لے پلالے یہ جوانی پھر کہاں
حسن دستی ہے تمہارے جام چھلکا نے کا نام

، شرر صاحب نے حمد، نعت ، غزل ، گیت اور سرائیکی غزل میں طبع آزمائی کی اور ان تمام اصناف میں مقدور بھر جودت طبع کے مظاہرے کیئے لیکن جب انکے من میں سیما بیت سمائی تو سب کچھ تیاگ کر دو ہا نگاری کو اوڑھنا بچھونا بنالیا اور یہ علی عظیم ہنوز جاری ہے شرر صاحبکے دو ہے ہندی آمیز ہونے کیساتھ ساتھ شخصی رویوں اور میمون کے خوبصورت اظہاریے ہیں جس میں راجا اور پر جا کی حالتیں بھی دیکھنے والی ہیں اور احساسی جذبوں کی دھمک بھی پڑھنے والوں کو شاعر کی اخلاقیت اور قادر الکلامی کا پتہ دیتی ہے۔ نمونہ درج ذیل ہے۔

من تھا میرا کانچ کا گرا گیا یوں ٹوٹ
جیسے دیکھ اس کھیت میں مدھ پر آئی پھوٹ

جیسی پر جا ویا راجہ چن چن وے بھگوان
جیسی کرنی ویسی بھرنی سانچ گرو کا دھیان

 

جو را جا پہ جا کے جی کا کچھ بھی نہ احساس کرے
وہ مایا کا ہے متوالا بھگون اس کا پاس کرے

یہ مایا اک سرخ سنہری ناگن جس کے سر پر تاج
کل اسے ڈس لے گی ہنس کر جو پوچھیں ہیں آج

 

یہ مضمون پروفیسر اعمران میر کی کتاب ” پس غبار "سے لیا گیا ہے

یہ بھی پڑھیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button

For copy this text contact us :thalochinews@gmail.com