جے یو آئی میں ’الیکٹیبلز‘ کی شمولیت: کیا بلوچستان کی سیاسی بساط پر مولانا فضل الرحمان کی پوزیشن بہتر ہو رہی ہے؟
محمد کاظم
پاکستان میں حکمراں جماعتوں کے سیاسی اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) میں شامل اہم جماعت جمعیت علمائے اسلام (ف) بظاہر اب صوبہ بلوچستان میں اپنی سیاسی ساکھ مستحکم کرتی نظر آ رہی ہے۔صوبے کی سیاسی و قبائلی اثر و رسوخ رکھنے والی متعدد شخصیات نے حالیہ دنوں میں جے یو آئی میں شمولیت اختیار کی ہے۔ ان رہنماؤں میں سب سے قابل ذکر سابق وزیر اعلیٰ بلوچستان نواب اسلم رئیسانی ہیں۔جمیعت علما اسلام ف کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کی زیر قیادت ہونے والے ورکرز کنونشن میں نواب اسلم رئیسانی کے علاوہ میر ظفر اللہ زہری، میر غلام دستگیر بادینی اور میر امان اللہ خان نوتیزئی بھی شامل ہیں۔اس موقع پر جے یو آئی کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے ورکرز کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ان شخصیات کی شمولیت سے ان کی جماعت صوبے میں مضبوط ہو گی اور بلوچستان کا مستقبل اب جے یو آئی سے وابستہ ہے۔بلوچستان سے تعلق رکھنے والے سیاسی تجزیہ کاروں کے مطابق اگر بلوچستان کی سیاسی تاریخ پر نظر ڈالیں تو عام انتخابات سے قبل صوبے کی متعدد سیاسی اور قبائلی شخصیات عموماً اُن سیاسی جماعتوں کا رُخ کرتی رہی ہیں جن کو مبینہ طور پر اسٹیبلیشمنٹ کی آشیرباد حاصل ہو۔
اور اب ان ’الیکٹیبلز‘ اور اثر و رسوخ رکھنے والے رہنماؤں کی جے یو آئی میں شمولیت ایک ’معنی خیز‘ تناظر میں دیکھی جا رہی ہے۔
تاہم جے یو آئی کے مرکزی رہنما حافظ حمداللہ کا کہنا ہے کہ جے یو آئی اسٹیبلشمنٹ کی جماعت نہیں بلکہ عوام میں جڑیں رکھنے والی مضبوط جماعت ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ان سیاسی اور قبائلی شخصیات کی شمولیت سے جے یو آئی مزید مضبوط ہو گی اور اکثریت ملنے کی صورت میں ہم آئندہ عام انتخابات کے بعد بلوچستان میں اپنی حکومت بنائیں گے۔
سیاسی مبصرین کے مطابق جے یو آئی میں بااثر شخصیات کی شمولیت سے نہ صرف صوبے میں اس کی سیاسی پوزیشن مستحکم ہوئی ہے بلکہ مستقبل میں جے یو آئی کے بلوچستان میں حکومت بنانے کے امکانات بڑھ گئے ہیں۔
جے یو آئی میں شامل ہونے والے بااثر سیاسی افراد کون ہیں؟
جے یو آئی میں شامل ہونے والے سیاسی و قبائلی میں سابق وزیر اعلیٰ بلوچستان نواب اسلم رئیسانی سرفہرست ہیں۔ وہ نہ صرف رئیسانی قبائل کے سربراہ ہیں بلکہ ’چیف آف ساراوان‘ بھی ہیں۔بلوچستان کے قبائلی نظام میں خان آف قلات کے بعد چیف آف ساراوان کا نمبرآتا ہے جس کی بنیاد پر ان کو ’خان ثانی‘ بھی کہا جاتا ہے۔نواب اسلم رئیسانی پہلی مرتبہ پاکستان نیشنل پارٹی کے ٹکٹ پر رکن بلوچستان اسمبلی منتخب ہوئے تاہم بعد میں انھوں نے پیپلز پارٹی میں شمولیت اختیار کی۔ سنہ 2008 کے عام انتخابات میں پیپلز پارٹی کی ٹکٹ پر کامیابی کے بعد وہ بلوچستان کے وزیر اعلیٰ بنے۔جے یو آئی میں شامل ہونے والے دوسرے اہم رہنما میر ظفراللہ زہری ہیں جو زہری قبائل کے سربراہ نواب ثنا اللہ زہری کے چھوٹے بھائی ہیں۔