کوٹ ادو کا ادب

کوٹ ادو: شفیق انور شاز: شعور خود قدری کا شاعر

پروفیسر اعمران میر

شفیق انور شاز کوٹ ادو کی مردم شناس عمری کا صاحب بصیرت باسی ہے جس سے شخصی کوائف میں بو قلمونی کا احساس اس کی شخصیت کو قدرے پیچیدہ کر دیتا ہے مگر یہ چیدگی کبھی بھی سادگی کے پیکر میں ڈھل کر موصوف کی باطنی حسیات تک رسائی کا سبب بنتی ہے مگر جو نہی آدمی اس سادگی کی اوٹ سے شماز کے خال وخد کو ملاحظہ کرنا چاہتا ہے تو موصوف پھر سے حزم، حجاب کی تہوں میں چھپ کر تحفظ ذات کا سامان کر لیتے ہیں اس تمہید طولانی کے بین السطور ہما را مدعا یہ ہے کہ شاہ آسانی سے آپ پر نہیں کھلتا۔ ابقول شاہین عباس

اس نے کھلنے کی یہی شرط رکھی ہو جیسے
مجھ میں گر ہیں کی لگا جاتا ہے جب کھلتا ہے

بے شمار نظریات و افکار کی زد میں آئے شاز“ کی شاعری قدرے مختلف واقع ہوئی ہے یعنی اس کی شاعری میں سادگی دیر کاری کے عناصر کی موجودگی قاری کیلئے خوشگوار حیرتوں کے در باز کرتی ہے شاز کے فکر وفن کو سمجھنے کیلئے آپ ذرا ان کی یہ سطور ملاحظہ فرمائیں شاز اپنی ڈائری میں بلا عنوان کے تحت عرض پرداز ہوتا ہے۔ "سورج کی تپش مجھے چلنے نہیں دیتی اندھیرے میرا راستہ روکتے ہیں مجھے اندھیرے نہیں مطلوب مجھے تپش بھی نہیں چاہیے میں ایسی روشنی کا متلاشی ہوں جو چاند جیسی ٹھنڈک لیئے ہوئے ہو” میں نے بہت سوچا کہ میں مسلسل تکلیف زدہ کیوں ہوں بالآ خری سطر و ہوا ہے کہ میں لوگوں کے ساتھ چلنا نہیں سیکھ سکا مندرجہ بالاسطور میں چھپی شان کی فلاسفی آپ پر گراں بھی گزرسکتی ہے آپ سوچ سکتے ہیں کہ یہ کیسا آدمی ہے جو سورج کی تپش کا شا کی ہے اور ہان کی ٹھنڈک اور انبساط آگیں کرنوں کا خواہاں ہے اور یہ کیسا سر پھرا ہے کہ مسلسل تکلیف زدہ ہوتے ہوئے بھی لوگوں کا ہم قدم یا ہمرکاب نہیں ہوتا مگر پھر سے صاحب ….. اسی تنہا روی میں ہی تو شاز کی فکر انفرادیت کی سمت جست لگانے کو پر تولتی ہے کیونکہ موصوف اس بات کی تہہ تک پہنچ چکے ہیں کہ میلے میں میں اور خلقت کے انبوہ میں انسان کی ذاتی شخصیت گم ہو جاتی ہے اور ویسے بھی نقار خانے میں طوطی کی آواز کون سنتا ہے یہی وجہ ہے کہ شاز اپنی راہیں الگ تراشتا ہے اور اپنی شخصیت کی تعمیر وہ اپنے وضع کردہ اصول و مبادی کے تحت خود ہی کرتا چلا جاتا ہے۔ مندرجہ بالا شاز کی سطور کو اگر تعمیق نگاہ سے دیکھیں تو شاز کا انسان اور انسانیت سے متعلق عقیدہ بھی برآمد ہو جاتا ہے کیونکہ موجودہ دور میں جہل کی تاریکیاں جس قدر سرعت کیساتھ معاشرے میں نفوذ کرتی چلی جاتی ہیں اس سے قبل اس طرح کی ثقالت خال خال ہوا کرتی تھی سورج کی تپش تو زندگی کی نوید ہوا کرتی تھی اور تاریکی کے خلاف اعلانِ بغاوت بھی مگر موجودہ دور میں تہذیب نو کے نام نہاد علمبر دار گلوبل ویلج جیسے دلکشا تصور اور (WTO) ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن جیے اداروں کی ظاہری رفاہی صورت گری سے مقہور و محکوم عوام کا استحصال کرتے ہیں اور یہ استحصال اخلاقی اقدار کو چاہتا ہوا تہذیبی یک رنگی کو روندتا ہوا معاشرے کی پیداوار تک کو بھی چاٹ جاتا ہے تو ایسے نام نہاد ” مقتدر طبقے جو کہ پردہ اصلاح میں تخریب و تشکیک کے عناصر کو فروغ دے کر عامتہ الناس کو زبوں حال کر رہے ہیں ان کانیکی سراپا شاز نے اپنی