معروف مغربی ناقد تی ٹی ایس ایلیٹ کے بقول شاعر کے عمدہ پیش رفت یا رتی (Pregress) ایک مسلسل ایثار اپنی ذات کے مسلسل قربانی اور اپنی شخصیت کو مسلسل معدوم کرتے رہنے (Depersnization) میں مضمر ہے (بحوالہ مغربی تنقید کا مطالعہ افلاطون سے ایلیٹ تک صفحہ نمبر 191 مرتبہ بلا صدیق)
مندرجہ بالا حروف اس امر کو صراحت سے بیان کرتے ہیں کہ شاعر اپنی ذات سے دست کش ہو جائے کیونکہ اسی عمل سے فن سائنس بن جانے کی شرائط کے نہایت قریب ہو جاتا ہے اس کا دوسرا مفہوم یہ بھی لیا جا سکتا ہے کہ شاعر اپنی داخلی شخصیت سے گزر کر دیانت داری سے ادب کی مجموعی روایت میں گم ہو جائے کیونکہ یہی گمشدگی ہی شاعر کے گیان دھیان کے لئے از حد نا گزیر ہوا کرتی ہے مگر لحہ موجود میں لذت کلام میں سرشار رہنے والے لوگ اپنے حجرہ ذات ہی سے باہر پاؤں نہیں دھرتے اور اپنی داخلی دنیاؤں میں اس حد تک پھنس چکے ہیں کہ ان کے جسم ان کے خیالات و افکار کے مرقد ثابت ہو رہے ہیں ایسے لوگوں کا معروضی زاویہ نگاہ عشقا اور کلام میں ” معاصریت کے عور مل بھی کمیاب ہیں مگر اس کے باوجود وہ لوگ اپنے آپ کو سلطان ادب کہلوانے کے درپے ہوتے ہیں مشاعرہ میں اگر نہیں بھی پہلے پر ھوا دیا جائے تو ادب و اخلاق کو بالائے طاق رکھنے ہوئے نظمیں شاعر سے باقاعدہ لڑنے پہ آمادہ ہو جاتے ہیں۔ سو ایسے میکھک“ کی اب بہتات ہے مگر خدا بھلا کرے ایسے لوگوں کا جو باوقار زیست کر گئے اور بہت سوں کے لئے ادب و تہذیب کے چراغ روشن کر گئے کوٹ ادو کی ادبی علمی اور شعری تاریخ حضرت بیاض کے معتبر حوالے کے بغیر نامکمل رہے گی ۔ حضرت بیاض سونی پتی تکر وتدبیر کا روشن استعادہ تھیسے قلندری استلقاء تو کل اور مراضی برضار ہنے کی خوانہیں خصائص مومنین سے جوڑ دیتی ہے۔ کیونکہ بقول نظر اکبر آبادی
پورے ہیں وہی مرد جو ہر حال میں خوش ہیں
بیاض سوئی پتی نہ تو سونے کا پیچ منہ میں لے کر پیدا ہوئے تھے اور نہ ہی ترکے میں زرد دھن چھوڑ گئے حضرت بیاض نے اپنی مکمل زندگی کوٹ ادو کچہری میں عرضی نویسی میں گزاری مگر اپنی حمیت قلبی کشادہ دلی صلابت فکری اور پر خلوص اطوار و کردار سے لوگوں کے وسیع حلقے میں احترام پایا ۔ آپ کی سادگئی اور تواضع کا یہ عالم تھا کہ دن بھر آپ کا تکیہ آباد رہتا، لوگ آتے جاتے چائے چلتی شعر ہوتے غزلوں کا دور چلتا پھر چائے کا دور چلتا اور اس دور کے چلنے کے بعد بیاض صاحب اکثر خالی ہاتھ تو گھر جاتے اور چائے والے کے مقروض بھی ٹھہر تے مگر کیا مجال کہ اس مرد قلندر کی جبیں پہ کبھی کسی نے شکن دیکھی ہو۔ بیاض سونی پتی کوٹ ادو کے وہ پختہ کا رشاعر تھے جنہیں ملک کے دیگر علاقوں میں بھی جانا گیا بلکہ ان کے ایک شعر تو پورے ملک کے ادبی حلقوں پر ایک عرصہ تک حکمرانی کی شعر یوس تھا۔
احساس کے انداز بدل جاتے ہیں ورنہ
آنجیل بھی اسی تار سے بنتا ہے کفن بھی
