کالم

دیوانِ فرید کی شہریت اور ڈاکٹر مزمل حسین

خواجہ غلام فرید دی شاعری۔۔۔نوآبادیاتی تناظر،کے پس منظر میں

رانا محبوب اختر

ہومر سے شکسپیئر، ویاس و کالیداس سے کبیر، امرائالقیس و متنبی سے محمود درویش، خسرو اور میر و غالب سے اقبال اور فیض، فردوسی و رومی سے شاہ لطیف اور ابن عربی و منصور سے فرید تک شاعری کے چودہ طبق تنے ہوئے ہیں۔ یہ جذبوں، اسرار، حیرتوں اور وحشتوں کی دنیا ہے۔ خواجہ فرید اس دنیا میں بیک وقت عشق، عرفان، شعرو حکمت کے سلطان اور دریا نوش فقیر ہیں۔ سلطان جس کو یہ دکھ تھا کہ وہ کسی کو اپنے ہاتھ سے پانی نہ پلا سکا۔ فقیر جس نے درماندگی کو زبان دے کر طاقت کے سامراجی سڑکچرز پر ضرب لگائی۔ عارف جس نے صامت رہ کر سلوک کا درس دیا ہے

توڑیں جو دریا نوش ھن
پرجوش تھی خاموش ھن
اسرار دے سر پوش ھن
صامت رھن مارن نہ بک

ہمارے دوست ڈاکٹر مزمل حسین نے ” خواجہ غلام فرید دی شاعری: نو آبادیاتی تناظر” لکھ کر فرید کی شاعری کو معاصر رجحانات سے جوڑ کر دیکھا ہے۔ سرائیکی تنقید کا یہ نامور آدمی اور ہمارا دوست، فرید کے فیض سے ہمیشہ ہرا رہے گا۔
فرید ایک نابغہ ہے۔ اس کی شاعری کا کینوس پوری کائنات اور موضوع آدمی کا دکھ ہے۔ سرائیکی زبان کے پاتال سے اس نے آدمی کے دکھ کی کتھا کی ہے۔ انگریزی اور اردو کے جنگل میں اس نے سرائیکی زبان کے ساتھ وہ کیا ہے جو بہار خزاں رسیدہ پیڑوں اور گلستاں کے ساتھ کرتی ہے۔سامراجی قہر کے زمانے میں اپنی ماں بولی میں لکھنا سب سے بڑی مزاحمت ہوتی ہے۔


فرید کی شاعری کا جغرافیہ دوامی سندھ وادی ہے۔ دکھ آشنا فرید اٹھارہ سال روہی کے ٹیلوں، ٹبڑوں اور ڈہروں میں جوگی بنا۔ مسافر ہوا۔ قلندری شعار کی۔ چار سال کی عمر میں ماں کے پیار اور آٹھ سال کی عمر میں باپ کے سائے سے محروم ہونے والے فرید نے دنیا کو پیار اور محبت سے بھر دیا اور اس کے دکھ ذات کی بجائے کافیوں کی کائنات میں منکشف ہوگئے۔ وہ تھل چترانگ میں سسی اور بیلیں بیٹیں ہیر بنا۔ اس نے سسی کے چاند کو بھنبھور کے آسمان پر چمکا دیا۔ فرید نے شاعری اور ماں بولی کی کرامت سے پوری سندھ وادی کو اپنے دیوان میں امر کر دیا ہے۔ کل کوئی نفرت بھرا سامراجی جنونی اگر ایٹم بم سے وسیب کو خاک کر دے (خاکم بدھن) اور دیوان فرید کا ایک نسخہ بھی
دنیا کی کسی لائبریری میں محفوظ ہوا تو کروڑوں مقامی فرید کے دیوان کی شہری رہیں گے۔ کہ دنیا کے ہر مقامی پاس دیوان فرید کی دوامی شہریت ہے!
سفید نسل پرست سامراج کے خلاف ماں بولی اور گل بوٹوں سے مزاحمت فرید کا وہ کارنامہ ہے جو لاطینی امریکہ کے پابلو نرودا کی جذبے، رومانس اور انقلاب بھری شاعری سے کسی طور کم نہیں۔ نرودا سامراج کے ساتھ یورپ سے آئی ہسپانوی زبان لکھنے والا دیو ہیکل انقلابی شاعر ہے(کہ لاطینی امریکہ کی زیادہ تر مادری زبانیں مر گئی ہیں) اور فرید مقامی سرائیکی لکھنے والا دیو قامت گیانی ہے۔(سندھ اور ھند کی بہت سی مقامی زبانیں بچ گئی ہیں۔ اگرچہ لسانی کرودھ کے مظاہر کہیں کہیں موجود ہیں)۔ نرودا اور فرید دونوں مگر طاقت کے تمام مظاہر کی نفی کرتے ہیں:

تھئی خلقت تابع سب
تاں وی کیا تھی پیا
ہئی گم تھیون مطلب

پڑھ پڑھ بید، پران،صحائف
پیا سکھیو علم ادب
تاں وی کیا تھی پیا

شعر فرید تیڈا ونج ہلیا
ہند ماڑ دکھن پورب
تاں وی کیا تھی پیا

عقلِ سرخ روشن ہو تو ظلمت صبح کے نور میں بدل جاتی ہے۔ خاکی وجود پربھات کی طرح منور ہو جاتا ہے اور زمین صبح کے نور سے بھر جاتی ہے۔
سامراجی رات میں فرید وحشی کہلائے جانے والے آدمی کے وجود میں نور دیکھتے ہیں اور ڈاکٹر مزمل اس پربھات کو روشن کرتے ہیں!
محترم حفیظ خان، ڈاکٹر عصمت اللہ شاہ اورڈاکٹر الیاس کبیر کا مختصر مگر جامع تبصرہ کتاب کا اچھا تعارف ہے اور یہ کتاب ہمارے ملتان کے دوست عبدالجبار کے ادارے بکس اینڈ ریڈرز نے اہتمام سے چھاپی ہے۔ ان کا نمبر یہ ہے:
03009634424
مزمل سائیں کتاب کیتے تھوریت آں۔ تہاڈے کیتے سکھ سلامتی ہمیش دیاں دعاواں۔۔۔

یہ بھی پڑھیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button

For copy this text contact us :thalochinews@gmail.com