ہمارے گردوپیش کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جن کو ہم چاہتے ہوئے بھی نہیں بھلا پاتے کیوں کہ ان کا وجود اور ان کے ہونے کا احساس کسی نہ کسی شکل میں ہمارے اردگرد موجود رہتا ہے اگر یہ کہا جائے کہ وہ فضائے بسیط میں گھومنے والی ہوا کی طرح آزاد ہوتے ہیں تو بے جا نہ ہوگا۔ ہم ایک ایسے عہد میں زندہ ہیں جو اپنی منزل خود تلاشتے دکھائے دیتے ہیں۔ایسے میں جہاں پوری دنیا میں بدلاؤ آیا وہیں بیوروکریسی میں بھی ایک ایسی کھیپ میدان عمل میں آئی جو اپنی حساسیت ،ذہانت اور شعور کے اس مقام پر ہے جہاں انہوں نے انسانیت، مزدور دوستی اور ہر سطح پر عظمت انسانیت کا پرچارک کیا۔ یہ آفیسران اپنی روایتی اقدار کی چھلنی سے اپنے عہد کے عرفان کو گزار کر اپنے کل کے سمت متعین کرنے والے ہیں۔ ان کے راستے مسدود نہیں کیے جاسکتے کیوں کہ انہوں نے یہ بلندی کا سفر بغیر کسی سہارے کے طے کیا۔ انہی بیوروکریٹ میں سے ایک عاصم کھچی منیجنگ ڈائریکٹر اے پی پی بھی ہیں۔
عاصم کچھی صاحب کا بنیادی تعلق میری دھرتی تھل سے ہے۔ تھلوچر مزاج یہ بیوروکریٹ کسی طور بھی حاکم وقت کے سامنے نہیں جھکتا یہی وجہ ہے کہ آئے روز مخالفین ان کے خلاف کوئی نہ کوئی "شاپر ” اڑاتے رہتے ہیں مگر ان کے ہاتھ نہ پہلے کچھ آیا نہ اب کی بار کچھ آئے گا۔ عاصم کھچی سے میری پہلی ملاقات ایک دوست کے کام کے سلسلہ میں ہوئی اس وقت میں والد صاحب کی وفات، گھریلو پریشانیوں کی وجہ سے ڈپریشن میں تھا کچھ غلط فہمیوں کی وجہ سے (یا یوں کہیں میری نادانی کی وجہ سے) عاصم کچھی صاحب سے ڈانٹ کھائی جب احساس ہوا کہ میں واقعی غلط تھا تو میں نے ان سے معذرت کرنے میں ذرا سی بھی دیر نہیں کی اور انہوں نے بھی بڑے پن کا مظاہرہ کرتے ہوئے ہمیشہ محبت اور پیار دیا۔ میں کسی بیوروکریٹ کو بطور عہدے کے عزت دینے کا قائل نہیں مگر کھچی صاحب چونکہ راجپوت ہیں اور ہمارے بڑوں میں سے ہیں تو اس لیے ہمیشہ بڑوں کہ جگہ عزت و احترام ہمیشہ دیا۔ مگر ان کے عہدے سے کبھی نہ لالچ رکھی اور نہ کوئی ذاتی مفاد لیا جہاں تک مجھے یاد ہے کہ ان کے دفتر صرف دو بار ہی جانے کا موقع ملا وہ بھی کسی دوست کے کام کے سلسلہ میں ذاتی کام کے لیے کبھی ان کے پاس جانے کا موقع نہ ملا۔ میرا ماننا ہے کہ جب رشتہ میں لالچ آ جائے تو رشتہ اسی روز ختم ہوجاتا ہے۔
تھل کے حوالے سے میں ہمیشہ سے ایک رومانس کا شکار رہا اس کی ایک وجہ ہمارے یار من خضر کلاسرا صاحب ہیں انہوں نے تھل کا مقدمہ اتنی شد ومد سے پیش کیا کہ اس سے پہلے کسی نے اس انداز میں تھل کا مقدمہ نہیں لڑا۔ خضر کلاسرا صاحب ایک محبت میں گندھے ہوئے انسان ہیں اور وہ اسی محبت سے تھل کا ذکر بھی کرتے دکھائی دیں گے۔ خضر کلاسرا چوں کہ اے پی پی میں ہیں تو ان کی عاصم کھچی صاحب کے حوالے سے پوسٹیں نظر سے گزریں تو اندازہ ہوا کہ پھر سے عاصم کھچی صاحب کے خلاف ایک محاذ تیار کیا جارہا ہے۔
بطور بیوروکریٹ بھی اگر ان کی کارکردگی کو دیکھا جائے ان کے کھاتے میں بہت سے کریڈٹ ہیں۔ ان کا سب سے بڑا کریڈٹ ان کی ورکر دوست پالیسیاں ہیں یہی ورکر دوست پالیسیوں کا تسلسل آج بھی مخالفین کو کھٹکتا ہے۔ انہوں نے 150 کنٹریکٹ ملازمین کو ریگولر کیا، 40 فی صد تنخواہوں میں اضافے کا ورکروں کا دیرینہ مطالبہ پورا کیا۔ملازمین کے میڈیکل کے استحقاق کو عملی شکل دی۔ میڈیکل بلز جو عرصہ دراز سے پینڈنگ تھے ان کا اجرا، کار موٹر سائیکل الاؤئنس میں اضافہ اور ایسے بہت سے ورکر دوست اقدامات اٹھائے کہ انہیں ورکر محسن کا خطاب دیا جانے لگا۔ یہ خطاب انہی کا حق بھی ہے کہ انہوں نے ورکروں کے دیرینہ مطالبات پورے کیے بس قصور ان کا صرف یہ کہ کرپشن کے خلاف انہوں نے اقدامات جب اٹھانا شروع کیے تو ایک طبقہ جو کہ حرام۔خوریوں میں پڑا ہوا تھا وہ اپنی حرام خوریوں پر اتر آیا یوں ان کے خلاف کبھی کوئی پراپیگنڈا تو کبھی کوئی پراپیگنڈا کرنا شروع کردیتا ہے۔
عجب طرفہ تماشا ہے کہ اس شہر کے بونے
اپنے سے بڑے لوگوں کے قد ماپ رہے ہیں
فراق گورکھپوری نے بھی کہا تھا کہ
کتنی آسانی سے مشہور کیا ہے خود کو
میں نے اپنے سے بڑے شخص کو گالی دے کر
میرا ماننا ہے کہ کسی کا قد اس کی جسمانی طاقت،نسب عہدہ یا دولت سے نہیں ماپا جاسکتا بلکہ اس کے اخلاق معاشرتی رویے اور اس کے کردار سے ماپا جا سکتا ہے۔اسی پیرامیٹر کو اگر سامنے رکھا جائے تو عاصم کھچی کا کردار ماپنے کے لیے ان "بونوں” کو ماؤنٹ ایورسٹ سر کرنا ہوگا۔
میں کئی زمانوں سے ایک زمانے کو دیکھتا ہوں جو اپنے مختلف کرداروں سے دوام کے مرحلوں پر جانچا جاتا ہے اور جب انہی کرداروں میں ایک کردار سب کا احاطہ کرتا ہے تو ماضی، ماضی نہیں رہتا مستقبل بن جاتا ہے اور وہ مستقبل عاصم کچھی ایسے آفیسران کے مقدر میں لکھا ہی نہیں ثبت ہوجاتا ہے۔