میر ظفراللہ زہری 2008 میں قلات کی نشست سے بلوچستان اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے اور نواب اسلم رئیسانی کی قیادت میں بننے والی حکومت میں وزیر داخلہ رہے۔سنہ 2018 کے انتخابات سے قبل بننے والے ضلع سوراب سے بلوچستان اسمبلی کی نشست پر ظفراللہ زہری اپنے بھائی نوابزادہ نعمت اللہ زہری کے مقابل انتخاب لڑے تھے مگر انھیں کامیابی نہیں ملی تھی۔الیکشن جیتنے کی صلاحیت رکھنے والی جس تیسری شخصیت نے جے یو آئی میں شمولیت اختیار کی وہ میر امان اللہ خان نوتیزئی ہیں جن کا تعلق ایران سے متصل بلوچستان کے ضلع چاغی سے ہے۔وہ 2018 کے عام انتخابات میں اگرچہ دوسرے نمبر پر رہے لیکن 2002 سے 2013 کے انتخابات میں ضلع چاغی سے بلوچستان اسمبلی کی نشست پر کامیابی حاصل کرتے رہے ہیں۔جے یو آئی میں شامل ہونے والے چوتھے فرد میر غلام دستگیر بادینی ہیں، جن کا تعلق ضلع نوشکی سے ہے۔ وہ 2013 کے عام انتخابات میں رکن بلوچستان اسمبلی منتخب ہوئے تھے۔
’جے یو آئی اور شامل افراد دونوں کو فائدہ ہو گا‘
صوبے کی سیاست پر نظر رکھنے والے مبصرین کے مطابق بااثر افراد کی جے یو آئی میں شمولیت کا فائدہ نہ صرف جے یو آئی بلکہ ان افراد کو خود بھی ہو گا۔کوئٹہ سے سینیئر تجزیہ کار شہزادہ ذوالفقار نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ کوئٹہ سے متصل ضلع مستونگ کی نشست سے اگرچہ نواب اسلم رئیسانی زیادہ تر منتخب ہوتے رہے لیکن اس بار ان کے لیے انتخابی معرکہ اسٹیبلشمنٹ کے بارے میں سخت موقف کے باعث مشکل ہو گیا ہے۔شہزادہ ذوالفقار نے بتایا کہ مستونگ سے بلوچستان اسمبلی کی نشست پر جے یو آئی کا اچھا خاصا ووٹ بینک ہے جو نواب اسلم رئیسانی کی شمولیت کے باعث انھیں ملے گا۔ان کا کہنا تھا کہ اسی طرح بلوچستان اسمبلی کی نشست سوراب میں بھی جے یو آئی کا ووٹ بینک ہے جبکہ ضلع چاغی اور نوشکی میں بھی جمیعت علمائے اسلام کا ووٹ بینک ہے جس کے وجہ سے یہاں سے ان امیدواروں کی پوزیشن مستحکم ہو گی۔ان کا کہنا ہے کہ ان شخصیات کی پارٹی میں شمولیت سے انھیں اور جے یو آئی دونوں کو فائدہ ملے گا۔شہزادہ ذوالفقار کا کہنا تھا کہ ’ان شخصیات کا یہ فائدہ ہو گا کہ جے یو آئی کے ووٹ ملنے سے ان کے کامیابی کے امکانات بڑھیں گے جبکہ ان کی کامیابی کی صورت میں جے یوآئی کو بلوچستان اسمبلی میں فائدہ ملنے کے ساتھ ساتھ قومی اسمبلیوں کی نشستوں پر بھی فائدہ پہنچے گا۔شہزادہ ذوالفقار کا کہنا تھا کہ 2018 میں جے یو آئی کے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ تعلقات خراب ہو گئے تھے جس کے باعث خود مولانا فضل الرحمان بھی اپنی نشست جیت نہیں سکے تاہم اب صورتحال کچھ بہتر نظر آتی ہے۔ان کا کہنا تھا کہ بلوچستان کے بیشتر عوامی حلقوں میں یہ لہر چل پڑی ہے کہ جے یو آئی بلوچستان میں ایک مقبول جماعت بننے والی ہے جبکہ خود مولانا فضل الرحمان بھی سیاسی و قبائلی رہنماؤں کو عندیہ دے رہے ہیں کہ بلوچستان میں آئندہ حکومت انھی کی ہو گی۔انھوں نے بتایا کہ عام انتخابات میں عموماً جے یو آئی کے حصے میں بلوچستان اسمبلی کی دس سے گیارہ نشستیں آتی ہیں، تاہم اس مرتبہ یہ جماعت 16 سے 20 نشستیں حاصل کرنے کے تخمینے لگا رہی ہے۔ان کا کہنا تھا کہ نواب اسلم رئیسانی کی صورت میں جے یو آئی کو بلوچستان میں وزیر اعلیٰ کے لیے ایک امیدوار بھی مل گیا ہے کیونکہ نواب اسلم رئیسانی ایک آزمائے ہوئے وزیر اعلیٰ ہیں۔
