اسلام آباد ہائیکورٹ نے انتظامیہ کے پر کاٹ دیے:
اسلام آباد ہائیکورٹ نے انتظامی افسران کو بطور ایگزیکٹو مجسٹریٹ مقدمات کے فیصلوں سے روک دیا ہے۔
عدالت عالیہ اسلام آباد کے جسٹس ارباب محمد طاہر نے ایگزیکٹو کے جوڈیشل اختیارات استعمال کرنے کے خلاف کیس کا فیصلہ جاری کردیا ہے۔
فیصلے میں کہا گیا کہ اسلام آباد میں صرف عدالتیں ہی جوڈیشل اختیارات استعمال کر سکتی ہیں، جوڈیشل اختیارات کا استعمال صرف آرٹیکل 175 (3)، 202 اور 203 کے تحت ہی ہو گااسلام آباد ہائیکورٹ کے فیصلے میں انتظامی افسران کو بطور ایگزیکٹو مجسٹریٹ مقدمات کے فیصلے سے روکتے ہوئے کہا کہ آئینی شقوں کے خلاف جوڈیشل اختیارات کا استعمال غیر آئینی ہے۔
جسٹس ارباب محمد طاہر کے جاری کردہ فیصلے کے ذریعے سے کوڈ آف کریمنل پروسیجر میں ترمیم کر کے صوبائی حکومتوں کا ایگزیکٹو مجسٹریٹس تعینات کرنے کا اختیار واپس لیا گیا۔
عدالتی فیصلے میں مزید کہا گیا کہ یہ بات تشویشناک ہے کہ وفاقی حکومت 23 سال گزرنے کے باوجود نوٹیفکیشن جاری نہیں کر سکی، نوٹیفکیشن جاری ہونے تک ایگزیکٹو مجسٹریٹس زیر التوا کیسز کا فیصلہ نا سنائیں۔
عدالت عالیہ اسلام آباد کے فیصلے میں یہ بھی کہا گیا کہ ترمیمی آرڈیننس کے نفاذ کے بعد ایگزیکٹو مجسٹریٹس کیسز کا ریکارڈ متعلقہ سیشن ججز کو بھجوائیں، سیشن ججز ان کیسز پر قانون کے مطابق فیصلے کےلیے موصول شدہ فائلز جوڈیشل مجسٹریٹس کو بھجوائیں۔
جسٹس ارباب محمد طاہر کے فیصلے میں کہا گیا کہ آرٹیکل 175(3) واضح اور غیر مبہم ہے جس میں عدلیہ اور ایگزیکٹو کو الگ کیا گیا، عدلیہ کو ایگزیکٹو سے علیحدہ کرنے کی فارمیلٹیز پوری کرنے کےلیے 14 سال کا وقت دیا گیا۔
عدالتی فیصلے میں کہا گیا کہ 14 سال کا وقت 14 اگست 1987 کو مکمل ہوا مگر اس کے باوجود انتظامی افسران جوڈیشل اختیارات استعمال کر رہے ہیں، عدلیہ کو ایگزیکٹو سے علیحدہ کرنے کےلیے مقرر کیے گئے وقت کے بعد تاخیر غیر آئینی ہے۔
عدالت عالیہ اسلام آباد کے فیصلے میں کہا گیا کہ آئین کے ہر لفظ کا ایک مطلب اور مقصد ہے، 2001 میں کوڈ آف کریمنل پروسیجر میں ترمیم کا آرڈیننس آیا، جس نے ایگزیکٹو مجسٹریٹس کے اختیارات ختم کیے۔
فیصلے میں مزید کہا گیا کہ ترمیم کے تحت صوبائی حکومت کا ڈسٹرکٹ اور ایڈیشنل ڈسٹرکٹ مجسٹریٹس تعینات کرنے کا اختیار ختم کیا گیا، دوسری ترمیم کے ذریعے اس کا دائرہ کار اسلام آباد تک بڑھایا گیا، جس کا نفاذ 14 اگست 2001 کو ہوا۔
اسلام آباد ہائیکورٹ کے فیصلے میں یہ بھی کہا کہ 23 سال گزرنے کے باوجود وفاقی حکومت کی جانب سے اس کا گزٹ نوٹیفکیشن جاری نہیں ہوا، وزارت قانون تفصیلی جواب میں بھی اس تاخیر کی کوئی وجہ نہ بتا سکی۔