بیاض سونی پتی مرحوم تمام عمر ریلیٹ کے فلسفے پر عمل پیرار ہے اور ماہر غخواص کی طرح ادب کے مجموعی دھارے کی زیریں تہوں سے جڑ کر اپنی ذات سے دست کش ہو گئے مگر جب ان کی فکر عمیق صفحہ درصفحہ لفظوں کی صورت میں بکھرنی تو اس کی ندرت سے ایک جہان نے اس کشید کیا مجموعی طور پر حضرت بیاض غزل کے شاعر تھے ان کی شاعری میں معروضی صداقتیں اپنے پورے خال و خد سمیت موجود ہیں زندہ شعر کہنے کیلئے جس طرح کی خانہ سوزی ، گداز بیت عمیق نگاہی اور زندہ ماضی تک رسائی کے عموریل کی احتیاج ہوا کرتی ہے ان کے عکوس بیاض سونی پتی کی شاعری میں پورے طنطنے کے ساتھ جلوہ ریز نظر آتے ہیں۔ حضرت بیاض کے اشعار سے ان کا مشاہدہ بھی آشکار ہوتا ہے اور معروضی سچائیوں کے رنگ بھی ان کی شاعری سے مگر شح ہوتے ہیں مثلاً لمحہ موجود کی ثقالت یہ اس طرح گویا ہوتے ہیں۔
حالات نے تجھے بھی وہ پتھر بنا دیا
جس میں خوشی کی لہر نہ موج قلق چلے
دم گھٹ کے مر نہ جائیں گکھٹن سخت ہو چلی
یا رو دعا کرو کہ ہوا کہ رمق چلے
بیاض سوئی پتی محض صحرا اور روئیدگی ہی کے ناظر نہیں بلکہ آپ کے اشعار میں احساس سے عاری لوگوں کی دم اور زرا حساس سے مالا مال ہستیوں کی مدحت کے عناصر آپ کی شخصیت کو مزید معتبر کر دیتے ہیں کمزور طبقے اور پرو تیاریوں آوازے مزدوروں کے خون سے چلتی ملیں اور ان ملوں سے اٹھتا دھواں حساس طبع بیاض پر تازیانے برساتا ہے تو بیاض اس طرح کے اشعار قلمبند کرتے ہیں۔
خون جل جائیگا جسم ناتاں رہ جائے گا
چمنیوں کی کوکھ سے اڑتا دھواں رہ جائے گا
ڈوب جائے گا مسافر وسعتوں کی گود میں
سینہ صحرا پہ قدموں کا نشاں رہ جائے گا
دند نا ئیں گے درندے آبرو کے شہر میں
شرم اڑ جائے گی تو انساں کہاں رہ جائے گا
انسان کی ابتری اور تہذ یہی انحطاط کا ایک سبب دلوں میں کدورتیں رکھنا بھی ہے کیونکہ جب انسان ہر قیمت پر مسابقت کی دوڑ میں شامل ہو کر جینا چاہیے کہ پھر دوسرے انسان کیلئے جذبہ شریفانہ نہیں رکھتا بلکہ حریصانہ جذبے سے دوسرے
انسان کے آدرش کا خون کرتا ہے۔ انسان کی ایجادات اور بے مہا با مسابقت کی دوڑ کے مظاہر کو بیاض سونی پی اس طرح آشکار کرتے ہیں
جو بھی ملا لہو میں نہایا ہوا ملا
کس نے فضا میں خون کی سرقی اچھال دی
پہنچا نہ آج تک کوئی دل کے خلاؤں میں
مہتاب پر کمند تو انساں نے ڈال دی
حضرت بیاض زرا حساس سے مالا مال تھے انہیں عصریت” کے عناصر نے نہ صرف پالا پوسا، بلکہ وہ مشرقی اقدار کے تہذیبی سحر میں بھی بتلا رہے یہی وجہ ہے کہ وہ ہر صورت میں انسان کو متدین دیکھنا چاہتے تھے اور انسان کو شعور حالات دینے کے ساتھ ساتھ شعور ذات بھی دینا چاہتے تھے ان کے اشعاران کی ناظرانہ حیات کے
امانتدار دکھائی دیتے ہیں۔
اس شخص کی قسمت میں نہیں ساحل امید
جو شخص ہو حالات کی موجوں سے گریزاں
جسم کٹ سکتے ہیں پرانی اناؤں کے وجود
