مقبولیت نہیں، قبولیت بھی ضروری
الیکشن 2024ء کے انعقاد میں دوروز باقی ہیں، انتخابات ہونگے یا نہیں؟غیریقینی کے بادل چھٹنے پر امیدواروں کی ڈور ٹوڈور شروع ہونیوالی مہم کارنر میٹنگز سے جلسوں اور اب اختتامی مراحل میں ریلیوں تک آن پہنچی ہے، الیکشن کمیشن نے انتظامات مکمل کرلیے، انتخابی سامان کی تقسیم آج سے شروع ہوگی، ملازمین کو ڈیوٹیاں تفویض کی جاچکیں، ن لیگ، پیپلزپارٹی، تحریک انصاف کے حمایت یافتہ امیدواروں کیساتھ ساتھ آزاد حیثیت سے انتخابی میدان میں اُترنے والوں نے روٹھوں کو منانے، برادریوں کو ساتھ ملانے، ووٹرز کو قائل کرنے کے سبھی جتن کرلیے، اب بیلٹ پر لگی مہر ہار جیت کا حتمی فیصلہ سنائے گی۔
این اے 181میں لیگی امیدوار صاحبزادہ فیض الحسن نے بتدریج اپنی انتخابی مہم کو اُٹھان بخشی ہے، صوبائی ونگز کے ساتھ کے علاوہ قیصر مگسی، صفدر بھٹی اور شہاب سیہڑ سے درپردہ رابطے، مبینہ انڈر ہینڈ ڈیل انہیں راس آتی دکھائی دیتی ہے، عنبر مجید نیازی کوکمپین چلانے میں مشکلات کاسامنا ہے، عبدالرحیم نیازی جرأت مندی سے میدان عمل میں موجود ہیں۔ پی ٹی آئی کا ووٹر بیلٹ پیپرپر مہر کی صورت اپنے دل کا غبار نکالنے کو بے تاب ہے، بلے کے نشان کا بیلٹ پر نہ ہونا اور خصوصاً حالیہ دنوں میں بانی پی ٹی آئی کو پے درپے تین کیسز میں دی گئی بڑی سزاؤں سے مخصوص حلقے جو نتائج حاصل کرنا چاہتے ہیں اس میں کسی حد تک کامیاب دکھائی دیتے ہیں، جوں جوں سزاؤں کے فیصلے سنائے گئے، توں توں پی ٹی آئی کے ووٹرز اور سپورٹرز میں نفرت اور بددلی پھیلتی چلی گئی، عمران خان کے حوالے سے پاکستان کی سیاست میں فی الوقت ”نو مور“ کا یہ دیاجانیوالا پیغام اپنا کام دکھارہاہے، خصوصاً دیہی علاقوں کے جہاندیدہ باسی حالات کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے پانچ سال کیلئے برسراقتدار آنے والوں اور طاقتور قوتوں سے خدا واسطے کا بیر رکھنے سے گریزاں نظرآتے ہیں،9مئی کے واقعات سے گرفتاریوں کے عمل اور حالیہ سزاؤں نے پی ٹی آئی کے ووٹرز کو بدلے کی آگ میں جلا ڈالا یا مایوسی کاشکار کیا، بڑی بڑی معتبر غیرسرکاری تنظیموں کے جاری سروے پر نظرڈالیں تو نتیجہ سامنے ہے۔ ن لیگ اور پی ٹی آئی کی مقبولیت میں ہرسروے گزرتے دن کے ساتھ کم ہوتے اعداد کی نشاندہی کرر ہا ہے۔
اس کا یہ مطلب بھی ہرگز نہیں کہ بانی پی ٹی آئی سے لوگوں کی محبت میں کمی واقع ہوئی، بہت سے افراد جو خوابوں کی بجائے حقائق کی دنیامیں رہنا پسند کرتے ہیں، حالات کی ڈگر پرچلنے کو ترجیح دیتے ہیں، دو بڑی جماعتوں کے درمیان مقبولیت اور ووٹوں کا فرق 10سے 15فیصد کے قریب تھا، بلے کے نشان کے بغیر مہم چلانے کے امتحان اور سزاؤں کے اعلان نے اس فاصلے کو پاٹنے میں مدد دی ہے، خاموش ووٹرز نہ چاہنے کے باوجود بھی دوسرے آپشنز کی طرف مائل ہورہاہے جو نتائج کو مخصوص حلقوں کی منشاء کے مطابق ڈھالنے میں مدد کرے گا۔