بلوچستان میں ماضی میں حکومتیں بنانے کے حوالے سے اسٹیبلشمنٹ کی کردار سے متعلق سوال پر ان کا کہنا تھا کہ بظاہر جہاں پی ڈی ایم کے اسٹیبلشمنٹ سے تعلقات بہتر ہوئے ہیں وہیں اسٹیبلشمنٹ کے حوالے سے بھی ایک تبدیلی دیکھنے میں آ رہی ہے۔
’بلوچستان کے حالات کی تناظر بالخصوص نوشکی اور پنجگور میں سکیورٹی فورسز کے کیمپوں پر ہونے والے حملوں کے بعد یہ خیال پایا جاتا ہے کہ عوامی مینڈیٹ کو صرف نظر کرتے ہوئے مصنوعی قیادت کو لانا سے بلوچستان کے مسائل میں اضافہ ہوا ہے۔‘
سیاسی تجزیہ کار رضا الرحمان کا کہنا تھا کہ بظاہر جے یو آئی کے آئندہ حکومت بنانے کے امکانات روشن ہیں اور اگر بالفرض ایسا نہیں بھی ہوا تو حکومت میں ان کا بڑا حصہ تو ضرور ہو گا۔
انھوں نے کہا کہ اب فوج کی جانب سے کہا گیا ہے کہ وہ نیوٹرل رہیں گے چنانچہ اب ایسا لگ رہا کہ بلوچستان میں اس مرتبہ عوامی مینڈیٹ پر انحصار کیا جائے گا۔
تجزیہ کار سید علی شاہ کا کہنا ہے کہ جے یو آئی کی بلوچستان میں ہمیشہ نمائندگی رہی ہے اور اس نے زیادہ تر مخلوط حکومتوں کی حمایت کی ہے۔ ان کے مطابق موجودہ اسمبلی میں سب سے بڑی جماعت بلوچستان عوامی پارٹی ہے لیکن وہ نظریاتی سیاسی جماعت نہیں ہے۔
’اگر نظریاتی سیاسی جماعت کے حوالے سے دیکھا جائے تو بلوچستان اسمبلی میں سب سے بڑی جماعت اب بھی جے یو آئی ہے۔‘
سید علی شاہ کا کہنا تھا کہ ’ماضی میں صوبے میں اسٹیبلشمنٹ کی حمایت یافتہ سیاسی جماعتیں برسر اقتدار رہی ہیں جن میں چین آف کمانڈ کمزور تھا لیکن جے یو آئی کا چین آف کمانڈ مضبوط ہے جس کے باعث اس میں شامل ہونے والے الیکٹیبلز پارٹی پالیسی کے خلاف نہیں جا سکیں گے۔‘
’جے یو آئی اسٹیبلشمنٹ کی جماعت نہیں
جمعیت علما اسلام ف کے مرکزی رہنما سینیٹر حافظ حمد اللہ نے بی بی سی بات کرتے ہوئے کہا اس بات کی نفی کی کہ انھیں بلوچستان میں کسی بھی طرح سے اسٹیبلمشنٹ کی آشیرباد حاصل ہے۔ان کا کہنا تھا کہ جو بھی لوگ جماعت میں شامل ہوتے ہیں ہم ان کو خوش آمدید کہتے ہیں تاہم ہماری سیاسی جماعت کا دستور اور منشور ہے اور شامل ہونے والوں نے اسے قبول کیا ہے۔انھوں نے کہا کہ جو لوگ اسٹیبلشمنٹ کے کہنے پر کسی جماعت میں آتے یا جاتے ہیں سوالات تو ان سے بنتے ہیں انھوں نے کہا کہ ان سیاسی شخصیات کی شمولیت سے بلوچستان کی سیاست پر بہت اثر پڑے گا اور اگر انتخابات میں اکثریت ملی تو ہم ضرور بلوچستان میں اپنی حکومت بنانے کی کوشش کریں گے۔ حافظ حمد اللہ کا کہنا تھا کہ اگر صاف اور شفاف انتخابات ہوئے تو اس سے بلوچستان میں جے یو آئی کی حکومت بنے گی۔
موجودہ اسمبلی میں جے یو آئی کے اراکین کی تعداد کتنی ہے؟
بلوچستان اسمبلی کے کل اراکین کی تعداد 65 ہے جن میں جے یو آئی کے اراکین کی تعداد 11 ہے۔اراکین کی تعداد کے لحاظ سے جے یو آئی بلوچستان میں دوسری بڑی جماعت ہے۔ ماضی میں جے یو آئی زیادہ تر مخلوط حکومتوں کا حصہ رہی ہے لیکن موجودہ اسمبلی میں وہ متحدہ حزب اختلاف کا حصہ ہے۔
بہ شکریہ بی بی سی اردو