کیا تری تحریص کی تلوار سے کٹ جائیں گے
بارشوں کا زور ہے کچے مکاں کا فکر
بیٹھ جائیں نہ یہ دیواریں پرانی ہو گئیں
بیاض سونی پتی کا شعری مجموعہ رحیم طلب نے 1985ء میں سینبرا پہلی کیشنز بہاولپور کے توسط سے شائع کیا تھا تلاش بہار کے باوجود اور احباب بیاض سے لجاجت آمیزی کے باوصف ان کے کلام تک میں رسائی نہ پاسکا
احساس کے انداز نام کا شعری مجموعہ جس میں نیاز کو کب اور بیاض سونی تی کا کلام اٹھا شائع ہوا تھا اس کے کچھ اوراق (کٹے پھٹے ) مجھے امان شہر کے چوک سلی خان لائبریری سے ملے اور انہیں اوراق کی مدد سے میں چند سطور لکھنے کے قابل ہوا ہوں حیرت ہے کہ آج لوگ علمی مباحثوں سے نہ صرف کتراتے ہیں بلکہ حق کو بھی شعلہ بار نظروں سے گھور کر اس کی راہ میں بھی رکاوٹیں کھڑی کرتے ہیں خیر یہ تو ذاتی تجربہ تھا مگر میرا موضوع حضرت بیاض کی شعری کائنات کا جائزہ لینا ہے حضرت بیاض سونی پنتی جس طرح کے تخلیقی اوصاف سے مالا مال تجھے افسوس ناقدری زمانہ کا شکار ہوئے ان کی شعری نزاکتوں اور فنی محاسن و مصائب پر بات تک کرنے کا آغز نہ ہو سکا اس طرح مثبت مکالے کی مقصود فرق نے اس عظیم شاعر کو تو جہات کی گرد میں لپیٹ کر رکھ دیا یوں ایک روشن فکر شاعر خواب و آدرش رکھنے والا گیانی اور ولی خصلت انسان تاریک راہوں کی تیرگی کا شکار ہو انگر بیاض کی مضبوط غزل اور اس غزل کی فکری بو قلمونی اور شعری تا شبا کی کو زیادہ دیر با یا نہیں جاسکتا۔ اب اس پر مکالے کا آغاز ہوا چاہتا ہے راقم کے یہ حروف اسی مکالمے کا ابتائی ہے۔
بیاض کی غزل ان کے ذاتی تجربے پر استوار ہو کر معاشرتی اکامیوں میں نفوذ کرتی چلی جاتی ہے اس طرح معاشرے کا تہذیبی اور ثقافتی فوج ریاض کی غزل میں در آیا ہے ۔ اور یہی بوقلمونی بیاض کی غزلوں کو رضی نیز گیوں سے جوڑ دیتی ہے بیاض دروں بینی اور بیروں بینی کے حوالے سے بھی ایک مدبر کے روپ میں جلوہ ریز دکھائی دیتے ہیں۔ کیونکہ جب انسان کا اندر مصفا ہو جاتا ہے جہان باطن میں کیف آگئیں اور احباط پر درختچه گل تو بالٹی مظاہر کی فیض رسانیاں اطراف داناف میں لہلہاتے ہیں الجھیل کر خارجی ماحول کی زیبائش کا سبب ٹھہرتی ہیں بیاض کو اس بات کا شدت سے احساس ہے کہ مشینی دور میں انسان کی ترجیحات تیزی سے بدلتی جارہی ہیں انسان اپنے ماحول سے کٹ کر حجرہ ذات میں پناہ لینے لگا ہے اور سائنسی علوم کی یلغار نے انسان سے احساس اور جذبے کے موتی چھین لیتے ہیں رب انسان خلاؤں کو تسخیر کرنے کی دھن میں انسانی رشتوں کی تقدس کو پامال کرتا جا رہا ہے اور اپنی اراضی جنت کی انہدام پذیرم کا سامان کرنے لگا۔ مثلاً:
اجڑی ہوئی ہے جنت ارضی مگر بیاض
انساں کا فکر گھوم رہا ہے خلاؤں میں
سائنسی ایجادات ان کی لا یقنیت اور مضمرات کے بارے میں اس طرح
نکتہ شیخ ہوتے ہیں
دوستو ناقابل تقسیم ذرہ توڑ کر
