استاد نذر حسین نذیر کی متحرک شعری جمالیات اور شخصی کوائف کی نیکی کو حیطہ تحریر میں لانا نا ممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے۔ وجہ یہ ہے کہ نذیر حسین نذری کی شخصیت سادہ اور واضح ہونے کے باوجود بھی بھیدوں بھری ہے۔ نذیر اپنی علمیت ہزار سنجی ،لسانی تراکیب اور مطائبات ذاتی سے کام لے کر ہجوم دوستاں اور مفل یاراں کشت زعفران بنا دیتے ہیں۔ چلتے پھرتے مصرعے موزوں کرتے رہتے ہیں بلکہ ماضی میں بیچ بازار سائیکل روک کر اپنی جیسی ڈائری پر مصرعے لکھنے کی مشق بھی کرتے رہے تھے ، ٹریفک پولیس کے سپاہی اس کے چشم دید گواہ ہیں ۔ خیر یہ تو برسبیل تذکرہ بات در آئی وگرنہ عرض کرنے کا مطلب سیدھا اور واضح ہے کہ موصوف ارب سے جڑے ہوئے شاعر جستجو اور نیک خو ہیں، نذیر صاحب بچپن ہی سے کو چہ ادب کی دشت نوردی کر رہے ہیں۔ ان کی اٹھان کو ایک زمانے نے بچشم خود ملاحظہ کیا اور ان کی ٹی عظمت کے بھی قائل ہوئے زمانہ طالب علمی میں جب وہ آٹھویں جماعت کے طالب علم تھے تو دعائیہ نظم لکھی وہ نظم حسن ظاہری اور خفتہ کی وہ مثال بنی کہ آپ کو ڈسٹرکٹ انسپکٹر تعلیم رب نواز انصاری نے نقد انعام سے نوازا آپکی اس شعری ریاضت کو علامہ غلام محمد محمودی تونسوی نے میل کیا اور آپ کو اس طرز سے مانا کہ آپ جوانی میں ہی ایک مکمل شاعر کے طور پر ادبی حلقوں میں مانے گئے ۔ نذیر حسین نذیر کی زندگی شادی و غم کے عناصر میں گھری رہی خوشیوں نے این طرح پائے نذیر حسین نذیر کو چوما کہ سابق وزیر اعظم ذوالفقارعل بھٹو 1973ء ہیں جب گھر غربی تشریف لائے تھے تو انہوں نے کلام نذمر کو سن کر نہ صرف نقد العام سے نواز ابلکہ شعری محاسن کی توصیف بھی فرمائی نذیر حسین نذیر پاکستان ٹیلی ویژن کے مشاعروں اور آل پاکستان مشاعرہ جات منعقدہ لاہور میں بھی اپنا کلام پیوں مرتبہ پڑھ چکے ہیں حفیظ جالندھری ، جوگی جہلمی، انور مسعود فیض احمد فیض ، تیل شفائی، جوش شیح آبادی، خرم بہاولپوری، احمد ندیم قاسمی، احمد فراز، بیدل حیدری ڈاکٹر خیال امروہی ، حسن احسان عاصی کرنالی، ڈاکٹر اسلم انصاری، افتخار عارف اور دیگر معروف شاعروں کی معیت میں مشاعرے اٹینڈ کر چکے ہیں داد و تحسین کے ڈونگرے ہر اس محفل میں برسائے گئے جہاں نذیر صاحب نے کلام پیش کیا اور منفی اس صورت میں آپکا مقدر بنی کہ پہلے رفیقہ حیات آپ سے چھڑ گئیں پھر چھوٹے بھائی اور حال ہی میں نو جوان بیٹے کی ناگہانی وفات نے نذیر حسین نذیر کو توڑ پھوڑ کے رکھ دیا ہے مگران تمام صدموں کے باوصف تذمر صاحب میر کی طرح نامرادانہ زیست نہیں کر رہے ہیں بلکہ اب بھی پیاروں کی یادوں کو سینے سے لگائے اپنی روایتی خوش خلقی اور تہذیبی مزاح کی روایت پر عمل پیرا ہوکر باوقارزیست کر رہے ہیں یہ انہی کا حوصلہ ہے۔ نذیر حسین نذیر کا کلام استادانہ اسلوب کا حامل ہے اس استادانہ کمال کے پس منظر میں آپ کے جہد و عمل اور ریاضت شامل ہے کیونکہ بے منظری سے منظر کشید کرنا اور عصری بے چہرگی کو خال و خد عطا کرنا بذات خود غیر معمولی عمل ہے نی صاحب کے کلام میں دینی معاشرت کے مناظر اور دیہی کچھر میں پھیلتی تمنداری کی وہار اور جاگیردارانہ عناصر کی خصلت بد کے مظاہر بھی مجسم ہوتے نظر آتے ہیں ۔
این دنیا تے ناجائز کیوں ظلم تھیندن
غریبیں دا زر دار کیوں خون پیندن
کیوں انصاف دا کال دنیا تے تھی گئے
کیوں بے جرم مجرم دی صف ءِ چ لکھیندن
سرائیکی شاعری عمومی طور پر سلمیت کا شکار اور بہا رہیت کی عکاس نظر آتی ہے ( چند استثنائی شاعروں کو چھوڑ کے ) ۔ رونا، دھونا، اقتصادی مسائل کا پرو پیگنڈہ، غربت، ناداری، بھوک اور مفلسی کے مظاہر کی صورت گری اور وہ بھی عامی اور علمی طریقے سے کر نا سرائیکی شاعری کیلئے ضرر رساں ہے کیونکہ جب تک شاعر کے پاس اپناز او یہ نگاہ نہیں ہوگا تہذ یہی اسلوب اور زبان کے معنیاتی نظام تک رسائی نہیں ہوگی اور تحاریک معاشرہ کے مضمرات کا درک نہیں ہو گا لسانی تشکیلات، آگاہی تشکیل متن کے اصول و مبادی سے آشنائی اور متحرک امیجری تک رسائی نہیں ہوگی اور سوچ جب تک محدود بیت سے نکل کر آفاق گیر نہیں ہوگی تو شعر میں کس طرح احساسی جذبے شامل ہونگے استاد نذیرحسین نذیر کی شاعری دیبی اقدار کی انحطاط پذیری کا نوحہ ہے کہیں ” ہوس زر کی سفاکی آپ کے کلام کا موضوع ہے تو کہیں اخلاق کی نیستی اور مغیرت و پندار کی کیابی پر تاسف کا اظہار کیا گیا ہے مثلاً :
ہوں زردے عوض کیوں احسان و کدن
کیوں چند نکھیں دے بدلے ایمان و کدن
کیوں بازاراں وچ حسن نیلام تھیندے
کیوں انسان دے ہتھوں انسان و کدن
اے اخلاق جگ وچ صف لکدا دیندے
شرافت نے غیرت را ساہ رگدا دیندے
غضب ہے بھرا دا بھرا خون پیندے
دہر دی فضا وچ حیا مگرا دیندے
نذیر صاحب پیرانہ سالی کے باوصف خوئے شباب کو اب بھی سنبھالے ہوئے ہیں اب بھی اخبار کے ادبی ایڈ یشن پوری توجہ سے پڑھتے ہیں۔ مشاعروں میں ہیں دوسری اپنی سواری پر اٹھا لے جانے کی شرط پر ضرور شرکت کی جان گئے ہیں لیکن کا خیال حال ہی میں ترک کیا ہے اگر چہ ان کے قومی مضمحل نکھوں میں تو دم ہے” کے مصداق نشہ خودی سے سرشار رہتے ہیں جس ظرافت ان کا وصف خاص ہے نذیر صاحب نے اپنے متعلق جو اشعار تخلیق کیئے ہیں وہ ان کی حسن مزاح کونشا بر کرنے ساتھ ساتھ ان کی پیرانہ سالی کو بھی مشخص کرتے ہیں۔
سیڑھڑا دردوں ہے ور مانده
اپنے آپ کوں آپ نی بھاندا ؟
بالا جو میکوں لگدے ہفتے دے بعد دھانداں
ہوٹل برانڈ روٹی گھنٹے دے وچ میں کھانداں
میں”
میں کمزور ہوں ہاں ہے ستی زیادہ
