آج کے نامساعد حالات، ہوشربا مہنگائی، بے روزگاری، بجلی و گیس کے بلوں کی ادائیگی میں روز افزوں مشکلات نے عام آدمی تو درکنار ، آسودہ حال لوگوں کے چہروں سے بھی رونق چھین لی ہے۔ ان دگر گوں معاشی مسائل میں گھرے لوگوں میں چڑچڑا پن، غصہ اور عدم برداشت کا پیدا ہو جانا ایک قدرتی امر ہے۔
ان منفی رجحانات کو سیاسی وابستگیوں نے مزید تقویت پہنچائی ہے۔
یہ عدم برداشت عام میل جول اور باہمی گفتگو میں واضح طور پر نظر آتی ہے۔ سوشل میڈیا کے ضرورت سے زیادہ استعمال نے برداشت اور بردباری کے کفن میں آخری کیل ٹھوک دی ہے۔
لوگ پہلے معاشرے کو درپیش مسائل پر گفتگو کرتے تھے۔ اور حکومتوں کے اچھے کاموں کی تعریف اور غلط کاموں پر تنقید کرتے تھے۔ لیکن اب عوامی مسائل کی جگہ شخصیات پرستی نے لے لی ہے۔ اگر حکمران لیڈر پسندیدہ ہے تو حکومت کی ناقص کارکردگی میں بھی تعریف کا پہلو نکال لیتے ہیں اور اگر ناپسندیدہ ہے تو ان کے کارناموں میں کیڑے نکالنا بھی اپنا فرض سمجھتے ہیں۔ پیر پرستی تو ہمارے ضعیف الاعتقاد لوگوں میں عرصے سے چلی آ رہی ہے لیکن شخصیت پرستی کی بیماری نے چند سالوں سے ہی زور پکڑا ہے۔ اس طرح کے غیر صحت مندانہ رجحانات پاکستان کے علاوہ دنیا کے کسی معاشرے میں نہی پائے جاتے۔ وہاں ہر تعصب سے بالاتر ہو کر مسائل اور کارکردگی پر بحث ہوتی ہے۔ اور اچھے کاموں کی تعریف میں بغض سے کام لیا جاتا ہے اور نہ غلط اقدامات کا جواز پیش کرنے کی کوشش ہوتی ہے۔ لیکن ہمارے ہاں سمجھ نہی آتی کہ ہماری سوچ کو گھن کیوں لگ گیا ہے؟
اس منفی سوچ کی ایک جھلک
ہمارے نام نہاد پڑھے لکھوں میں جو سوشل میڈیا کا استعمال کرتے ہیں، ان میں زیادہ نظر آتی ہے۔ کوئی اپنی رائے دے تو یہ لوگ اس کو سیاسی تعصب کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور بات اگر ان کی مرضی کے مطابق نہ ہو تو اپنی کم علمی اور ناسمجھی کا ثبوت اس کو طنزیہ یا گالی سمجھ کر یوتھیا اور پٹواری کہہ کر دے دیتے ہیں۔ حالانکہ دونوں بہت اچھے الفاظ ہیں۔
یوتھ یا یوتھیا کا اردو مطلب نوجوان ہے (ہیں)۔ جو اس ملک کی قابل فخر اکثریت اور ہماری قوم کا مستقبل ہیں۔ دوسرا پٹواری ہماری حکومتی مشینری اور مالی نظام کے اہم ترین افراد میں سے ایک ہے اور جس سے ان سب کا زندگی میں واسطہ ضرور پڑتا ہے جن کو اللہ تعالی نے زمین کے ایک ٹکڑے یا ذاتی گھر کی نعمت سے نوازہ ہے۔
لیکن تعلیمی طور پر واجبی سطح کے لوگ اور ذہنی بیمار اس طرح کے القاب استعمال کر کے اور اپنی جھوٹی انا کی تسکین کے لئے دوسروں کی دل آزاری کر کے بہت خوشی محسوس کرتے ہیں۔
بقول روف کلاسرہ ہم میں سے ہر ایک کا اپنا اپنا سچ ہے اور اپنا اپنا پسندیدہ سیاسی لٹیرا ہے۔
دنیا بھر میں ہمارے پیچھے رہ جانے کی یہ سب سے بڑی وجہ ہے۔
ہمارے صاحب اختیار (پوری قوم نہی) لوگوں کے نذدیک کردار کی کوئی اہمیت نہی۔ ایک چور اپنا لیڈر چور کو ہی پسند کرے گا۔ ورنہ رشوت خور افسر کا باس ایماندار ہو تو اس کو رشوت خوری نہی کرنے دیگا۔
امریکہ یا مغرب نے تو اس بات میں کوئی راز نہی چھوڑا کہ پاکستان کو تباہ کرنے کے لئے ضروری ہے کہ اس کے کرتا دھرتا نالائق اور بے ایمان لوگ ہوں۔ اور وہی کچھ ہو رہا ہے۔ اور ہر آنے والا دن ہماری مشکلات میں کمی ہونے کی نوید سنانے کی بجائے بڑھ جانے کی تکیف دہ خبر دیتا ہے۔
در ایں حالات ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم یہ تسلیم کر لیں کہ ہمارے راہنما ولی اللہ نہی ہیں۔ اس سے قطع نظر کہ وہ کون ہیں، اگر وہ ملک اور عوام کی بھلائی کا کوئی کام کریں تو ان کی تعریف ہونی چاہیے اور اگر وہ لوٹ مار کریں تو ان پر تنقید ہونی چاہیے۔
آئی ایم ایف سے قرض کے حصول کا معاملہ آجکل سیاسی تقسیم کے چاروں طرف رہنے والے مختلف نکتہ نگاہ کے لوگوں کے درمیان زیر بحث ہے۔ جو کہ اہم قومی مسئلہ ہے اور معاشرے میں پہلی بار اس پر بحث ہونا بجائے خود ایک مثبت رجحان ہے۔
اگر قرضے لیئے بغیر کام نہی چل رہا اور اس کے بغیر چارہ نہی تو یہ کڑوے گھونٹ مزید بھرنا پڑیں گے۔ لیکن اگر کسی سیاسی جماعت کا یہ مطالبہ ہے کہ پہلے نہ سہی لیکن اب اس میں شفافیت ہونی چاہیے۔ پوری قوم کو پتہ ہونا چاہیے کہ کتنی رقم ملکی خزانے میں آئی اور کہاں کہاں خرچ ہوئی، تو اس مطالبے پر تنقید کی بجائے اس کو پذیرائی ملنی چاہیے۔ عوام کو قرض کی رقم کی پائی پائی کی خبر ہونی چاہیے۔
آخر ماضی میں لئے ہوئے قرض کی طرح یہ نیا قرض بھی ہماری بدقسمت عوام نے ہی ٹیکسوں کی بھرمار کی شکل میں ادا کرنا ہے۔
اس طرح کے موضوعات پر سنجیدگی، علمیت اور ذمہ داری سے بحث ہونی چاہیے لیکن اس کا نتیجہ باہمی نفرتوں اور طنزو تشنیع کی شکل میں نہی نکلنا چاہیے۔
آئیں عہد کریں کہ ہم دلیل کے ساتھ بحث ضرور کریں گے لیکن کسی کی دل آزاری نہی کریں گے۔ اللہ ہم سب کی راہنمائی فرمائے اور ہم پر اپنے فضل کا کمال کر دے۔ آمین