فکر امروز
پیوستہ رہ شجر سے امید بہار رکھ
ملک بھر میں الیکشن ہوچکے ہیں۔ یہ بذات خود ایک خوش آئند بات ہے۔ ایک عرصے سے چھائے غیر یقینی کے بادل چھٹ گئے ہیں۔ آج کے الیکشن جتنے بھی متنازع ہوں پھر بھی مصنوعی بندوبست سے بہتر ہونگے۔ اس الیکشن کے نتیجے میں جو بھی حکومت بنے گی بیشک وہ جمہوریت کا اصل چہرہ نہ بھی ہو تو عوام کے کسی نہ کسی طبقے کی نمائیندگی کرے گی۔
پچھلے کچھ عرصے میں سیاست نے معاشرے کو بری طرح تقسیم کر دیا ہے۔ برسوں کے تعلق کمزور ہوگئے ہیں اور رشتوں میں دراڑیں پڑ گئی ہیں۔ لوگ غم روزگار کو بھول گئے ہیں اور سیاست کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا بیٹھے ہیں۔
اس بات سے مفر نہی کہ کسی بھی معاشرے میں سیاسی شعور کا بیدار ہو جانا ایک مثبت رجحان ہوتا ہے لیکن جب اپنے پسندیدہ لیڈرز یا اپنی مخصوص سوچ کے مطابق اس کو ایک دوسرے کو برابھلا کہنے کے لئے استعمال کیا جائے تو اس کو کم سے کم ایک ناپسندیدہ عمل کہا اور سمجھا جانا چاہیے۔ بدقسمتی سے ہمارے پورے معاشرے میں عمومی طور پر اور سوشل میڈیا پر خصوصی طور پر اس منفی رجحان کو تقویت ملی ہے۔
ہمارا معاشرہ ایک نیم خواندہ اور کسی قدر جذباتی معاشرہ ہے۔ ہم اپنی بحث یا گفتگو میں زیادہ تر دلیل کی بجائے زبان درازی پر یقین رکھتے ہیں۔ شخصیت پرستی کا مرض عام ہے۔ چنانچہ ہم عموما” مسائل یا اشوز کی بجائے شخصیات کو اپنی بحث کا موضوع بناتے ہیں۔ ان منفی رجحانات اور غیر ذمہ دارانہ روش نے قومی اور معاشرتی یک جہتی کو بہت نقصان پہنچایا ہے۔ محسوس ہوتا ہے کہ باہمی عزت و احترام اور رواداری کی عمارت زمیں بوس ہوگئی ہے۔
الیکشن کے نتائج کے بعد اس بات کا قوی امکان ہے کہ یہ نفرتیں مزید بڑھ جائیں۔ لیکن ہمیں کہیں نہ کہیں رکنا ہوگا۔ اپنے طرز عمل کا جائیزہ لینا ہوگا۔
ہمیں سیاسی تلخیوں کو مزید ہوا دینے کی بجائے ان کو دفن کر کے آگے بڑھنا ہوگا۔ روٹھے ہووں کو منانا ہوگا۔ جن کی دل آزاری کی ان سے معافی مانگنی ہوگی۔ زبان یا قلم سے پہنچے ہوئے زخم آسانی سے مندمل نہی ہوتے لیکن ڈیل کارنیگی کے مشہور قول "میٹھے بول میں جادو ہے” کو آزمانا ہوگا۔ دوستیوں اور رشتوں کو از سر نو لیکن جلد سے جلد دوبارہ استوار کرنا ہوگا۔
زندگی کو واپس اپنی ڈگر اور معمول پر آتے آتے کچھ وقت ضرور لگے گا لیکن اللہ کی رحمت سے مایوس نہی ہونا ہوگا۔
ہمیں حقیقت پسندی سے کام لینے کی ضرورت ہے۔
ہمیں ایک دوسرے پر الزام تراشی کی بجائے تسلیم کر لینا چاہیے کہ پاکستان کے ہم سب مجرم ہیں۔ ہم سب گناہ گار ہیں۔ وطن عزیز کی آزادی سے لیکر اب تک اگر ایسٹیبلشمنٹ اپنا ناپسندیدہ اور مفاد پرستانہ کھیل کھیلتی رہی ہے تو عدلیہ اور سیاست دان بھی قومی مفاد کو پس پشت ڈال کر خود غرضی کا شکار رہے ہیں اور باری باری ان کے ہاتھوں میں کھیلنے میں فخر محسوس کرتے رہے ہیں۔
عوام بھی نہ صرف تماشائی بنی رہی ہے بلکہ باہمی نفرتوں کو بڑھاوا دینے کی ناپسندیدہ روش کا شکار ہوکر رہ گئی ہے۔ اس طرح وہ بھی قومی اتحاد قائم کرنے میں بری طرح ناکام ہوگئی ہے۔ اور قومی خدمت کا کوئی قابل ذکر فریضہ انجام نہی دے سکی ہے۔
ہمیں الیکشن کے نتائج جو بیشک دھاندلی زدہ بھی ہوں ایک حقیقت سمجھ کر قبول کر لینا چاہیے۔ ہارنے والے جیتنے والوں کو مبارک باد دیں اور جیتنے والے اللہ کا شکر ادا کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے اپنے حلقے کے سپورٹرز اور مخالفین دونوں کے رہنما بنیں اور اپنے تمام تر اختیارات، صلاحیتیں اور توانائیاں علاقائی ترقی اور حلقے کے عوام کے مسائل کو ترجیحی بنیادوں پر حل کرنے کے لئے استعمال کریں۔
عوام اپنے منتخب نمائیندوں کو اپنے وعدے یاد دلاتے رہیں۔انہیں پورا کرانے پر توجہ مرکوز رکھیں اور ان پر عمل درامد کو یقینی بنوائیں۔
آنے والے وقتوں میں سیاسی بخار سے نکلیں اور معیشت کو اہمیت دیں۔ اپنی معاشی سرگرمیوں کو بحال کریں اور کاروباروں کو ترقی دیں۔ اپنی اور خود سے وابستہ زندگیوں کو بہتر بنانے پر توجہ دیں۔ غربت اور بے روزگاری بہت پھیل چکی ہے، مہنگائی نے عام آدمی کی کمر توڑ دی ہے۔ قوم آنے والی حکومت کے ساتھ ملکر اپنے وسائل بڑھانے پر توجہ دے تاکہ عام آدمی کو زندگانی کی مشکلات سے نکالا جا سکے۔
حالات جتنے بھی ناگفتہ بہ ہوں، الیکشن کے نتائیج جتنے بھی ناپسندیدہ ہوں، اس سے دلبرداشتہ نہ ہوں۔ یہ وقت گزر جائیگا۔ اگر ہم خلوص نیت سے محنت کرتے رہے تو آنے والا وقت بہت بہتر ہوگا۔ ہمارا مستقبل درخشاں ہوگا۔
امید اور یقین کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑیں۔
پیوستہ رہ شجر سے امید بہار رکھ