کالج دور سے ہی میں اپنے قرب و جوار کے عزیز دوستوں کی انکے آباؤ اجداد سے پیپلز پارٹی کے حوالے سے ان کی ایفیلیشنز دیکھتا آرھا ہوں اور انہیں اپنی پارٹی سے بہت زیادہ جذباتی حد تک منسلک دیکھتا تھا میری سمجھ میں نہیں اتا تھا کہ ایسا کیوں ہے۔۔۔!!
میں سمجھتا ہوں سیاسی نظریات اور انداز سیاست پہ مختلف جماعتوں کے سیاسی کارکنان کئ رائے کا آپسی اختلاف جمہوریت کا حسن ہوتا ہے مگر یہ اختلاف اگر اخلاقیات کے تقاضوں سے ہوتا ہوا فقط سیاست کی حد تک ہی ہوتو مزید بھلا لگتا ہے۔۔
ایک مدت ہوئی ہے میرا عملی سیاست سے ماسوائے ووٹ دینے کی حد سے بہت زیادہ حد تک دلچسپی نہیں رھی۔۔ البتہ بھائی اسحاق خان دستی اور مانی بھائی کے ساتھ ایک دوستانہ تعلق محبت پیار اور عقیدت کا رشتہ ہے تو ان کے اصرار پہ اس بار میں ان کے ساتھ یہ سوچ کر گورنر ھاوس گیا نئے ورکر کلاس جیالا کی بطور گورنر تقرری ہوئی ہے تاکہ جائزہ لے سکوں کہ پاکستان پیپلز پارٹی میں ایسی کیا بات ہے کہ نصف صدی گزر جانے کے باوجود اس کے لوگ اس کے سحر میں مبتلا ہیں اور اس کے لیے وہ ابھی تک اپنی جدوجہد اور اپنی کمٹمنٹ پہ قائم ہیں تو گورنر ہاؤس لاہور میں پہنچتے ہی مجھے اندازہ ہوا کہ پاکستان پیپلز پارٹی میں جو سب سے اہم ہے وہ ہے احترام عزت وقار اور اپنے ورکرز اپنے عہدے داروں کی حوصلہ افزائی ہے۔۔
"بقول گورنر اگر کسی ورکر کلاس سے عام شخص نے فقط عزت کے لیے سیاست کا سوچا ہوتو شاید انکی جماعت اس کے لیے بہترین ہوسکتی ہے۔۔”
عزیزم دستی صاحب چونکہ خود ورکر کلاس سے تعلق رکھتے ہیں اور پاکستان پیپلز پارٹی کی طرف سے صوبائی اسمبلی کے ٹکٹ پر ابھی پہلا الیکشن لڑے ہیں گویا انہیں جماعت میں باقاعدہ ائے چند ماہ ہوئے لیکن مجھے حیرت اس وقت ہوئی کہ جب سردار سلیم حیدر صاحب گورنر پنجاب کو نہ صرف یہ علم تھا کہ ان کے امیدوار نے کب کس حلقہ سے کس قدر ڈیڈیکیشن سے الیکشن لڑا۔۔۔
انکی باخبری اس حد تک تھی کہ
ابھی ایک روز پہلے برادرم دستی صاحب کا نکاح ہوا ہے جمعہ کے روز اور وہ نکاح کے فورا بعد اپنی ملاقات کے شیڈول کے مطابق ان سے ملنے کے لیے آئے ہیں تو گورنر صاحب نے جناب اسحاق دستی صاحب کو نکاح کی مبارک باد دیتے ہوئے ان کے گلے میں مالا ڈالے اور اظہار محبت بھی کیا۔۔
مانی بھائی جو کی محترمہ بینظیر بھٹو صاحب کے ٹیم ممبر تھے کئ بطور ورکر اپنے وسیب کے ورکروں کے حقوق کے مقدمے پہ انقلابیت سے لبریز تند و تیز گفتگو کو ورکر گورنر کی طرف سے جس تحمل صبر و برداشت و خندہ پیشانی سے سے سنا سہا گیا و آئندہ اطمینان کے جملوں سے نوازا گیا
یہ منظر بھی یقیناً جماعت کے مضبوط جمہوری کلچر کی عکاسی تھا۔۔
خیررر ملاقات ہوئی یونیورسٹی آف لیہ سمیت دیگر اہم امور پہ بات چیت ہوتے ہی فوری عملی طور پہ ٹیلیفونک ھدایات جاری کی گئیں۔۔
مختصر ملاقات کے مختصر جائزہ سے مجھے اندازہ ہوا کہ لیہ کے میرے پاکستان پیپلز پارٹی کے جیالوں ورکرز و انکے اجداد کی نصف صدی سے زائد عرصہ کی پاکستان پیپلز پارٹی کے جیالوں کا جنون انکی پارٹی ایفیلیشن کس قدر حقیقی و جائز ہے
اور بلا تردد یہ سوچ آئی کہ بلاشبہ جماعت کے سیاسی کلچر میں قیادت و ورکرز پہ مبنی ایک مضبوط خاندان کا سا تصور ہے جو بہت مضبوط رشتوں پر قائم ہے۔۔۔
جن رشتوں کی کم از کم دیگر سیاسی جماعتوں میں اپنی گراؤنڈ تنظیمات میں ترویج بقدرے کم محسوس ہوتی ہے۔