زبان کی اہمیت سے کس کو انکار ہے۔ کسی قوم کی ترقی اور نشونما میں زبانوں کا کردار کلیدی ہے. یہ زبان ہی ہے جو کسی قوم کے باشندوں کو شناخت دیتی ہے، ان کی تاریخ اور تہذیب کو لفظوں میں پرو کر حیات دوام بخشتی ہے، اور اس معاشرے کے افراد کو باہم روابط قائم رکھنے میں ممد و معاون ہوتی ہے۔ یوں تو ہر ملک اپنے تعلیمی نصاب میں اپنی مقامی اور قومی زبانوں کی تعلیم کو شامل کرتا ہے۔ مگر جدید مواصلاتی نظام نے نہ صرف لوگوں کے لیے کاروبار، روزگار اور تفریح کے مواقع مہیا کیے ہیں، بلکہ غیر ملکی زبانوں کی اہمیت میں بھی اضافہ کر دیا ہے۔ آج کوئی بھی ملک دوسرے ممالک سے تعلقات کے بغیر استحکام کامل حاصل نہیں کر سکتا۔ اور یہی غیر ملکی زبانوں کے سیکھنے کا ایک بڑا محرک ہے۔ زبانوں کی تعلیم و تعلم یوں تو ہمیشہ مدارس کا ایک اہم جزو رہی ہے مگر دور حاضر میں اس کی بڑھتی ضرورت کے باعث علم لسانیات پر بے شمار تحقیقات کی گئیں اور زبانیں سیکھنے اور سکھانے کے نئے طریقے ایجاد ہونے لگے۔
اسی رجحان کے پیش نظر بہت سے ممالک اپنے تعلیمی اداروں میں غیر ملکی زبانوں کی تعلیم کو شامل نصاب کرتے ہیں۔ جس کا بنیادی مقصد طلبہ کو اس زبان کی وسیع، خوبصورت ثقافت سے روشناس کروانا ہے جو کہ اس کا خاصہ ہے۔ زبان نہ صرف اپنے قاری کو اس قوم کی تہذیب سے آشنا کرتی ہے بلکہ اس کی سوچ میں وسعت اور مزاج میں رواداری بھی پیدا کرتی ہے۔ اس کے علاوہ ایک سے زیادہ زبانیں بولنے اور سمجھنے والے لوگ عموما ذہین اور ادراکی صلاحیتوں میں تیز تر ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا کے ہر تعلیمی نظام میں علم لسانیات کو تعلیم کا ایک اہم شعبہ سمجھا جاتا ہے۔
ہمارے ملک پاکستان میں، جو کہ بذات خود رنگا رنگ خوبصورت زبانوں کا محور ہے، شاید ہی کوئی ایسا خواندہ شخص ہو گا جو دو یا تین زبانوں پر عبور نہ رکھتا ہو۔ بحثیت بین الاقوامی اور دفتری زبان، ہم انگریزی پر عبور تو حاصل کر لیتے ہیں، مگر اس سے ان علم کے پروانوں کی تشفی نہیں ہوتی جو پاکستان کی تہذیب اور اس کے قومی مذہب اسلام کی تہذیب و ثقافت سے خود کو جوڑنا چاہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے تعلیمی اداروں میں عربی ادب اور فارسی ادب کو بحثیت اختیاری مضامین شامل نصاب کیا گیا ہے۔ تاکہ صاحب شوق اس ملک کی تخلیق کے اصل محرک کو سمجھ سکیں اور اس سے وابستہ تہذیب کا مطالعہ کر سکیں۔