کیا ملا ہے زلزلہ آور دھماکوں کے سوا
کلام بیاض کا ئناتی سچائیوں سے مزین کلسک اور جدت کا خوبصورت مرقع ہے جس میں مشاہداتی حیات اور ناظرانہ بصیرت سے کام لے کر حضرت بیاض نے انسانی رویوں مشخص مزاجوں اور ارسی المیوں کو خوبصورتی سے مصور کر کے اپنی بالغ نظری اور خلاقیت ک جواز فراہم کیا ہے نمونہ کلام درج ذیل ہے۔
ساتھ پربرف کا ٹکڑا ہو کہ انگارہ ہو
ایک ہی بات ہے دونوں کی جلن ایک سی ہے
ختہ قبروں کی طرح گھر کی چھتیں بیٹھ گئیں
سر کو تھامے ہوئے ہیں بیٹھ رہا آنگن میں
زیست کے تالاب میں گرتے رہیں گے سنگ غم
پھیلتے جائیں گے انساں کی خواں کے دائرے
۔ آپ تالے ڈال دیں گے گرلب اظہار پر
میں مجسم محشر آہ وفغاں ہو جاؤں گا
ایسا نہ ہو کہ تیرے بھی آنسو نہ رک سکیں
اے دوست ضبط غم کا مجھے مشورہ نہ دے
طے ہوا ہے روشنیوں کے خداؤں میں
زنجیر تیرگی ہے کرنوں کے پاؤں میں
تیرو شی سے رنگ شفق ہاتھتے رہیں لوگ
مردوں سے زندگی کی رمق مانتے ہیں لوگ
آ رہی تھی ترے قدموں کی صدآنگن میں
کون تھا اپنے خیالوں میں سوا آنگن میں
پتے صحراؤں کے جھونکے شہر میں آنے لگے
جنگلوں کے ناگ بازاروں میں کرانے لگے
بے وقت جو سفر کو نکلتے ہیں دھوپ میں
صحرا کی گرم ریت پہ جلتے ہیں دھوپ میں
کچھ مقطع
اب چہکتی بجلیاں جانیں بیاض
ہم تو تکمیل نشین کر چلے
اس پر بھی بیاض آپ نے کچھ غور کیا ہے
صدیوں پہ بکھر جاتی ہے لمحوں کی کرن بھی
دنیا ئے تیرگی میں بکھر جاؤں گا بیاض
لیکن میں اپنے خوں کی کرن چھوڑ جاؤں گا
ہم نے بھی دیکھے ہیں اوراق بیان کائنات
کچھ نہیں غم کے معانی اور لفظوں کے سوا
کب عطا انسان کو ہوگا بیاض احساس غم
روح کب پتھر کے اس پیکر میں ڈالی جائے گی
غزل
پھر سوچ لے خدا کا مجھے واسطہ نہ دے
جو عہد کر رہا ہے زمانہ بھلا نہ دے
حالات لے اڑے مجھے لمحوں کے دوش پر
میں دور جا چکا ہوں مجھے اب صدا نہ دے
اب تو بھی جل رہا ہے میرے غم کی آگ میں
کہتا نہ تھا میں شعلہ ہوں مجھ کو ہوا نہ دے
ایسا نہ ہو کہ تیرے بھی آنسو نہ رک سکیں
اے دوست ضبط غم کا مجھے مشورہ نہ دے
یاران پُر خلوص کا کھل جائے نہ بھرم
ڈر ہے کوئی نقاب مروت ہٹا نہ دے
جا کر بلندیوں میں بکھر جاؤں گا بیاض
اک مشت خاک ہوں کوئی جھوٹ کا اڑا نہ دے
غزل
اپنے لہو کی سوچ کرن چھوڑ جاؤں گا
دنیا میں روشنی کا چلن چھوڑ جاؤں گا
اوراق گل یہ تازہ بہاروں کے خون سے
لکھ کر میں اک نصاب چمن چھوڑ جاؤں گا
انسان ہیں کہ سنگِ رواں تیرے شہر میں
میں ان کے دل میں اپنی جلن چھوڑ جاؤں گا
لمحوں کی ٹہنیوں پر ہے لرزاں مرا وجود
پتوں کی طرح اڑ کے چمن چھوڑ جاؤں گا
شاید کسی خیال برہنہ کے آئے کام
لفظوں کی میں قبائے سخن چھوڑ جاؤں گا
دنیائے تیرگی میں بکھر جاؤں گا بیاض
لیکن میں اپنے خوں کی کرن چھوڑ جاؤں گا
یہ مضمون پروفیسر اعمران میر کی کتاب ” پس غبار "سے لیا گیا ہے