نثری سطور میں پیش کیا ہے کیونکہ ہم ایسے سامراجی سورج” (مغربی استبدادی طبقے ) کی جگر دوز تپش کا کیا کریں جن کی جلن ہماری آنکھوں سے بھائی نوچ لے اور میں مستقل طور پر اندھا اور تبدیہی طور پر بانجھ کردے اور ایسے مرکت خواشرافیہ طبقے کی ہمرکابی اور ہم سینی سے فائدہ جن کا مقصود و منتجا ہی میکاولی کی طرز سیاست ہو شار کی نثری سطور اس کے کرب باطن کو انشا پر کر کے اس کے اشعار کی تنظیم توضیح میں بھی معاون ثابت ہوسکتی ہیں۔
شفیق شاز نیم دنیا دار آدمی ہے اسے دوستی بنانا تو نہیں البتہ نبھانا ضرور آتا ہے انسان ” زندگی” کا ئنات اور سماج کے متعلق اس کے نظریات اس کی ذات سے ہی پھوٹ کر دوبارہ اس کی ذات میں جذب ہو جاتے ہیں موصوف کا مطالعہ منوع قسم کا ہے ماضی میں ہو میو پیتھک کی تعلیم بہاولپور یو یورسٹی سے ریگولر طالب علم کے طور پر حاصل کی اور حکیم بننے کے بجائے نیم حکیم بن گئے ہوا یوں کہ انفرادی نمبروں سے امتحان طب پاس کر چکنے کے بعد موصوف کو ایک جاب آفر ہوئی آرڈر ٹائپ ہوئے مگر آرڈر لینے سے قبل کلرک بادشاہ نے لکشمی کی جھلک دکھانے کو کہا تو موصوف اس بات پر اتنے بگڑے کہ جاب ہی ٹھکرادی اور مل نشین ہو گئے یعنی ایک فیکٹری میں معمولی مشاہرہ پر ملازمت اختیار کر لی نتیجہ ڈھاک کے وہی تین پات فیکٹری میں کوئی فرشتہ صفت لوگ تھوڑی ہی تھے وہاں سے بھی موصوف کا دل اچاٹ ہو گیا بعد ازاں تیاگ کا مرحلہ آیا اور موصوف راجہ سدھارتھ ( گوتم بدھ) کی طرح نروان کے حصول کیلئے گوشہ نشین ہو گئے البتہ کسی شجر کی اوٹ تقسیہ کی بجائے اپنی بیٹھک میں ہی مقفل ہو گئے ( تا کہ کھانا متار ہے ) پھر والدین کی دعاؤں اور احباب واقارب کی دعاؤں سے عملی زندگی کی جانب واپس مڑے اور ایک (PCO) بنا لیا وہاں پر بھی موصوف کا کثیر مطالعہ اور اسلامی ادبی افکار آڑے آتے رہے اور اگر کوئی سندر ناری کسی محبوب کو کال کرنے آئی اور فون کان سے لگا کر بولی مہاراج میں آج کالج نہیں گئی آپ کہاں ہو میں بس پھر کیا تھا حضرت شاز کا ناصحانہ جن بوتل سے باہر نکل آیا شرم کرد والدین سے دھو کہ عصمت دری … کار زیاں ہے کس منہ سے گھر واپس جاؤ گی، پتہ نہیں کیا کیا جو جو کچھ نا شناپ رہن مبارک میں آیا کہتے چلے گئے اور ناری سرپٹ بھاگ نکلی اور تو اور موصوف کبھی کبھار مشکوک کال کرنے والی سے پیسے تک نہیں لیتے تھے کیونکہ ان کے ذاتی نظریات کے مطابق یہ مال حرام تھا یہ کام بھی زیادہ عرصہ نہ چل سکا اب موصوف ایک کتاب گھر اور فوٹوسٹیٹ کا مشغل مرداں کر رہے ہیں مگر خودہی ہے … ا شفیق شاز میرا مربی اور خلیق دوست ہے اس کی عادات کی تیرگی کبھی کبھار مجھے ششدر کر دیتی ہے اس کا ایقان ذات خداوندی پر اتنا مضبوط اور مدلل ہے کہ وہ ہر کرب زدہ اور سفاک لمحے کو بھی ہنستے مسکراتے جھیل جاتا ہے اور کٹھن ساعتوں میں بھی اس کا باریش چہرہ متغیر نہیں ہوتا بلکہ امتنان واطمینان کے مفرح جذ بے اس کے عارض در خسار پر رقصاں رہتے ہیں شاز کا کوٹ ادو کی ادبی تعمیری اور رفاہی تاریخ میں ایک معقول حوالہ بنتا ہے مگر ہمیں ان سطور میں ان کا ادبی حوالہ ہی بیان کرتا ہے۔ شاز کی شاعری کے رنگ متنوع مظاہرے کے اعلامیے ہیں حمد ، نعت ، منقبت علی شاعری غرض ہجو میں سب میں ایک خاص طرح کی لوچ کے عوامل پائے جاتے ہیں۔

