طالبان دہشتگردی کے خلاف ’توقعات‘ پر پورے نہیں اترے، پاکستان
پاکستانی وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ افغان طالبان سے متعلق پالیسی پر نظر ثانی کی جاسکتی ہے لیکن انہیں تنہا نہیں چھوڑ سکتے۔بلاول بھٹو کا کہنا تھا کہ طالبان کو دوحہ امن معاہدے میں کیے گئے وعدے پورے کرنا ہوں گے۔
پاکستان اور افغانستان کے درمیان سرحدی کشیدگی کی باز گشت پاکستانی وزیر خارجہ کے دورہ امریکہ میں بھی نمایاں طور پر سنائی دی۔ بلاول بھٹو زرداری نے اقوام متحدہ میں منعقدہ ایک تقریب سے خطاب کے دوران خبردار کیا کہ پاکستان کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) سمیت دیگر عسکریت پسند گروپوں کی سرحد پار دہشت گردی برداشت نہیں کرے گا اور یہ کہ اسلام آباد ان کے خلاف براہ راست کارروائی کرنے کا حق محفوط رکھتا ہے۔
خیال رہے کہ پاکستانی سکیورٹی فورسز اور افغان طالبان کے درمیان ہونے والی حالیہ سرحدی جھڑپوں میں دونوں طرف کا جانی و مالی نقصان ہوا ہے۔
نیویارک میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب میں پاکستانی وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ پاکستان افغان طالبان سے متعلق اپنی حکمت عملی پر نظر ثانی کر سکتا ہے لیکن وہ کابل کے ساتھ بات چیت کے خاتمے کا متحمل نہیں ہو سکتا۔
افغان طالبان سے ’مایوس‘
بلاول بھٹو نے 16 دسمبر 2014ء کو آرمی پبلک اسکول پشاور پر دہشت گردانہ حملے میں ہلاک ہونے والوں کی یاد میں منعقدہ ایک تقریب میں بھی شرکت کی۔ اس موقع پر پاکستانی وزیر خارجہ نے کہا کہ کابل کے طالبان حکمران ٹی ٹی پی کو سرحد پار دہشت گردانہ حملے کرنے سے قائل یا روک سکنے سے متعلق پاکستان کی امیدوں اور توقعات پر پورا اترنے میں ناکام رہے ہیں۔
انہوں نے یاد دلایا کہ افغان طالبان نے دوحہ میں امریکہ کے ساتھ امن معاہدے پر دستخط کرنے اور اس کے بعد کے اعلانات میں بھی اپنی سر زمین کو دہشت گردی کے لیے استعمال نہ ہونے دینے کا وعدہ کیا تھا۔ بلاول کا کہنا تھا، ”لیکن اس مقصد کی طرف کی جانے والی کوششیں ناکام نظر آتی ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ ٹی ٹی پی پاکستان کے خلاف اعلان جنگ کرنے پر آمادہ ہو گئی ہے۔ اس کے حملے تیز ہو گئے ہیں۔‘
عبد الولی خان یونیورسٹی مردان میں بین الاقوامی تعلقات کے پروفیسر ڈاکٹر عبدالشکور کا کہنا ہے کہ پاکستان اور افغان طالبان کے درمیان تعلقات کو علاقائی اور بین الاقوامی حالات کے تناظر سے الگ کر کے نہیں دیکھا جا سکتا۔ انہوں نے کہا، ” دوحہ معاہدے میں طالبان کو بھی کچھ یقین دہانیاں کرائی گئی تھیں، جن میں معیشت کی بحالی کے لیے افغانستان کے منجمد اثاثوں کی بحالی بھی شامل تھی۔ لیکن ابھی تک ایسا نہیں ہوا۔ طالبان حکومت شدید مالی مشکالات کا شکار ہے اور اس پر بہت سے بیرونی اور اندرونی دباؤ بھی ہیں لہٰذا طالبان قیادت اب رد عمل کے طور پر ان چیزوں سے روگردانی کر رہی ہے، جن کو انجام دینے کا انہوں نے وعدہ کیا تھا۔‘‘
ڈاکٹر عبدالشکور کا کہنا تھا کہ طالبان کو پاکستان کے ساتھ کشیدگی کا ایک فائدہ بھی ہے۔ اس بارے میں وضاحت کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ” افغانستان میں پاکستان مخالف جذبات تو بہر حال موجود ہیں تو طالبان اس تاثر کو زائل کر رہے ہیں کہ وہ پاکستان کی پراکسی ہیں یا اس کے طابع ہیں تو اس لیے اس کشیدگی کا انہیں اندرونی طور پر ایک سیاسی فائدہ ہے، خاص کر ان علاقوں میں جہاں پاکستان کے افغانستان کے حوالے سے کردار پر شدید تحفظات پائے جاتے ہیں۔‘‘
بھارت پر دہشت گردی کی حمایت کا الزام
پاکستانی وزیر خارجہ نے بھارت پر ٹی ٹی پی کے دہشت گردوں کو پاکستان پر حملہ کرنے کی ترغیب دینے کا الزام بھی لگایا۔ انہوں نے کہا کہ ”ہماری انٹیلی جنس ایجنسیوں کے پاس ہمارے مشرقی پڑوسی کے ایجنٹوں اور کابل میں سابقہ حکومت کے عناصر کی طرف سے ٹی ٹی پی کو فراہم کی گئی مالی اور تنظیمی مدد اور ہدایات کے ٹھوس ثبوت موجود ہیں۔‘‘
بلاول بھٹو کا یہ بھی کہنا تھا کہ پاکستان نے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل اور سلامتی کونسل کو جامع معلومات فراہم کی ہیں جن میں ان کے بقول، ”ٹی ٹی پی اور پاکستان کے خلاف کام کرنے والے دیگر دہشت گرد گروپوں کی بیرونی حمایت کے ٹھوس شواہد موجود ہیں۔‘‘
پاکستانی کے اس اعلٰی ترین سفارتکار نے امید ظاہر کی کہ اقوام متحدہ کی انسداد دہشت گردی کی مشینری اس وقت افغانستان اور ملحقہ خطوں سے پھیلنے والے دہشت گردی کے خطرے سے جامع اور مؤثر انداز میں نمٹے گی۔
انہوں نے کہا، ”ہمیں ان دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہوں کو ختم کرنے کی ضرورت ہے۔ ان کی مالی اعانت اور کفالت کے ذرائع کو ختم کرنا اور دہشت گردانہ حملوں یا اس طرح کے حملوں کی سرپرستی اور مالی معاونت کے لیے ذمہ دار افراد اور اداروں کو نشانہ بنانا اور ان کو پکڑنا ہے۔‘‘
شکریہ ڈی ڈبلیو نیوز