کوٹ ادو کا ادب

کوٹ ادو: ڈاکٹر اختر خوشدل: ایک خوش مزاج شاعر

پروفیسر اعمران میر

ڈاکٹر اختر خوشدل مرحوم سے اگر چہ میری کوئی ملاقات نہیں۔ مگر اس کے باوجود اپنے ادبی دوستوں سے جس طرح سے ان کا ذکر خیر سننے کا موقع ملا اس طرح لوگ کسی کو کم ہی یا درکھتے ہیں کوٹ ادو شہر کے علمی ادبی اور سماجی وشعری حلقے ڈاکٹر مرحوم کے مقروض ہیں۔ ڈاکٹر مرحوم ایک فعال سماجی کارکن اور بے لوث انسان تھے۔ ان کی متحرک شخصیت ہمہ ہی اور بزم آرائیوں کی قائل تھی مرحوم کھرے اور بچے انسان دوست تھے انہوں نے زندگی میں جس طرح کوٹ ادو کو ایک ادبی اور شعری شناخت دینے کے حوالے سے کام کیا وہ اپنی مثال آپ ہے۔
کوٹ ادو شہر میں مشاعروں کا انعقاد اور مسلسل ادبی محافل بر پا کرنے کا سہرا انہی کے سر ہے انہوں نے سرائیکی مشاعروں کیلئے نہ صرف فضا ساز گار کی بلکہ پورے وسیب کے شاعروں کو ایک پلیٹ فارم مہیا کیئے رکھا اور پوری زندگی تخلیقی سطح پر بسر کی۔ وسیب کے موجودہ مہاندرے جن میں اقبال سوکڑی، عزیز شاہد شفقت بزدار، مشتاق سبقت مصطفیٰ خادم ، شاکر مہروی (مرحوم) اے بی عاصم ، عاشق بز دار اور دیگر کثیر لکھاری شامل ہیں نہ صرف ڈاکٹر مرحوم کے کئی کئی دن مہمان رہتے بلکہ اپنی بہت سی دنیاوی فرضوں کے حوالے سے مرحوم سے مستفاد ہوتے تھے۔ ڈاکٹر اختر خوشدل محض تخلص یاری نام کے خوشدل نہیں تھے بلکہ اسم باسمی تھے بنتے مسکراتے رہنا ان کی فطرت میں شامل تھا مصائب و آلام کی سی خوشی چھلیا ان کی گھٹی میں پڑا تھا مرحوم اس قدر تخلص بے ریا اور تین و نجیب تھے کہ شاید ہی ان کے دوستوں ، یاروں یا احباب میں سے کسی کو ان کی ذات سے گلہ ہو کم از کم ہم نے کبھی ان کے متعلق کسی کو نو اسبح فغاں نہیں دیکھا ) ۔ مرحوم کا حلقہ یاراں پورے وسیب پر محیط ہے شفیق شاز سے لے کر احمد خان
طارق تیک سبھی ان کے مقربین میں شامل ہیں۔
مرحوم سرائیکی شعر کہتے مگر اردو اور پنجابی شاعروں کو بھی یکساں اہمیت دیا کرتے ان کے ہاں لسانی برتری یا عصبیت کا شائبہ تک نہیں تھا یہی وجہ ہے کہ مرحوم کو آج بھی احباب اپنی دعاؤں میں یادر کھتے ہیں۔
اختر خوشدل کی شاعری ان کی ذات سے معنون و منسوب ہو کر محض انہی کی ذات کا ا ظہار یہ نہیں بنتی بلکہ اس کا کینوس خاصہ مستحکم اور وسعت پذیر ہے اگر چہ ان کا ادبی حلقہ پورے وسیب میں پھیلا ہوا ہے مگر یہ دلچسپ امر ہے کہ ان کی شاعری یران کے معاصرین کے اثرات نہ ہونے کے برابر ہیں کہ بلکہ ان کی شاعری میں پورا د سیب پورے مزاج و دارچ سمیت سانس لیتا ہوا اور جیتا جاگتا نظر آتا ہے مرحوم چونکہ حساس طبع تھے اس لیئے وہی حساسیت اور احترام انسانیت کے بھرویں حوالے ان کی شاعری میں بھی نظر آتے ہیں انسان کو راستی سے چلن پرابھارنا اور بھائی چارے کی فضا کو فروغ دے کر اس بے ہنگم کا ئنات کو ارضی جنت میں بدلنے کی مساعی ڈاکٹر مرحوم کے اشعار سے واضح ہو کر انہیں ایک انسان دوست شاعر ثابت کرتی ہے
مثلاً

انجھے فیدے نہ منگوئے دی زبانی تھی ونجے
اپنی ونڈی لیوں کہیں دا اٹھ کہاون ٹھیک نہیں

استکباری قوتوں کی استعماریت اور آج کے آدمی میں پیدا ہوتی جانوریت کے مظاہر جہاں اقدار کی تنی ہوئی دیواروں کو منہدم کر رہے ہیں وہیں انسان کو انسان سے آمادہ پر کار بھی کر رہے ہیں موجودہ انسانی وطائرکی تعمیر تا جہاں عہد ہے یہ بہت کی یاد تازہ کرتی ہے وہیں لمحہ موجود کی اہمیت کو بھی نیست کرتی چلی جارہی ہے۔ دیہات کا متمدن ہونا اور شہروں کا معرض وجود میں آنا تہذیبی ارتقاء کی خوش نما اکائیاں تھیں مگر تہذیب پر در ماحول میسر آنے کے باوجود روحانی اقدار کیوں ملیا میٹ ہوتی چلی جارہی ہیں انسان تشکیک کا کیوں شکار ہوتا جا رہا ہے۔ آج کے اسفار وقت کے اندھے بہاؤ کی نذر کیوں رہے ہیں زندگی بے معنی اور بے وقعت ہو کر کیوں رہ گئی ہے جنگلی طرز حیات اور ندگی اور جنگل کا قانون شہروں میں کیوں عود کر آیا ہے اس نوع کے دل خراش سوالات خوشدل مرحوم کی شاعری میں پورے خال خد موجود ہیں جن کے جوابات ہم پر قرض ہیں اختر خوشدل کی شاعری وسیبی اقدار کی خوش نمائیت سے مزین ہے۔
آج کا ساج لیہ موجود کا منظر نامہ اور جنگی طرز حیات کا تہذیب پرور شہروں میں در آنا اور شہری آبادی کا مسلمات متعارفہ سے انحراف کرنا یہ سب عوامل خوشدل کی شاعری کو حیات دوام دیتے نظر آتے ہیں۔ مثال کے طور پر یہ نظم ملاحظہ ہو۔

اساں جنگلیں سفر کیتے
جو بئی مخلوق دیکھوں ہا
اتھاں ونج کے خبر تھی اے
درندے شہر وچ رہندن ،

شعر

جسے عشق شاہ اہم ہو گیا ہے

وہ پابند رسم حرم ہو گیا ہے

 

یہ مضمون پروفیسر اعمران میر کی کتاب ” پس غبار "سے لیا گیا ہے

یہ بھی پڑھیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button

For copy this text contact us :thalochinews@gmail.com