پروفیسر رمضان زاہد کی اب تک تین کتابیں منظر عام پر آچکی ہیں انکا پہلا شعری مجموعہ رہ نور وشوق کے نام سے چھپا جس میں غزلیں شامل تھیں دوسرا مجموعہ ملی اور موضوعاتی نظموں پر محیط ہے جو کہ صوراسرافیل کے نام سے معنون ہے اور تیسری شعری کاوش ارمغانِ حمد و نعت ہے جس میں پروفیسر موصوف کی اپنی تخلیقات کیسا تھ ان کی مسز ” خدیجہ رمضان کی بھی نگارشات شامل ہیں۔
اردو غزل کی ایک توانا اور مضبوط روایت موجود ہے جس میں طرح طرح کے تجربات کلاسیکی نو کلاسیکی امتزاج اور جدت کا رانہ عناصر پوری توانائی کیساتھ ملاحظہ کیئے جاسکتے ہیں غزل اب محض آشوب ذات یا شخصی سج بنی ایسے موضوعات تک محدود نہیں رہی بلکہ اس میں پورے آدمی کی سائیکی“ شامل ہے دوسرا غزل کا کھلا پن ہر طرح کے تجربے کو (OWN) کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے. پروفیسر رمضان زاہد کی کتاب راه نور د شوق جو کہ غزلوں پر محیط ہے اس کے مطالعے سے مایوسی اور رجاء دونوں قسم کے تجربات حاصل ہوتے ہیں کیونکہ صنعت کا رانہ عہد میں بے چہرگی اور بے حسی کی لہریں تمام ارضی عرفان میں نفوذ کر جاتی ہیں اور ایک طرح کا ادھورا پن جنم لیتا ہے اور آدمی کی داخلی کائنات میں خلاؤں کے بسیرے ہونے لگتے ہیں ، جب ناشکیبای بوسنا کی ، رقابت، حسد اور نخوت جیسے عناصر کی یورش ہو تو کہنہ ادرا کی کے مظاہر کم ہو جاتے ہیں ۔
مثلاً پر و فیسر موصوف کے یہ شعر ملاحظہ کریں۔
کچھ گلہ تیری بے رخی کا نہیں
یہ زمانہ ہی دوستی کا نہیں
کس بھروسے ہوئے مغرور
جب بھروسہ ہی زندگی کا نہیں
جہ بالا شعر میں جس طرح پورے زمانے کو مورد الزام ٹھہرایا گیا ہے مندرجہ اور جس طرح زندگی کونا قابل اعتماد کہا گیا ہے اس فکر کے پس منظر میں بہت سے لا نخجل عقدے شامل ہیں جس طرح وفا اور بے وفائی ایک انفرادی رویے کا نام ہے جو کہ احساس کے تابع ہوتا ہے اب اگر فرد کا ذاتی تجربہ برا ہے تو اسے سماج کی اخلاقیات پر تو نہیں تھو پا جا سکتا انسان پرستی تو تہذیبوں کیلئے زہر ہلاہل کے مانند ہے آدرش کے نعرے تو سیاستدان لگاتے ہیں مگر ادب کو تو آدمی سے کام ہے آدمی ہی کیلئے اخلاقیات ہوا کرتی ہیں مادی ضرورتیں ہوا کرتی ہیں احساس و جذبات سے لدا پھندا آدمی ہی ہو سکتا ہے کیونکہ انسان تو پھر سنگھاسن پر بیٹھا ہوا لقدس کا بت ہوسکتا ہے۔ کیونکہ انسان تو پھر سنگھاسن پر بیٹھا ہوا لقدس کا بت ہوسکتا ہے جسے نہ تو مادی ضرورتیں ستاتی ہیں نہ وہ غلطی کرتا ہے اور نہ ہی وہ عامی یا عمومی گفتگو کرتا ہے بلکہ وہ ماورائی قسم کی مخلوق ہوتا ہے۔ اب اگر ہم بے وفائی، بے رخی اور نخوت سے بچنا چاہتے ہیں تو ہمیں آدمی کے داخلی کا ئنات کیلئے روحانی نظام کی وضعیت پر زور دینا ہوگا۔ ! رمضان زاہد، زاہد دردمند کے روپ میں غزلیہ فکر میں جلوہ گر ہوتے ہیں ان کے ب ولہجے اور نگر میں زاہد خشک کی سی درشتی تو نہیں البتہ حسن اخلاق سے وابنتلی کے حوالے ضرور مل جاتے ہیں ۔ مثلام
آج پھر روح سے ہے برسر پیکار کوئی
زندگانی سے کیئے جاتا ہے بیزار کوئی
حسن اخلاق سے وابستہ ہے الفت میری
حسن صورت سے نہیں مجھ کو سروکار کوئی
آدمی جب محبت اور محبوب پہ تکیہ کرنے لگے اور اپنی ذات کو کسی اور ذات میں گم کر دے تو پھر اس کی ذاتی سالمیت کسی حد مجروح ہوتی ہے۔ اور اس پر شش جہت نک پڑتے جاتے ہیں رمضان زاہد کی غزلوں میں ان کے ذاتی تجربات کے عکوس بھی موجود ہیں جس میں عاشق کے ناتواں پیکر کے خال و خدا در محبوب کے شعلہ گردوں نورد آثار بھی ملاحظہ کیئے جاسکتے ہیں۔
جو آج کنج قفس میں بہار گزری ۔
وہ درد و غم سے بہت ہمکنار گزری ہے
تمہاری یاد کی ویرانیاں ملیں دل کو
مری حیات کہاں خوشگوار گزری ہے
راہ نور دشوق جہاں ایک طرف لچکدار اور سیمابی صفت استعارہ ہے وہیں رمضان زاہد کی حر کی فکر کا بھی مظہر ہے پرفتن دور کی تلخیاں اور افرادی جذبوں کے تموج بھی اس شعری مجموعے کا خاصہ ہیں اور محبت کے عمومی رویوں کے مظاہر بھی راہ نورو شوق میں بکثرت ملتے ہیں اگر چہ یہ غزلیں روایتی شاعری کے ضمن میں آتی ہیں مگر یہ روایت بھی محض کورانہ تقلید نہیں بلکہ شاعر کی طبع جدید کی غماز ہے۔
نمونہ کلام درج ذیل ہے۔
نفرتوں کے باب کی تکفیر کر دی جائے گی
روشنی ہر شخص کی تقدیر کر دی جائے گی
ے میں نہیں اب تیرے قابل تو میرے قابل نہیں
ٹوٹ کر ہڈی تو جڑ سکتی ہے لیکن دل نہیں
یہ مضمون پروفیسر اعمران میر کی کتاب ” پس غبار "سے لیا گیا ہے