بقول فیاض احمد چیمہ

بدن کی دھوپ آنکھوں میں اترتی ہے تو شاعری وجود میں آتی ہے
میر نے کہا تھا کہ

داغ فراق وحسرت وصل ،آرزوئے شوق
میں زیر خاک بھی یہی ہنگامہ لے گیا .

شاز کی شاعری داغ فراق اور حسرت وصل کے گردہ ہی نہیں گھومتی بلکہ آرزوئے شوق کی شاعری ہے جس میں شاعر کے دل ناصبور کی اضطرابی کیفیت کے ہیولے بنتے بگڑتے اور تعمیر و تخریب کی کشاکش حریصانہ کے مظاہر جلوہ ریز نظر آتے ہیں شاہ چونکہ صلح جوئی اور اخلاقی اقدار کے شاعر ہیں اس لئے ان کی سوچیں اور امنگیں توحید خداوندی سے ضیاء بار ہوتی وہ اپنی نظم بعنوان "درعا” میں کہتا ہے۔

اک شجر سایہ دار بنا
مجھ کو اے  خدا

مجھ سے کسی کو دیکھ نہ ملے
سکھ ہی ملے سیدا
وہ راہ مری راہ ہو جس پر ترا انعام
جس پر ترے رسول چلے انبیاء تمام
جن پہ گرم ترا

متصوفانہ رنگ شاز کی شاعری میں تابانی سے محسوس کیلئے جاسکتے ہیں۔
مثلاً

رہ حق میں کہیں بھی کوئی پیچ وخم نہیں ہوتے
ذرا مشکل تو ہوتی سدا کے غم نہیں ہوتے ہے
مری تنہائیاں مجھ کو سدا بے چین رکھتی ہیں
مگر میں کیا کروں آنکھوں کے گوشے تم نہیں ہوتے
میں تنہا لڑ نہیں سکتا اندھیری شب کے لشکر سے
انی روشنی دے دے اندھیرے کم نہیں ہوتے

معاشرہ میں رہتے ہوئے سیبی از جمل سے کٹ کرے ہنا بے تباہی کے ضمن میں آتا ہے انسان کا ارضی ماحول سے اٹوٹ رشتہ ثابت اور مسلم ہے لہذا انسان کیلئے از حد ناگزیر ہے کہ انسان تحاریک معاشرہ سے بھی آگاہ ہو اور ان کے افادی عناصر اور پوشیدہ مضمرات سے بھی شناسائی رکھا ہو کیونکہ اسی طرح انسان ساختی چالی کو سمجھنے کے قابل ہوسکتا ہے
بقول افضال حسین
طاقت کے ایک ترجیعی نظام میں اپنی مختلف ضرورتوں کے تحت سیاست ایک تصوراتی مکانی عرصہ (Conceptual Space) قائم کر لیتی ہے جو تصور کی سطح پر وحدانی ( Homogenous) اور تحریری اصول و ضوابط کا پابند ہوتا ہے اور عوام کی ہمہ رنگ متنوع دھڑکتی ہوئی مادی زندگی سے الگ اپنا وجود رکھتا ہے”
موجودہ دور میں سیاست کا کوچہ جس طرح باعث ننگ و عار ہو چکا ہے اس طرح شاید طوائف کا کوٹھا بھی نہیں ہوا ہمارے اسلاف اور بزرگوں نے بھی ”سیاست“ کیلئے طوائف کا استعارہ استعمال کیا ہے۔ ۔ گھری ہوئی ہے طوائف تماش بنیوں میں
شفیق شاز جہل کی بے طرز قیادت کی ریشہ دوانیوں کے ناقد کے طور پر سامنے آتے ہیں فقیہ شہر کی بے بسی اور امیر شہر کی ڈھٹائی کے عکوس درج ذیل اشعار سے مترشح ہوتے ہیں۔