جتھاں بہنداں اٹھن کیتے دل کی آہدا
ودا نال قوت ارادی دے ٹرواں
نہ ہے کوئی سواری عیاں پا پیا وہ
میڈے ڈند سارے تھی رخصت گئے ہن
ہے تکلیف ہر وقت ہر پل زیادہ
اتانا جے سمنداں تھیندے کھنگ دا حملہ
میڈے روح دا پنچھی قفس قفس وچ ہے ماندا
چا گر دان کیتے میکوں نزلے کھانسی
انویں خیریت ہے فضل ہے خدا را
نذیرحسین نذیر کی شاعری جہاں اپنی وسوں کے وسنیکوں کی عمدہ صورت گری ہے آپ کی شاعری اعلیٰ اخلاقی اقدار کو فروغ دینے کے خوابوں پر محیط ہے معاشرتی استحکام اور بقائے انسانیت کی آرزوئیں آپ کی شاعری کا جزو خاص ہیں طبقاتی اور گروہی مفادات میں گھرے لوگوں کو طبقاتی تقسیم سے بچانا اور ملک کو لسانی عصیتوں کا شکار کرنے والوں پر برسنا نذ یر صاحب کی صلح جوئی اور انسان دوستی کو واضح کرتا ہے۔
مثلاً:
میکوں محسوس جو تھیندے او ہو کجھ میں لکھیندا ہاں
میں بدامنی دا ہر ویلے ودا ماتم کریندا ہاں
دعا منگراں میڈی ایس پاک دھرتی تے امن ہووے
میڈا مشن امن ہے ظلم تے لعنت بھیجیندا ہاں
نذیر صاحب کا کلام لمحہ موجود کے دکھوں کو بھی بیان کرتا ہے اور چہروں پر طمع کر کے پھرنے والوں کو بھی بے حجاب کرتا ہے زاہد خشک کی درشتی عشق کی سختی اور حسین کی کج روی یہ تمام مظاہر آپکے کلام میں بدرجہ غایت موجود ہیں ۔ آپ اردو اور سرائیکی زبانوں میں یکساں مہارت سے شعر کہتے ہیں اصلاحی اور ٹی شاعری بھی تخلیق تے ہیں سلام مرانی، حمد، نعت ، غزل ، قطعات، غرض تمام اضاف میں اشعار کہتے رازیل میں ان کا ارسال کردہ کلام پیش خدمت ہے۔”
تو اپنی کم نگاہی کا نہ دے الزام فطرت پر
وہیں تک دیکھ سکتا ہے نظر جسکی جہاں تک ہے
اے زاہد اپنے دل میں جھانک کر اپنا محاسب بن
تعلق تیرا خالق سے فقط سود و زیاں تک ہے
عبادت کے اصل مفہوم کو تو پا نہیں سکتا
تیرے سجدوں کا مقصد تو فقط حورو جناں تک ہے
اشعار:
کس طرح زندہ رہوں اے زندگی دل کھول کر
وقت مجھے کو دے رہا ہے لمحہ لمحہ تول کر
دیکھ میرے سامنے خالی پڑی ہیں ساعتیں
پی گیا ہوں قطرہ قطرہ عمر اپنی گھول کر
اس طرح تو چاٹ جائے گی مجھے ساحل کی ریت
یا مجھے غرقاب کر دے یا مجھے انمول کر
دیکھ لی تیری عطا تیری مداراتیں نذیر
شکریہ تیرا مجھے واپس مرا کشکول کر
علم
علم فرمان نبوی دی تعمیل ہے
انسانی عظمت دی تکمیل ہے
علم انمول نعمت ہے یزدان دی
علم حق دی قسم عزت انسان دی
علم رحمت حق علم ابدی بہار
علم معراج انسانیت دا وقار
علم لاریب سربستہ رازاں واحل
ماسوا علم زندگی ہے اجل
ہے سوجھلا علم سرتاج ہے
علم داکل ایں دنیا اتے راج ہے
شہر علم اے نبی علم دا در علی
آیا این درتے جو اوکوں عزت ملی
علم کر ڈیندے بندے کوں روشن ضمیر
علم اونی کوں اعلیٰ بنڑیندے نذیر
یہ مضمون پروفیسر اعمران میر کی کتاب ” پس غبار "سے لیا گیا ہے