یہ اقدام اپنی ذات میں ہم وطنوں کے لیے ایک تحفہ ہے جس کی اہمیت سے انکار نہیں ۔ مگر یہ بات ناقابل فہم ہے کہ جس زبان کو سمجھنے اور بولنے کی صلاحیت طلبہ میں نہ ہو وہ اس کا ‘ادب’ پڑھنے کی صلاحیت کیسے رکھ سکتے ہیں۔ عموما جب کوئی ایسی زبان طلبہ کو سکھائی جاتی ہے جس پر ان کو پہلے سے عبور نہیں ہوتا تو اس کی بنیاد ایسے نصاب پر ہوتی ہے جو آسان اور زود ہضم ہو۔ جس میں آسان مکالموں اور سہل الفاظ کے استعمال سے طلبہ کو لکھنے اور بولنے کی مشق کروائی جائے تاکہ وہ زبان کو بحثیت زبان سیکھ سکیں اور اس کو خود تخلیق کرنے کے قابل ہو سکیں، نہ کہ رٹے رٹائے جوابات پرچے پر چھاپ کر نمبروں کی دوڑ میں شامل ہو جائیں۔
سال اول اور سال دوم کی عربی ادب کے نصاب میں کل پچاس سبق ہیں، جو برسوں سے بلا تجدید یوں ہی چلے آ رہے ہیں۔ ہر سبق (سوائے چند قرآنی آیات اور احادیث کے اسباق کے) انتہائی ثقیل عربی پر مشتمل ہے، جو کہ میری ناقص رائے میں عربی ادب کی نمائندگی کرنے سے بھی قاصر ہے۔ ان کا ترجمہ کرنے کے لیے غالباً اساتذہ بھی عربی لغت کے محتاج ہیں۔ کیونکہ عربی زبان کی عمیق اور طویل تاریخ کے پیش نظر کوئی عجمی ان سب الفاظ کا احاطہ نہیں کر سکتا جو اس کتاب میں شامل کیے گئے ہیں۔ زبان سیکھنے کے لیے اس کی چار لسانی مہارتوں (سننا، بولنا، پڑھنا، لکھنا) پر عبور حاصل کرنا زبان کے اتقان کا پہلا قدم ہے اور یہ نصاب کسی صورت بھی اس کا حق ادا نہیں کر سکتا۔
یہ درست ہے کہ یہ طلبہ بچپن سے جس نظام تعلیم کا حصہ رہے ہیں، ان کے لیے ایک اجنبی زبان کا ترجمہ یاد کر لینا یا مشق کے آخر میں دیے گئے سوالوں کو جوں کا توں یاد کر لینا کچھ ایسا مشکل کام نہیں ہے۔ دو سال عربی کے مضامین پڑھ کر طلبہ بلاشبہ بہت سے عربی الفاظ کے معانی سے واقف ہو جاتے ہیں۔ مگر اس علم کو وہ کبھی عملی زندگی میں استعمال کر سکتے ہیں نہ اس کے ذریعے اسلام یا عربی ثقافت سے ہی آگاہی حاصل کر پاتے ہیں۔ اور یہ ذخیرہ الفاظ کچھ ہی عرصے میں ان کے ذہنوں سے محو ہو جاتا ہے۔ اور یہ عمل طلبہ سے کہیں زیادہ اساتذہ کے لیے تکلیف دہ ہے۔ کئ مرتبہ ارباب اختیار سے عربی اور فارسی کے نصاب پر نظر ثانی کی درخواست بھی کی گئی ہے مگر معاملہ ہر مرتبہ تاخیر کا شکار ہو جاتا ہے۔
ہمیں الفاظ کو رٹ کر نمبر لینے والی نسل سے زیادہ ایسے نوجوانوں کی ضرورت ہے جو اپنی ثقافت سے جڑے ہوں، اس کی خوبصورت تہذیب کو سمجھتے ہوں، اور اس کی زبان کو سمجھنے کی صلاحیت رکھتے ہوں۔افسوس کا مقام ہے کہ ایک ایسا ملک جو اسلام کے نام پر قائم کیا گیا وہاں اسلام کی زبان بولنے والے محض گنتی کے چند لوگ ہیں۔
درخواست ہے کہ انٹرمیڈیٹ کے نصاب میں شامل عربی ادب اور فارسی ادب کے ساتھ ساتھ اگر عربی اور فارسی ‘زبان’ کا مضمون بھی داخل کر دیا جائے تو یہ ان شعبوں کے لیے ہی نہیں، اس ملک کے لیے بھی ایک احسن اقدام ہو گا۔ گو یہ طلبہ کی اس زبان سے تعارف کی پہلی سیڑھی ہو گی، مگر ان زبانوں میں دلچسپی رکھنے والوں کے لیے اس قدر تعارف ہی ان کے مستقبل کا تعین کرنے کے لیے کافی ہو گا۔