عبائیں چھین لیتے ہیں کفن تقسیم کرتے ہیں
فقہیہ شہر بھی دا روز من تقسیم کرتے ہیں ،

ایوانوں میں بیٹھی اشرافیہ کے طرز وادا کو اس طرح بے حجاب کرتے ہیں

جیسا یہ کرتے رہتے کیا لوگ حلالی کرتے ہیں
ایوانوں میں بیٹھے اکثر لوگ دلالی کرتے ہیں

مندرجہ بالا شعر میں لفظ ” اکثر کا تخلیقی استعمال بہت سوں کے کردار واطوار کو واضح کرتا ہے اور لفظ دلالی اگر چہ سوقیانہ اور بازاری قسم کا لفظ ہے مگران بے حمیت سیاستدانوں قوم کی بیٹوں کو طول اقتدار کی خاطر بیچ دینے والوں، مساجد پر بم گرانے والوں ، آپسی رشتوں کی طنابیں کاٹنے والوں ، عقائد و مسلک کے بت تراش آذروں اور ملک کو کھوکھلا کرنے والے ملاؤں، اور قبیح فطرت اکا بروں کی قلبی بے تمیتی اور بازاری ذہنیت کو اور کس لفظ سے بے نقاب کیا جا سکتا تھا دیوثیت زدہ لوگوں اور دلالوں کو دلالی ایسے موزوں لفظ سے ہی یاد کیا جا سکتا ہے اور شفیق شاز نے بے دھڑک ایسا کر کے اپنے تخلیقی جوہر بھی دکھائے ہیں اور عصریت کو بھی شعروں میں جگہ دے کر اپنے عہد کو شخص کیا ہے ۔ جو کہ خوش آئند عمل ہے۔ شفیق شاز کا غزلیہ لحن عصری کرب سے نمو پا کر جمالیات کے رنگوں سے جب ہم کنار ہوتا ہے تو بہت بھلا لگتا ہے کیونکہ جمالیاتی دبستان ادب کے اندر چھپے اندر حسن کو صراحت سے بیان کرتا ہے اور بلکہ جمال کی ماہیت، اصلیت، اور ضرورت واہمیت کو بھی مدلل و مبسوط مترشح بھی کرتا ہے۔
شاز کی شاعری دیکھیں:

زندگی پھول نہیں ہے کہ کھلے باغوں میں
زندگی گرد ہے تپتے ہوئے صحراؤں کی
راہ بھولیں تو بھٹکنے سے بچا لیتی ہے.
ہم کو وہ اڑتی ہوئی دھول ترے پاؤں کی

درد کی صورت عیاں کچھ اور ہے
لذت درد نہاں کچھ اور ہے
یہ مرادل ہے کوئی جنگل نہیں
اس کی وحشت کا سماں کچھ اور ہے
شاز لفظوں کی وکالت پر نہ جا
اس کے چہرے کا بیاں کچھ اور ہے

شاز امیدوں، حیرتوں اور آرزوں کا شاعر ہے اس کی شعروں کی رمزیت میں بلا کا اسرار چھپا ہوا ہوتا ہے کیونکہ بھیدوں بھری نگری میں بذات خود انسان بھی کسے معمے یا بھید سے کم نہیں ہے شاز کے نزدیک دنیا محض کچھ موسموں، نیرنگیوں یا فطری قواعد کا مجموعہ ہیں اور نہ ہی انسان محض حیوان ناطق ہے بلکہ شاز کے نزدیک انسان و کائنات کی لاختم وسعت پذیری از حد اہمیت کی حامل ہے شاز دھرتی کو امن سے سینچنا چاہتے ہیں اور انسان کو علم سے مستنیر ہونے کا گر بتلا کر عظیم اوشو کے درجے پر متمکن ہو جاتے ہیں۔ مثلاً یہ اشعار

ظلمتوں کی بستی میں روشنی انہی سے ہے
اس لیئے کتابوں کو الوداع نہیں کہنا
شاز ان درختوں پر پھر بہار آئے گی
تم کبھی امیدوں کو الوداع نہیں کہنا

سائنٹی فک تنقید کے علمبردار (TAINE) کے خیال میں فنی اور ادبی تخلیق نمین طاقتوں کی پیداوار ہوتی ہے اس کو پوری طرح سمجھنے کیلئے ان کا تجزیہ
کرنا ضروری ہے۔
-1 فن کار کے خاندانی حالات، اس کی قومی اور معلمی خصوصیات
-2 وہ ماحول جسمیں فن کارنے پر ورش پائی تعلیم تربیت حاصل کی
-3 اس زمانے کے سماجی معاشی اور مذہبی حالات .