بہادر احمدخان سیہڑ گزشتہ الیکشن کے رنز اپ ہیں، سجاد خان سیہڑ کے علاوہ ان کی ونگز کمزور دکھائی دیتی ہیں، آبادکارووٹ کو مائل کرنے کیلئے غلام رسول جٹ سے ہاتھ ملانے کافیصلہ گو کہ دانشمندانہ تھا لیکن نہ تو صوبائی امیدوار اپنے ساتھ لیگی ووٹرز کو چلانے میں کامیاب رہے اور نہ ہی آباد کاری کا یہ کارڈ کارگر ہوتا دکھائی دیتا ہے، چوک اعظم، چوبارہ کے حلقہ سے پراپر ونگ کا نہ ہونا، درپردہ رندھاوا فیملی سے رابطوں سے کام چلنے والا نہیں، انتخابی مہم کے آغاز سے قبل بہادر خان سب سے مضبوط امیدوار تصور کیے جارہے تھے لیکن ونگز کے مضبوط نہ ہونے پر وہ اپنا مومنٹم برقرار نہیں رکھ سکے۔اس حلقہ میں ہار جیت کا فیصلہ دس سے پندرہ ہزار ووٹوں کے درمیان ہوگا، ابھی پی ٹی آئی کے حامی امیدواروں کو پولنگ ڈے کی مشکلات سے بھی نبردآزما ہونا ہے جو سب سے کٹھن مرحلہ ہے۔
این اے 182لیہ IIمیں پیر ثقلین بخاری لیگی ٹکٹ پر قسمت آزما ہیں، دو بار کے ونر،دوبار کے ہی رنر اپ ثقلین بخاری کو سیاسی حلقے انتخابی مہم کے آغاز سے ہی کامیاب امیدوار کے طور پر دیکھ رہے ہیں، سٹی حلقہ سے لیگی ٹکٹ کے اجراء میں رکاوٹ بخاری کے گلے پڑتی دکھائی دیتی ہے، آئی پی پی کے امیدوار رفاقت گیلانی کے ساتھ کے باوجود ن لیگ اس حلقہ میں حقیقی مومنٹم حاصل کرنے میں ناکام رہی ہے، غلط سیاسی فیصلوں کے باوجود یہ ثقلین بخاری کی خوش قسمتی ہے کہ ان کے سامنے نوآموز سیاستدان میدان عمل میں ہے، حالات بھی انکے حق میں سازگار ہیں۔
اویس جکھڑ پڑھے لکھے، سوبر شخصیت کے مالک ہیں، رکاوٹوں کے باوجود بھرپور مہم چلائے ہوئے ہیں، پی ٹی آئی سے ملک نیاز کے فاصلہ پیدا کرنے کے ویڈیو بیان سے ہونیوالے سیاسی نقصان کو خاندان کی طرف سے اظہار بے بسی اور بعدازاں مزاحتمی بیانیے کی بدولت کور اپ کرلیا گیا، اپنے تعارفی الیکشن میں بھاری ووٹ لیکر وہ رنر اپ بھی رہے تو سودا مہنگا نہیں، بینظیرانکم سپورٹ پروگرام اور پیپلزپارٹی کے ووٹ بینک کے علاوہ فرید میرانی کیساتھ اور کچہ کے ووٹ کی بدولت پی پی پی کے امیدوار ملک رمضان بھلر کے ووٹوں کی تعداد بھی یقینا متاثر کن ہوگی، ہمارا لیہ کے پلیٹ فارم سے بابر کھتران ایک سوچ،نظریئے اور پیغام کیساتھ میدان میں اترے ہیں، ہاشم سہو کی سالہا سال کی رابطہ مہم سے وہ بھی یقینا کسی حد تک استفادہ کرپائیں گے، بیرسٹر یوسف تحریک لبیک، امان اللہ سہارن عوامی تحریک جبکہ انجم صحرائی عام آدمی کا پیغام لیکر میدان سیاست میں پنجہ آزماہیں، سبھی کے سلوگن اچھے اور پرکشش، سراہنے کو تو سب تیار لیکن مہر ثبت کرنے سے گریزاں،یہ دوہرے معیار اور مفلوج نظام کی نشانی ہے۔
ضمنی انتخاب کی طرز پر اگر ٹرن آؤٹ توقعات سے بڑھ کر ہوا تو نوجوان ووٹرز کی بیلٹ پر لگی مہر سب سبوتاژ اور ارادوں کو برباد کرسکتی ہے،فیئر پلے کی صورت نتائج یکسر تبدیل بھی ہوسکتے ہیں لیکن ایسا اس صورت نظرنہیں آتا کہ مقبولیت کیساتھ ساتھ قبولیت بھی ضروری ہے جس کا ابھی دور دور تک نام ونشان نہیں۔