یہ بات از حداہمیت کی حامل ہے کہ فنکار بذات خود کیا ہے کون ہے اور اس نگاہ کیا ہے وہ دروں بینی میں مہارت تامہ رکھتا ہے یا معروضی کا زاویہ صداقتوں کو مس کرتا ہے اس کے فن پارے کی بنیاد جذبہ ہے یا آگہی کا کرب وہ فن کے استقرائی
( Imductive) عمل کو بنیاد بنا تا ہے (Deductive) طریق کار کو اوڑھنا بچھونا بنا تا ہے شفیق شاز کی شاعری کا پھیلاؤ مختلف جہات میں ہے اس کی شاعری ارضی عرفان رکھنے والے انسان کی شاعری ہے جس میں معروضی حقائق و معارف بھی موجود ہیں اور انسانی ذہن کی پر اسراریت بھی موجود ہے شفیق شاز بنیادی طور پر شعور خود قدری کا شاعر ہے عمیق وبسیط کائنات کی اکائی (حضرت انسان) کی اہمیت کا از حد قائل ہے اور وہ فن پارے کی تشکیل و تدوین کے عمل کے دوران بھی بھارت اور بصیرت کی حسیات سے کام لے کر اپنے تجربے کو (Empirical) تجربیاتی بنا تا چلا جاتا ہے اور سطحیت کی بسر نہیں کرتا بلکہ تخلیق اور خلایت کے سنگھاسن پر ممکن نظر آتا ہے اور اپنے آپ کو ایک خلاق ناظر کے طور پر پیش کرتا ہے یہی حسن اس کی شاعری کا اتم حسن ٹھہرتا ہے۔
اب شماز کی شاعری کا انتخاب پیش خدمت ہے جس میں وہ سب کچھ موجود ہے جو کائنات انسان اور سماج میں موجود ہے۔

 

اشعار:

درد جس کا نصاب ہوتا ہے
ہاں وہی کامیاب ہوتا ہے

جو بھی کم ظرف ہو وہی لوگو
میکدے میں خراب ہوتا ہے

تم اتنے اچھے ہو کیا بتا میں
بس اک کمی ہے وفا نہیں ہے۔

سیات جو بھی کرتے ہو وہ یہاں نہیں ہوتی
شاز تم کتابوں میں مبتلا ہوتے ہو کیا

یہ زرد پتے سبھی کو آگاہ کررہے ہیں
اداس موسم شجر کی سانسوں میں رک گیا ہے

ہم بھی اگر جو تیری طرف دیکھنے لگیں
چارہ گروں کے سارے بھرم ٹوٹنے لگیں

خاموش ظلم سہتے رہے ہیں جو آج تک
اک انقلاب آئے اگر بولنے لگیں

ہے جھوٹ میرے دور میں اب علم کا عروج
شاز المیہ ہے اگر سوچنے لگیں

اپنے اپنے مسکنوں سے جو نکل کر جائے گا
وہ ستارہ آسماں کا کیوں نہ ہو مر جائے گا

ظلم کے بڑھتے ہوئے سب ہاتھ پاؤں کاٹ دو
ورنہ یہ انسان اپنے آپ سے ڈر جائے گا

دیکھ لینا شاز ملت کیلئے ہر عہد میں
جب بھی جائے گا کسی مزدور کا مر جائے گا اگلتی ہیں

نفرتیں زہر جب اگلتی ہیں
چاہتوں کے شجر نہیں رہتے
پیار شامل نہ ہو تو پھر اکثر
رابطے پر اثر نہیں رہتے
سچ بیاں کرنے کہنے والوں کے
شاز کندھوں پر سر نہیں رہتے

جہاں مزدور کے بچے نوالے کو ترستے ہوں
وہاں کیسے ملے فرصت جمال یار کی خاطر

وہ جاں کنی ہے سکوں منجمد ہوا ہوا ہے
رگ حیات میں خوں منجمد ہوا ہوا ہے
سفر کا رخت میر مگر وہ عزم سفر
چلوں تو کیسے چلوں منجمد ہوا ہوا ہے
میں شہروں کا مکیں ہو مگر مکان دل
رہوں تو کیسے رہوں منجمد ہوا ہوا ہے
اب اور طرح سے ہے عشق کی تپش درکار
دیکھ میرا جنوں منجمد ہوا ہوا ہے

 

یہ مضمون پروفیسر اعمران میر کی کتاب ” پس غبار "سے لیا گیا ہے

یہ بھی پڑھیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button

For copy this text contact us :thalochinews@gmail.com